شہید کربلا، نواسۂ نبیﷺ سیدنا حسینؓ بن علیؓ
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
نبی کریمﷺ کے چچا سیدنا عباسؓ کی اہلیہ اور نبیﷺ کی چچی محترمہ ام الفضل سیدہ لبابہ بنت الحارث نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ آپﷺ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا الگ کر کے میری آغوش میں رکھا گیا ہے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ آپ نے بڑا چھا خواب دیکھا ہے۔
میری بیٹی فاطمہؓ ایک لڑکے کو جنم دے گی اور وہ آپ کی آغوش میں آئے گا۔ سیدہ ام الفضلؓ کا بیان ہے کہ حسینؓ پیدا ہوئے تو بمطابق فرمان نبیﷺ وہ میری آغوش میں آئے۔
سیدنا حسینؓ کی ولادت ہوئی تو نبی ﷺ نے ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا اور سیدہ فاطمہ ؓ نے ان کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔ آپؓ کا اسم گرامی بھی خود نبیﷺ نے رکھا۔ سیدنا حسینؓ کا زیادہ وقت نبیﷺ کے زیر سایۂ شفقت گزرتا تھا۔ دورانِ نماز جب نبیﷺ حالتِ سجدہ میں جاتے تو حضرت حسینؓ آپﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے تھے۔ نبیﷺ جب کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو حضرت حسینؓ بھی آپﷺ کے استقبال کے لیے تشریف لے جاتے۔ چناںچہ ایک مرتبہ سیدنا حسینؓ نبیﷺ کے استقبال کے لیے تشریف لے گئے تو نبیﷺ نے انہیں اپنے ساتھ اپنی سواری پر بٹھا لیا حتیٰ کہ مدینہ پہنچ گئے۔
آپﷺ کو اپنے دوسرے نواسوں کی طرح سیدنا حسینؓ سے بھی از حد محبت تھی۔ سیدنا عبداللّہ بن عمرؓ کے الفاظ ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ حسنؓ و حسینؓ میرے دو پھول ہیں۔ ایک مرتبہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جسے کسی جنتی کو دیکھنا ہو تو وہ حسینؓ کو دیکھ لے۔ ایک دفعہ نبیﷺ کے نماز پڑھتے ہوئے میں حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ نبی ﷺ کی پیٹھ پر چڑھ گئے، گھر والوں نے اتارنا چاہا تو آپﷺ نے اشارے سے منع فرمایا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد دونوں کو اپنی آغوش میں بٹھا کر پیار کیا اور فرمایا کہ جسے مجھ سے محبت ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبیﷺ سیدنا حسینؓ کو گود میں اٹھائے ہوئے فرمارہے تھے کہ اے اللّہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر۔
امیرالمؤمنین سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں سیدنا خالدؓ بن ولید نے حیرہ کا علاقہ فتح کیا تو وہاں کے اموال امیرالمؤمنینؓ کی خدمت میں بھیجے۔ ان میں طیلسان کی چادریں بھی تھیں۔ امیرالمؤمنینؓ نے ان قیمتی چادروںمیں سے ایک چادر سیدناحسینؓ کو بھی دی۔ امیرالموُمنین سیدنا فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت میں یمن سے بہت سے عمدہ کپڑے امیرالمؤمنینؓ کو بھیجے گئے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ صحابہؓ کی اولادوں کو یہ کپڑے تقسیم فرمائے، مگر سیدین حسنینؓ کے لیے کوئی اچھا کپڑا نہ پایا تو یمن کے گورنر کو پیغام دیا کہ سیدین حسنینؓ کے لیے عمدہ لباس بھیجے۔ تو وہ لباس سیدین حسنینؓ کو دے کر امیرالمؤمنینؓ نے فرمایا کہ اب مجھے خوشی ہوئی ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے مالی وظائف مقرر کیے تو سیدین حسنینؓ کے لیے بدری صحابہؓ کے برابر پانچ پانچ ہزار دراہم سالانہ مقرر کیے۔
امیرالمومنین سیدنا عثمان ذوالنورینؓ جب عمرے کے لیے عازم ہوئے تو سیدنا حسینؓ کو بھی ساتھ لے گئے راستے میں سیدنا حسینؓ علیل ہوگئے تو انہوں نے اپنے ساتھ آئے ہوئے سیدنا عبدؓ اللّہ بن جعفرؓ کو سیدنا حسینؓ کی دیکھ بھال کے لیے ٹھہرایا اور ایک قاصد مدینہ بھیجا کہ سیدنا علیؓ کو اس بابت مطلع کیا جائے اور خود عمرے کے لیے تشریف لے گئے۔ سیدنا علیؓ جب سیدنا حسینؓ کے پاس پہنچے تو ان کی تیمارداری کے لیے وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ اتنے میں امیرالمومنین عثمانؓ لوٹے تو انہوں نے سیدنا علیؓ کو بتایا کہ میں تو یہاں رکنا چاہتا تھا مگر حسینؓ نے مجھے قسماً عمرہ ادا کرنے کو کہا تو مجھے جانا پڑا۔
سیدنا حسینؓ کی پوری زندگی اعلاء کلمۃ اللّہ کے لیے جدوجہد سے معمور تھی اور اپنے عہد جوانی سے ہی سیدنا حسینؓ مختلف غزوات میں شامل رہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمرفاروق ؓ کے دور میں تو سیدنا حسینؓ عہد طفولیت میں تھے لیکن سیدنا عثمانؓ کے دور میں عہدجوانی میں قدم رکھتے ہی سیدنا حسینؓ تمام نمایاں غزوات اور جہادی مہمات میں شامل رہے۔ چناںچہ خلافت عثمانی کے دور میں ۲۶ہجری میںسیدنا حسینؓ نے غزوہ طرابلس میں شرکت کی۔
طرابلس کے اس معرکہ کے امیر سیدنا عبداللّہؓ بن سعد بن ابی سرح، والی مصر تھے اور اس لشکر میں سیدنا عبداللّہؓ بن عباسؓ، عبداللّہ بن عمرؓ، عبداللّہ بن عمروؓ بن العاص، عبداللّہ بن جعفرؓ، عبداللّہ بن زبیرؓ، سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ بھی شامل تھے۔ ۳۰ہجری میں امیر کوفہ سیدنا سعیدؓ بن العاص کی امارت میں طبرستان، خراسان، جرجان وغیرہ کے علاقوں میں جو لشکر روانہ ہوا، اس میں دیگر اکابر صحابہ کرامؓؓ کے ساتھ سیدنا حسینؓ بھی شریک ہوئے۔
اسی طرح سیدنا عثمانؓ نے جو فوج افریقہ روانہ فرمائی، سیدنا حسینؓ اس میں بھی شامل تھے اور افریقہ فتح ہونے تک دشمنوں سے لڑتے رہے۔ مفسدین نے جب امیرالموُمنین سیدنا عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو سیدنا علیؓ کے حکم پر امیرالموُمنین کی حفاظت کے لیے سیدنا حسینؓ بھی شمشیر بکف ہو کر دیگر صحابہؓ کے ساتھ امیرالمومنین کے دروازہ پر پہرہ دیتے رہے۔
سبطلہ کے حاکم جرجیر کی ڈیڑھ لاکھ فوج سے جہاد کیا اور فتح مند ہوئے۔ قفصہ کی جنگ میں بھی تلوار کے جوہر دکھائے اور کامران رہے، بعدازآں قلعہ اجم کے محاصرے میں بھی سیدناحسینؓ کا برابر حصہ تھا۔ سیدنا حسینؓ بہت سی مغربی جنگوں میں بھی شامل رہے۔
علاوہ ازیں خراسان، قومس، نہاوند، جرجان، طمیسہ، بحیرہ، دہستان اور ایسی متعدد جنگوں میں سیدنا حسینؓ نے شرکت فرمائی اور اللّہ تعالیٰ نے ان تمام جنگوں میں مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہم کنار کیا۔ اسی طرح سیدنا حضرت حسینؓ جہادِ افریقہ و بلادِ روم کے معارک میں بھی شریک ہوئے۔اسی طرح مدینۂ قیصر کے جہاد میں بھی دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ شریک ہوئے، اسی مہم میں میزبان رسول سیدنا ابوایوب انصاریؓ کا انتقال ہوا۔ الغرض حضرت حسینؓ بن علیؓ کی ساری زندگی دین اسلام کی خدمت و اشاعت و جہاد میں گزری۔
سیدنا حسینؓ اپنے بڑے بھائی سیدنا حسنؓ سمیت امیرالمومنین سیدنا معاویہؓ سے ملنے شام جایا کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین سیدنا معاویہؓ ان دونوں کو بڑی محبت و شفقت سے ’’مرحبا، اھلاً و سہلاً‘‘ کہہ کر ملتے اور انہیں ہدایا و عطیات دیا کرتے تھے جنہیں یہ حضرات بخوشی قبول فرماتے۔
جناب علی ہجویری، لاہوری رحمۃاللّہ علیہ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کی خدمت میں ایک مرتبہ ایک شخص نے سوال کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ ٹھہرو ہمارا وظیفہ پہنچنے والا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ایک شخص امیرالمومنین معاویہؓ کی جانب سے حاضر بہ خدمت ہوا اور ایک ایک ہزار درہم پر مشتمل پانچ عدد تھیلیاں پیش کیں اور کہا کہ امیرالمومنین نے کہا ہے کہ معذرت کے ساتھ یہ تھوڑی سی مقدار ہے، اسے خرچ کیجیے۔ سیدنا حسینؓ نے یہ سب اس سائل کو مرحمت فرما دیں۔
سیدنا حسینؓ غرباء و مساکین کی حتی المقدور مدد کرنے والے اور ذکرالٰہی و نفل عبادت میں مشغول رہنے والے تھے۔ آپؓ مسجد نبوی میں ذکر و فکر کی دینی مجلس قائم کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا معاویہؓ نے ایک قریشی کو کسی ضرورت سے مسجد نبوی بھیجا اور اسے آگاہ کیا کہ اگر تمہیں وہاں ایسا حلقہ نظر آئے کہ جو ایسے سکون و اطمینان سے بیٹھا ہے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں تو جان لینا کہ یہ حلقہ سیدنا حسینؓ کا ہے اور وہ نصف پنڈلی تک تہبند باندھے ہوں گے۔
سیدنا حسینؓ نماز کے بہت پابند تھے، آپؓ ہر خلیفہ و امیر کی اقتداء میں نماز با جماعت ادا کرتے تھے۔ ماہ صیام میں سیدنا حسینؓ تلاوت قرآن کرتے اور مکمل کرتے۔ سیدنا حسینؓ نے پچیس حج پیدل ادا کیے۔ سیدنا معاویہؓ کے انتقال کے بعد سیدنا حسینؓ کو ایک مرتبہ دیکھا گیا کہ حجاج کرام کو زمزم پلانے میں مشغول ہیں کہ اقامت ہونے لگی تو نماز کے لیے جا کھڑے ہوئے۔ سیدنا حسینؓ مہندی اور سیاہی مائل خضاب سے بال رنگا کرتے تھے۔
سیدنا حسینؓ ۱۰ محرم الحرام، ۶۱ ہجری کو اپنے رفقاء کے ساتھ مقام کربلا پر انتہائی مظلومانہ طور پر شہید کیے گئے۔ اللّہ پاک قاتلانِ حسینؓ کو رسوا کرے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں حضرت سیدنا حسینؓ کی حیاتِ مبارکہ کو مشعلِ راہ بنانے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے، اٰمین!
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جب کربلا نے پکارا!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہِ محرم آتا ہے تو واقعاتِ کربلا کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان واقعات کی تاریخی شہادتیں اور مستند اسناد موجود ہیں مگر مجالس کے بیشتر واقعات مبالغہ آمیزی، داستان گوئی اور محفل آرائی کے زمرے میں آتے ہیں۔ سیّدنا امام حسینؓ نے دیگر صحابہ کی طرح یزید کی حکومت کو اس بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک نااہل اور کردار کے لحاظ سے انتہائی پست انسان تھا۔ آپؓ کو اہلِ عراق نے سفارتوں اور خطوط کے ذریعے سے دعوت دی کہ وہ کوفہ آجائیں تاکہ لوگ ان کی بیعت کر لیں۔ یہ طویل داستان تاریخ میں محفوظ ہے۔ کئی پیش بندیاں کرنے اور اپنے نمائندے مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجنے کے بعد آپؓ نے اس پُر خطر سفر کا فیصلہ کیا تھا۔ بعد میں حالات بدل گئے اور عراق کے نئے گورنر عبیداللہ ابنِ زیاد کے ظلم و ستم کے نتیجے میں بزدل اور بے وفا کوفیوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مسلم بن عقیلؓ اور ان کے بچوں کو شہید کر دیا گیا، اور حالات یکسر بدل گئے۔ اس وقت تک امام حسینؓ حدودِ عراق میں داخل ہو چکے تھے۔ بدلے ہوئے حالات میں انہوں نے مزاحم قوتوں سے کہا کہ وہ ان کا راستہ چھوڑ دیں تاکہ وہ براہِ راست یزید سے جاکر بات کر لیں، یا ان کو واپس جانے دیا جائے مگر انہیں بتایا گیا کہ یا تو یزید کی بیعت کریں یا پھر مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ان حالات میں امام حسینؓ نے بزدلی کی بجائے بہادری کا راستہ اپنایا، اور رخصت کی بجائے عزیمت کی راہ لی۔ پھر وہ المناک معرکہ پیش آیا جس میں ایک جانب چند اہلِ حق تھے اور دوسری جانب ہوا و ہوس کے غلام ہزاروں لشکر۔ اس معرکے میں سیدنا حسینؓ کے تمام ساتھی ایک ایک کر کے شہید ہوتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ ایک معصوم بچہ بھی شہید ہوگیا۔
واقعاتِ کربلا تفصیلی ہیں، مگر اختصار کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جب سیدنا امام حسینؓ کو تمام راستے مسدود کرکے جنگ پر مجبور کر دیا گیا تو پھر آپؓ نے پیٹھ نہیں پھیری۔ البتہ یہ بھی آپ کی عظمت ہے کہ رات کو آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا کہ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں۔ انھیں یا تو میری بیعت چاہیے یا پھر سر۔ آپ لوگوں سے ان کو کوئی غرض نہیں ہے۔ آپ رات کی تاریکی میں خاموشی سے یہاں سے کوچ کر جائیں۔ میں ان سے خود نمٹ لوں گا مگر ان کے سب ساتھیوں نے یک زبان یہ کہا کہ ہم کسی صورت آپؓ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا جینا مرنا آپ کے ساتھ ہے۔ آپ کے ان ساتھیوں میں حُر بن یزید اور اس کے چند رفقا حقیقت میں بنو امیہ کی طرف سے آپ کا راستہ روکنے والوں میں شامل تھے مگر آپؓ کی پر اثر تقریر کو سن کر انھوں نے سرکاری ذمے داریوں اور مناصب کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا اور آپ کے ساتھ آخر وقت تک وفاداری کا حق نبھایا۔
جب آپؓ کے سب ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوگئے تو آپ نے ایک یمنی چادر اپنے بدن پر لپیٹ لی۔ پھر تلوار لے کر میدان میں اترے۔ وہ جس جانب جھپٹتے تھے جنگجُو منتشر ہوجاتے تھے۔ آپ کو کئی زخم لگ چکے تھے اور پیاس سے بھی آپ نڈھال تھے۔ موت آنکھوں کے سامنے تھی مگر آپ بلا خوف و خطر دشمن سے نبرد آزما رہے۔ کربلا کا ذرہ ذرہ اس شہید وفا کو دیکھ کر پکار رہا تھا ؎
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں
دس محرم کے روز ظہر اور عصر کے درمیان آپؓ کی شہادت ہوئی۔ آپ کے قاتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شمر بن ذی الجوشن تھا جبکہ یہ رائے بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کو قبیلہ مْذحج کے ایک بدبخت شخص نے شہید کر دیا۔ یہ رائے امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں دی ہے۔ اس کے مقابلے میں تاریخ طبری میں جس شخص کو آپؓ کا قاتل قرار دیا گیا ہے، وہ نسان بن انس نخعی تھا اور آپ کا سر کاٹنے والے کا نام طبری نے خولی الاصبعی بیان کیا ہے۔ یہی رائے امام ذہبی کی بھی ہے۔
ایامِ کرب و بلا میں بعض مواقع پر خیموں میں موجود خواتین کی طرف سے اگر کسی نوعیت کی پریشانی کا اظہار ہوا تو اس عظیم انسان نے انھیں بہترین انداز میں تلقین فرمائی کہ مومن کی ڈھال صبر ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی حیاتِ ابدی کو اتنے موثر اور دلنشین پیرائے میں بیان فرماتے رہے کہ ان کے ملفوظات پڑھ کر دل کو عجیب تسکین ملتی ہے۔ اگر امام حسینؓ کمزوری دکھا جاتے تو ایک بہت بڑا فکری انحراف رونما ہوجاتا۔ اس میں شک نہیں کہ عملی طور پر خلافت ملوکیت میں بدل گئی جو امت کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے، مگر یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ اگر فکری لحاظ سے بھی یہ امت راستہ کھو بیٹھتی تو اس کا حال بھی ان دیگر مذاہب کی طرح ہوتا جو الہامی کتب اور وحیِ ربانی کی روشنی سے فیض یاب ہونے کے باوجود مکمل طور پر اپنی منزل سے نابلد ہوگئے اور اپنا تشخص کھو بیٹھے۔ شہادتِ حسین ایک بہت بڑا سانحہ ہے لیکن اس کے بعد کے مراحل اس سے بھی زیادہ دلدوز ہیں۔
مستند روایات کے مطابق سیدنا حسینؓ کا سر کاٹ کر پہلے کوفہ میں عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا، پھر دمشق میں یزید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ دونوں جگہ ان دونوں بد بخت افراد نے نواسۂ رسول کے بارے میں گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ یزید کے دربار میں جب امام کا سر پیش کیا گیا تو اس نے آپؓ کے چہرہ مبارک پر ایک چھڑی سے ٹھونکا دیا۔ مورخین کے مطابق اس نے بار بار یہ حرکت کی۔ اس موقع پر دربار میں آنحضورؐ کے صحابی سیدنا ابو برزہ اسلمیؓ بھی موجود تھے۔ ان سے برداشت نہ ہوسکا اور انھوں نے کہا: اے یزید! اس چہرۂ مبارک سے چھڑی دور کر لو۔ خدا کی قسم! میں نے اپنی آنکھوں سے بارہا یہ منظر دیکھا کہ نبی اکرمؐ اپنے مبارک لبوں سے اس چہرے کو نہایت محبت سے چوما کرتے تھے۔ دونوں درباروں میں خاندانِ اہل بیت کی عفت مآب بیٹیوں کو بھی حاضر کیا گیا اور دونوں جگہ ابن زیاد اور یزید نے بڑے تکبرکا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حسین باغی تھا جو اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ ہر دو مقامات پر سیدنا حسینؓ کی شیردل ہمشیرہ سیدہ زینب بنت علیؓ نے ان کو منہ توڑ جواب دیا۔
یزید کو معاویہؓ نے بارہا یہ نصیحت کی تھی کہ وہ سیدنا حسینؓ کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے۔ فرمایا: حسینؓ، فاطمہؓ بنت محمدؐ کا بیٹا ہے۔ لوگوں کے دل میں اس کی بڑی محبت ہے۔ اس کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ہمیشہ صلہ رحمی اور نرمی اختیار کرنا۔ وہ ہمارے قریبی رشتے دار ہیں۔ یزید نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرنے کے بجائے وہ راستہ اختیار کیا جو ظلم، شقاوت، سنگ دلی اور قطع رحمی کی بدترین مثال ہے۔ یزید کے بعض وکلا اس کی بریت ثابت کرنے کے لیے یہ دور کی کوڑی بھی لاتے ہیں کہ اس نے سیدنا حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا، یہ محض عبیداللہ بن زیاد کا عمل ہے۔ ان وکلا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں کہ اگر اس نے ایسا حکم نہیں دیا تھا تو:
1۔کیا اس نے ابن زیاد سے کوئی ہلکی سی بھی باز پرس کی کہ اس کے حکم کے بغیر اس نے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیوں کیا؟
2۔تاریخ کے اس ریکارڈ کا کیا کیا جائے کہ ابن زیاد جس سے یزید نالاں تھا اس واقعے کے بعد اس کا پسندیدہ اور چہیتا گورنر بن گیا؟
3۔جب شہید کربلا کا سر یزید کے دربار میں پہنچا تو ابن زیاد ہی کی طرح ان کے چہرہ اطہر پر چھڑی سے ٹھونکے کیوں دیے گئے؟
4۔اتنے بڑے سانحے کے بعد بنات اہل بیت کو جس لب و لہجے میں اپنے دربارمیں اس نے مخاطب کیا اس کا اخلاقی یا انسانی لحاظ سے کیا جواز تھا؟
یزید کے اس عمل کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں۔ البتہ امام ابن تیمیہؒ کی طرح ہمارا موقف یہ ہے کہ اس کے باوجود سب و شتم اسلامی نقطۂ نظر سے ہر گز پسندیدہ عمل نہیں۔ یزید کا جو بھی جرم ہے، اس کا بدلہ وہ اللہ کے ہاں پارہا ہوگا اور روز محشر بھی پائے گا۔ اخلاقِ نبوی سے جو سبق ملتا ہے اس کے مطابق کسی جانی دشمن، بدترین کافر اور ناپاک جانور کو بھی گالی دینا منع ہے۔ ایک مومن کے لیے اسوۂ حسنہ رسول اللہ کی ذاتِ اقدس ہے۔ جہاں ہم اپنا یہ موقف واضح کرنا چاہتے ہیں وہیں ہم بلا خوف لومۃ لائم یہ حقیقت بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یزید جیسا ایک فرد جس کے بارے میں اس دور میں زندہ صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی اکثریت کے خیالات و ملفوظات غیر مبہم انداز میں بتاتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی ناپسندیدہ کردار ہے، نرم گوشہ رکھنا بڑی جسارت اور ناانصافی ہے۔ پھر یہ تو ایک جرم سے کم نہیں کہ جس شخصیت کو نبی اکرمؐ نے جنت کے نوجوانوں کا سردار ہونے کی بشارت دی، جسے آپؐ نے اپنے بازووں اور کندھوں پر اٹھایا اور جسے آپ نے اپنا محبوب قرار دیا، اس کے مقابلے میں یزید جیسے ایک مستبد، بدعمل اور قاتل حکمران کو ترجیح دی جائے۔ آنحضورؐ کی یہ حدیث کافی واضح ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اسی کے ساتھ کھڑا ہوگا، جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔ (صحیح بخاری)