کینیا میں حکومت مخالف مظاہرے، پولیس کی فائرنگ سے 11 افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیروبی: افریقی ملک کینیا میں جمہوریت کے دفاع میں شروع کیے گئے عوامی مظاہرے ایک بار پھر خونیں شکل اختیار کر گئے ہیں، جہاں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 11 شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق کینیا میں یہ مظاہرے اُس دن منعقد کیے گئے جسے ’’سبا سبا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یعنی 7 جولائی کو وہ دن جب 1990ء میں سابق آمر صدر ڈینیئل اراپ موی کے خلاف عوامی تحریک نے جنم لیا تھا اور ملک میں کثیر الجماعتی سیاسی نظام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
اس علامتی دن کے موقع پر کینیا کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور موجودہ صدر ویلیم رٹو کی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
مظاہرین کا مطالبہ صدر سے استعفیٰ اور ملک میں فوری سیاسی و معاشی اصلاحات تھا، کیونکہ عوامی سطح پر حکومت پر کرپشن، مہنگائی اور آمرانہ رویے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں کا مرکز دارالحکومت نیروبی رہا جہاں پولیس نے بڑی تعداد میں رکاوٹیں کھڑی کر کے مظاہرین کو مرکزی علاقوں میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔
صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب پولیس کی جانب سے براہ راست گولیاں چلائی گئیں، جس کے نتیجے میں کئی مظاہرین زمین پر گر پڑے۔
عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے نہ صرف ہوائی فائرنگ کی بلکہ کچھ جگہوں پر مظاہرین پر براہ راست نشانہ لے کر فائرنگ کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق اس خونیں کارروائی میں 11 افراد موقع پر ہلاک ہو گئے جبکہ متعدد دیگر شدید زخمی ہیں، جنہیں قریبی اسپتالوں میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
پولیس کی جانب سے اپنے مؤقف میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ اور املاک کو نقصان پہنچایا جس کے جواب میں طاقت کا استعمال ناگزیر ہو گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس دوران کئی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں، تاہم غیر جانبدار ذرائع کے مطابق تشدد کا آغاز سیکورٹی فورسز کی جانب سے ہوا۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب کینیا میں حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا سہارا لیا گیا ہو۔ گزشتہ ماہ جون میں بھی ایسے ہی احتجاجی مظاہروں کے دوران 19 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ ان میں ایک معروف استاد اور سماجی کارکن البرٹ اوجوانگ بھی شامل تھے، جن کی موت پولیس حراست میں ہوئی اور جس نے ملک بھر میں غم و غصے کی نئی لہر دوڑا دی۔
کینیا میں یہ تحریک 2024 کے اوائل میں شروع ہوئی تھی اور اب تک اس کا دائرہ ملک کے تمام بڑے شہروں تک پھیل چکا ہے۔ سرکاری ریکارڈ سے ہٹ کر سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ان مظاہروں کے دوران اب تک 80 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو تعلیم، روزگار اور سیاسی آزادی کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔
بین الاقوامی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے ادارے کینیا میں جاری اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کینیا کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طاقت کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے۔
کینیا کی حزب اختلاف نے بھی حالیہ واقعات کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی جانب سے کینیا میں پولیس کی کے مطابق
پڑھیں:
قلات: پولیس اہلکاروں پر فائرنگ، ایک اہلکار جاں بحق
—فائل فوٹوبلوچستان کے ضلع قلات میں پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔
پولیس حکام کے مطابق قلات کے علاقے کلی عزیز آباد میں گشت پر مامور پولیس اہلکاروں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کردی۔
تونسہ میں پولیس اور سی ٹی ڈی کے ساتھ دہشت گردوں کے مقابلے کے دوران 5 دہشت گرد مارے گئے۔
فائرنگ کے نتیجے میں پولیس کانسٹیبل رب نواز جان بحق جبکہ ایک اہلکار فرید احمد زخمی ہوگیا۔
جاں بحق اہلکار کی لاش اور زخمی اہلکار کو ڈی ایچ کیو اسپتال قلات منتقل کیا گیا ہے۔