Jasarat News:
2025-11-03@10:34:16 GMT

غریب کا علاج خواب بن گیا، صحت کی سہولیات مزید مہنگی

اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ملک بھر میں علاج معالجے کے اخراجات میں ہوشربا اضافہ غریب عوام کے لیے صحت کی بنیادی سہولیات بھی خواب بنتا جا رہا ہے۔ مہنگی دوائیں، بڑھتی کلینک فیسیں اور اسپتالوں کے اخراجات نے شہریوں کی مشکلات دوچند کر دی ہیں۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران ادویات کی قیمتوں میں 15.

30 فیصد کا غیرمعمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسی عرصے میں ڈینٹل سروسز کی لاگت 26.66 فیصد بڑھ گئی، جبکہ میڈیکل ٹیسٹس 6.99 فیصد اور اسپتالوں کی دیگر سہولیات 8.3 فیصد مہنگی ہوچکی ہیں۔

جون کے مہینے میں بھی صحت کی سہولیات مزید مہنگی ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق جون میں ادویات کی قیمتوں میں 0.63 فیصد اور مجموعی صحت سہولیات میں 0.99 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ سالانہ بنیاد پر صحت کے شعبے میں مہنگائی کی شرح 12.63 فیصد رہی۔

ڈاکٹروں کی کلینک فیسوں میں بھی اضافہ جاری ہے۔ جون کے دوران کلینک فیسوں میں 1.32 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ پچھلے بارہ ماہ میں کلینک فیسیں 12.80 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔

ڈینٹل سروسز کی بات کریں تو جون میں ان کی قیمتیں 1.54 فیصد مزید بڑھ گئیں، جس کے بعد سالانہ بنیاد پر ان میں مجموعی اضافہ 26.66 فیصد تک جا پہنچا۔

رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ میڈیکل ٹیسٹ کی فیسیں جون میں 1.52 فیصد مہنگی ہوئیں اور سالانہ بنیاد پر ان میں 6.99 فیصد اضافہ ہوا۔ اسپتالوں کی سہولیات جون میں 1.27 فیصد مہنگی ہوئیں اور سال کے دوران ان کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 8.30 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے اور قیمتوں میں کمی کے اقدامات کرے، کیونکہ مہنگے علاج نے عام آدمی کو دوا اور ڈاکٹر دونوں سے دور کردیا ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فیصد اضافہ قیمتوں میں

پڑھیں:

ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا

وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کے 10 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک سال میں 700 ارب ڈالر کا اضافہ، آکسفیم کا انکشاف
  • چیئرمین ایف بی آر نے منی بجٹ کے کسی امکان کو مسترد کردیا
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • امریکا میں آنتوں کی مخصوص بیماری میں خطرناک اضافہ
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا
  • وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں 60 فیصد اضافہ
  • مثبت خبروں نے اسٹاک مارکیٹ سنبھال لی، انڈیکس میں 5,200 پوائنٹس کا اضافہ