روسی وزیر ٹرانسپورٹ رومان استاروویت نے برطرفی کے چند گھنٹوں بعد خودکشی کر لی
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو: روس کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ رومان استاروویت نے صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے برطرف کیے جانے کے چند گھنٹوں بعد مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ روسی تحقیقاتی کمیٹی نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جمعرات کے روز ماسکو ریجن میں اپنی گاڑی کے اندر مردہ حالت میں پائے گئے، ان کے جسم پر گولی لگنے کا زخم موجود تھا۔
تحقیقات جاری ہیں اور ابتدائی شواہد کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ معلوم ہوتا ہے، تاہم کمیٹی نے کہا ہے کہ موت کی اصل وجوہات جاننے کے لیے تفصیلی تفتیش جاری ہے۔ کمیٹی کی ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ جائے وقوعہ سے اہم شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور کسی بھی امکان کو مسترد نہیں کیا جا رہا۔
رومان استاروویت کو مئی 2024 میں روس کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ تعینات کیا گیا تھا، تاہم وہ محض چند ماہ ہی اس عہدے پر فائز رہ سکے۔ ان کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جمعرات کو جاری کیا گیا، جس کے فوری بعد یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔
رومان استاروویت اس سے قبل ستمبر 2019 سے روس کے سرحدی علاقے کرسک کے گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے، جہاں ان کی انتظامی کارکردگی کو خاصا سراہا گیا۔ ان کی بطور وزیر ٹرانسپورٹ تقرری کو روس میں ایک ابھرتے ہوئے سیاسی رہنما کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، تاہم ان کی اچانک برطرفی اور اس کے فوراً بعد موت نے سیاسی حلقوں اور عوام کو حیران کر دیا ہے۔
روسی میڈیا میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ استاروویت کی برطرفی کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے اور کیا ان پر کسی قسم کا دباؤ تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے ان پر بدعنوانی یا کارکردگی کے حوالے سے الزامات تھے، تاہم اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔
واقعے نے روسی بیوروکریسی اور سیاسی نظام میں دباؤ اور تناؤ کے ماحول پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جہاں اعلیٰ سطحی عہدیداران کو بسا اوقات اچانک برطرفی اور الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے اثرات بعض اوقات ناقابلِ تلافی ہوتے ہیں۔
رومان استاروویت کی موت پر روسی سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں دکھ اور صدمے کا اظہار کیا جا رہا ہے، جب کہ بعض صارفین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اعلیٰ سطحی افسران پر عائد دباؤ کے نظام کا جائزہ لیا جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے سانحات سے بچا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رومان استاروویت
پڑھیں:
جنوبی کوریا میں موت کاروبار کا ذریعہ کیسے بن گئی؟
جنوبی کوریا میں تیزی سے بڑھتی عمر رسیدہ آبادی اور کم شرحِ پیدائش کے باعث تدفین اور موت سے متعلق پیشوں کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ 50 سال یا اس سے زائد عمر کا ہے، جبکہ شرحِ پیدائش دنیا میں سب سے کم سطح پر پہنچ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: نو عمر لڑکے کی خودکشی: اوپن اے آئی کی جانب سے چیٹ جی پی ٹی پر والدین کا کنٹرول متعارف
اسی کے نتیجے میں تدفین سے متعلق پیشوں میں نوجوانوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ بوسان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں درجنوں طلبا کو تدفین کی تربیت دی جا رہی ہے۔
ملک میں اکیلے رہنے والے افراد کی شرح اب 42 فیصد ہو چکی ہے، جس نے تنہائی میں موتکے واقعات میں اضافہ کر دیا ہے۔
جنوبی کوریا ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ خودکشی کی شرح رکھنے والا ملک بھی ہے، جس کے باعث حکومت کو عمر رسیدہ اور اکیلے رہنے والے شہریوں کے لیے سماجی و فلاحی اقدامات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اموات تدفین جنوبی کوریا خودکشی