پی آئی اے ، ہماری قومی شناخت
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے) جو کبھی دنیا بھر میں ایک معتبر ایئرلائن سمجھی جاتی تھی اب سنگین مالی اور عملی مسائل کا شکار ہے۔ 1955 میں قائم کی گئی یہ ایئر لائن ہوابازی کے کئی جدید رجحانات کی بانی رہی ہے لیکن بعد ازاںسیاسی مداخلت اور ضرورت سے زیادہ بڑی افرادی قوت کی وجہ سے زوال کا شکار ہوگئی۔
نتیجتاً پی آئی اے کے واجبات 830 ارب روپے تک جا پہنچے اور مالی سال 2024- 2023 میں اسے 112 ارب روپے کا سالانہ خسارہ ہوا۔ان مشکلات کے باوجود پی آئی اے اب بھی قیمتی اثاثوں کی مالک ہے جن میںنیویارک میں روزویلٹ ہوٹل، پیرس میں سوفیٹیل ہوٹل اور ملک میں اعلیٰ درجے کی جائیدادیں شامل ہے۔
اس کے علاوہ ایئر لائن کے پاس بین الاقوامی لینڈنگ رائٹس اوروسیع روٹ نیٹ ورک بھی موجود ہے تاہم نجکاری کمیشن کی جانب سے پی آئی اے کے 60 فیصد حصص (جن کی مالیت 85 ارب روپے لگائی گئی تھی) کی فروخت کی کوششیں، ایئر لائن کی پیچیدہ مالی حالت کے باعث ناکام ہوگئیں۔ کمیشن کے مطابق ایئر لائن کے اثاثوں کی مالیت 163 ارب روپے ہے جب کہ آزاد تجزیہ کاروں کااندازہ ہے کہ موثر از سرِ نو تنظیم نو کے ذریعے یہ مالیت 343 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
پی آئی اے کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ایک مضبوط اور جدید حکمت عملی درکار ہے جو مالیاتی اصلاحات، عملی کارکردگی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شِپ (پی پی پی) ماڈل پر مبنی ہو تا کہ قرضوں کا حل نکالا جا سکے۔ بحالی کے منصوبے کو منافع بخش روٹس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اس کے علاوہ ایندھن کی بچت کرنے والے جدید طیاروں کی جانب منتقلی اور انتظامی اخراجات میں کمی لانا ضروری ہے۔
جدید ٹکٹنگ، پرواز کے دوران بہتر سہولیات اور موثر مارکیٹنگ کے ذریعے صارفین کااعتماد بحال کرنا بھی کلیدی کردار ادا کرے گا۔اس حکمت عملی کا مرکزی عنصر بیڑے یا فلیٹ کی تجدید ہے جس میں ہر 10 سال بعد آپریشنل لیز پر 15 بوئنگ 200-777 طیارے اور مالیاتی لیز پر 5 بمبارڈیئرطیارے شامل کیے جائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ موجودہ 30 طیاروں کے بیڑے کوبھی بحال کیا جائے گا۔ عملے میں کمی کے منصوبے کے تحت 7,000 ملازمین کوگولڈن ہینڈ شیک دیاجائے گا جس پر 191 ملین ڈالر کا تخمینہ شدہ خرچ آئے گا۔ مجموعی طور پر بیڑے کی جدید کاری اور تنظیم نو کے لیے 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی جب کہ ہوابازی کے معتبر معیارات کو مدنظر رکھتے ہو ئے اوپیکس(عملیاتی اخراجات)، کیپیکس(سرمایہ جاتی اخراجات) اور ریونیو کے ذریعے2,912 ملین ڈالر کی آمدن متوقع ہے۔
پی آئی اے کو بڑھتے ہوئے مالی دباؤ سے نکالنے کے لیے ایک تخلیقی حل درکار ہے جوقرضوں میں نرمی اور سرمایہ کاری کی ترغیبات کو یکجا کرے۔ اس مقصد کے لیے تجویزکردہ ماڈل میں ایک کلین سوائپ میکانزم شامل ہے جو سرکیولر ڈیٹ کراؤڈفنڈنگ کے ذریعے معاونت حاصل کرے گا۔سرکیولر ڈیٹ جو توانائی کے شعبہ کومفلوج کر چکا ہے اس وقت 2.
اس منصوبے کے تحت ایس پی وی پی آئی اے کے 60 فیصد شیئرز خریدے گا اورتنظیم نو کے لیے 137.5 ارب روپے جمع کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے202 ارب کے واجبات کو ختم کیا جائے گا۔ حکومت یہ قرضے توانائی کمپنیوں کے واجبات کے خلاف ایڈجسٹ کرے گی اور یوں سرکیولر ڈیٹ میں کمی آئے گی اورسودی اخراجات سے بچا جا سکے گا۔ اس سوائپ سے پی آئی اے مالی طور پرمستحکم اور کم قرضوں والی کمپنی بن جائے گی۔
اس ماڈل کے تحت ایک پبلک سروس ڈویلپمنٹ فنڈ (پی ایس ڈی ایف) قائم کیا جائے گا جو کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کامیاب تجربات پر مبنی ہوگا۔ اس فنڈ کوقانون سازی کے ذریعے قائم کیا جائے گا اور 70:30 قرض برابر سرمایہ تناسب (ڈیٹ-ایکیوٹی ریشیو) پر مبنی ہوگا۔ عوام کی شراکت کو انفرا اسٹرکچر بانڈز اورترجیحی شیئرز کی فروخت کے ذریعے فروغ دیا جائے گا تا کہ وسیع پیمانے پرملکیت اور سرمایہ کی آمد کو یقینی بنایا جاسکے۔پی ایس ڈی ایف ایکٹ کے تحت عوام اور اداروں کی سطح پر شرکت مندرجہ ذیل طریقے سے ہو گی:
این آئی سی رکھنے والے 12.2 کروڑ افراد: ہر شہری پر لازم ہوگا کہ کم از کم ایک500 روپے مالیت کا انفرا اسٹرکچر بانڈ خریدے جو تین سال کے لیے 18 فیصد سالانہ منافع دے گا۔ یہ بانڈز پی ایس ایکس پر 30 فیصد شرکت کے ساتھ قابلِ فروخت ہوںگے۔56.7 لاکھ فعال ٹیکس دہندگان: کم از کم پانچ ترجیحی شیئرز (500 روپے فی شیئر) 17 فیصد سالانہ پر خریدنا لازم جو کہ پی ایس ایکس پر ٹریڈ ایبل ہو اور جس کاہدف 20 فیصد شرکت ہو۔
کم از کم 5 لاکھ اے او پی کمپنیاں: انھی شرائط پر کم از کم 50 ترجیحی شیئرزخریدنا لازم 25 فیصد شرکت کے ہدف کے ساتھ۔ٹاپ 100 انڈیکس کمپنیاں: کم از کم 5 کروڑ پے منٹ ان شیئرز میں سرمایہ کاری کی پابند، پی ایس ایکس پر ٹریڈیبل 25 فیصد کی شرکت کے ہدف کے ساتھ۔عوامی نمایندگان: قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کریں گے 75 فیصد ہدف کی شرکت کے ساتھ۔یہ کراؤڈ فنڈنگ ماڈل 100 ارب روپے تک جمع کرنے کا ہدف رکھتا ہے جو پی آئی اے کے 85 ارب روپے کی مالیت کے 60 فیصد اسٹیک خریدنے کے لیے کافی ہے۔ واجبات کے خاتمے کے بعد ایس پی وی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے اتحاد سے 137.5 ارب روپے کی بریج فنانسنگ حاصل کرے گا تاکہ بیڑے کی تجدید اور آپریشن کی معاونت کی جا سکے۔
سرمایہ کاری پر منافع اور طویل المدتی پائیداری: 26.77 فیصد کی داخلی شرح منافع (IRR) اور 42.2 فیصد ایکویٹی IRR کے ساتھ یہ منصوبہ مالی لحاظ سے مضبوط ترغیبات فراہم کرتا ہے۔ 25 سالہ رعایتی مدت کے دوران سرمایہ کی واپسی کی مدت چھ سال کے اندر متوقع ہے جو اسے سرمایہ کاروں کے لیے انتہائی پرکشش بناتی ہے۔
یہ مقامی اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ بڑی کارپوریشنز کو بھی قومی انفرااسٹرکچر اور عوامی اداروں کی بحالی میںحصہ لینے کی ترغیب دے سکتا ہے تاہم آئی ایم ایف کے دباؤ میں نجکاری کمیشن نے حال ہی میں سرمایہ کاروں کے لیے غیر حقیقی شرائط تجویز کی ہیں:51 سے 100 فیصد حصص کی فروخت جس میں مکمل انتظامی کنٹرول شامل ہو۔
پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے تحت 202 ارب روپے کے جزوی پرانے قرضے کی منتقلی۔نئے طیاروں کی خریداری پر 18 فیصد اشیاء و سیلز ٹیکس کی چھوٹ۔غیر مرکزی اثاثہ جات جیسے روزویلٹ ہوٹل کو بنیادی ایئرلائن نجکاری سے خار ج کرنا۔پہلی دو شرائط تجویز کردہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل سے متصاد م ہیں اور ایئرلائن کی قدر کو کم کر کے اس عمل کو نقصان پہنچانے کا اندیشہ رکھتی ہیں۔
پی پی پی نقطہ نظر جو جدید’’کلین سوائپ ماڈل‘‘اور پی ایس ڈی ایف ایکٹ پرمبنی ہے، پی آئی اے کے دیرینہ مسائل کا ایک پائیدار حل فراہم کرتا ہے۔ مقامی بچت کو متحرک کرکے گردشی قرضے کا ازالہ کرکے اوراسمارٹ مالیاتی ذرایع اختیار کرکے پاکستان نہ صرف پی آئی اے کی عالمی ساکھ بحال کرسکتا ہے بلکہ وسیع تر معاشی بحالی کی راہ بھی ہموار کرسکتا ہے۔
(نوٹ۔ یہ شکیل فاروقی صاحب کا آخری کالم ہے، جو انھوں نے اپنی وفات سے چند روز قبل ارسال کیا تھا۔ )
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ا ئی اے کے سرمایہ کاری کیا جائے گا ایئر لائن ارب روپے کے ذریعے کے ساتھ شرکت کے روپے تک کرے گا کے تحت پی ایس کے لیے
پڑھیں:
ہمارا خاندان، ہماری ذمے داری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات پر بڑی سنجیدگی اور دل سوزی سے غور کرنا چاہیے اور بحیثیت فرد اور من حیث القوم یکسو ہو جانا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ کسی فرد اور کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ تباہی کا راستہ کیا ہوگا کہ بقول غالب اس کا حال یہ ہوجائے کہ
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں
اگر ہماری منزل اسلام ہے اور یقیناً اسلام ہی ہے، تو پھر دورنگی اور عملی تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسلام تو علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان معاشرے کی اکثریت کو دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگہی نہیں۔ نئی نسلوں کو اسلامی آداب اور شعائر سے آشنا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا بالکل دوسری ہی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک ہے، جو ذہنوں کو مسلسل مسموم بنا رہا ہے اور اخلاق اور معاشرت کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔
بااثر افراد کا ایک گروہ بڑے منظم طریقے پر نوجوانوں کو بے راہ روی اور اباحیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہمارے علما، دانش ور اور اربابِ سیاست اپنے اپنے ذاتی، گروہی، مسلکی اور سیاسی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ طبقۂ علما اور سیاست دانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاشرتی ناسوروں کے علاج کی فکر کریں۔
عدالتیں، اینگلوسیکسن قانونی روایت کی تقلید میں قانون کے الفاظ کو انصاف کے حصول پر فوقیت دے رہی ہیں۔ جن معاملات کو گھر کی چار دیواری اور خاندان کے حصار میں طے ہونا چاہیے ان کو تھانے اور کچہری کی نذر کیا جارہا ہے۔ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا فواحش کی تشہیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے اس گندگی کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے عناصر اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و ملّت کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سیاست محض نعروں کی تکرار کا نام نہیں، سیاست تو تدبیرِ منزل سے عبارت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایک گروہ اصلاح کے لیے عملاً میدان میں اُتر آئے۔ خیر و شر میں تمیز کے احساس کو بڑے پیمانے پر بیدار کرنا، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر حکومت اپنی اس ذمے داری کو ادا نہیں کر رہی، تو کیا حالات کو تباہی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کشتی میں تو ہم سب ہی بیٹھے ہیں۔ اس کو بچانے کی ذمے داری بھی ہم سب کی ہے۔ اگر دوسرے اس میں چھید کررہے ہیں، تو ہم ان سب کو ڈبونے کا موقع کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمے داری اسلامی فکر سے سرشار اور معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے قابلِ قدر افراد کی ہے۔
ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہو کر جدوجہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیبِ نو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ جو کش مکش آج برپا ہے اور جس کا ایک ادنیٰ ساعکس ایک خانگی حادثے پر عدالتی فیصلے اور اس کے تحت رو نما ہونے والی بحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ہمیں دعوتِ غور وفکر ہی نہیں، دعوتِ عمل و جہاد بھی دیتی ہے۔
آئیے، سب سے پہلے اپنی منزل کے بارے میں یکسو ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام ہے، اور اسلام کے سوا کوئی دوسرا راستہ زندگی کا راستہ ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر بیک وقت دو مختلف سمتوں میں جانے والی کشتیوں میں سواری کرنے کا احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک راستہ بھی ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ فرد کی ذاتی تربیت سے لے کر خاندان کے نظام کی تشکیل، معاشرے کا سدھار، معیشت کی تنظیم نو، صحافت، سیاست، قانون اور عدالت کے نظام کی اصلاح اس کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور مہلت بہت کم ہے۔ ہم ملک کے اہلِ نظر کو دعوت دیتے ہیں کہ ان بنیادی مسائل کے بارے میں عوام کی مؤثر رہنمائی کریں۔ ناخوش گوار واقعات پر سے صرف کبیدہ خاطر ہو کر گزر نہ جائیں، بلکہ اصلاح کے لیے منظم طور پر عملی اقدام کریں۔