صدر ٹرمپ کے سخت بیانات پر روس کا تحمل، بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حالیہ سخت بیانات پر روس تحمل سے کام لیتے ہوئے واشنگٹن کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن پر یوکرین تنازع کے حل میں سنجیدگی نہ دکھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں صدر پیوتن کی طرف سے ہر وقت بیکار باتیں سننے کو ملتی ہیں، فون پر وہ ہمیشہ بہت خوش اخلاق ہوتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ بے معنی ثابت ہوتا ہے۔
روس کا مؤقف ہے کہ وہ یوکرین تنازع کا سفارتی حل چاہتا ہے، تاہم وہ ایسا حل چاہتا ہے جو قانونی طور پر قابلِ عمل ہو اور بحران کی بنیادی وجوہات کو حل کرے۔
یہ بھی پڑھیں:
بدھ کے روز جب دیمتری پیسکوف سے ٹرمپ کے بیانات سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے بیانات کو نہایت پُرسکون انداز میں لیا جا رہا ہے، صدر ٹرمپ کے جملوں کا انداز عمومی طور پر کافی سخت ہوتا ہے، لیکن ہم اپنی دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی پالیسی اور واشنگٹن سے مکالمے کے لیے پرعزم ہیں۔
’صدر ٹرمپ کا یہ اعتراف زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ یوکرین تنازع کا حل نکالنا ان کی توقع سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا، یہی وہ بات ہے جو روس ابتدا سے کہتا آیا ہے کہ اتنا پیچیدہ معاملہ راتوں رات حل نہیں ہو سکتا۔‘
دیمتری پیسکوف نے امید ظاہر کی کہ حالیہ سخت بیانات کے باوجود صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم سفارتی سطح پر تنازع کو حل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
مزید پڑھیں:
کریملن ترجمان کے مطابق، روس نے یوکرین کو استنبول میں دو طرفہ مذاکرات کے تیسرے دور کی تجویز دی ہے اور اب یوکرین کے جواب کا انتظار ہے۔
’یہ یوکرین کے اپنے مفاد میں ہے کیونکہ زمینی صورتِ حال روز بروز بدل رہی ہے، اور ہم اس میں پیش رفت کر رہے ہیں۔‘
سی این این کی جانب سے منگل کو جاری کی گئی ایک مبینہ آڈیو، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے 2024 میں چند ڈونرز سے کہا تھا کہ انہوں نے صدر پیوٹن کو دھمکی دی تھی کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ہم ماسکو کو بمباری سے تباہ کر دیں گے۔
مزید پڑھیں:
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے دیمتری پیسکوف نے کہا کہ وہ اس آڈیو کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ یہ جعلی ہے یا نہیں،۔ ’ہم بھی نہیں جانتے، آج کل جعلی خبروں کی بھرمار ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول امریکی صدر دیمتری پیسکوف ڈونلڈ ٹرمپ صدر پیوٹن کریملن ترجمان واشنگٹن یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: استنبول امریکی صدر دیمتری پیسکوف ڈونلڈ ٹرمپ صدر پیوٹن واشنگٹن یوکرین دیمتری پیسکوف
پڑھیں:
اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسپین: میڈرڈ کی قدامت پسند حکومت نے سرکاری فنڈنگ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت پر خاموشی سے پابندی عائد کردی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپین کے دارالحکومت نے مختلف اسکولوں کو فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے تمام نشانات، جن میں فلسطینی پرچم بھی شامل ہیں، ہٹانے کی ہدایات دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی موقف یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور فلسطین کی حمایت ایک سیاسی معاملہ ہے، یہ ہدایات حال ہی میں جاری کی گئی ہیں کیونکہ اس سے قبل میڈرڈ ریجن کے کئی اسکول مہینوں تک فلسطین کے حق میں تقریبات کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اسی حکومت نے 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تعلیمی اداروں میں یوکرین کی حمایت کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی، جس سے اس فیصلے پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اسپین کی قومی سیاست میں بھی شدت اختیار کر رہا ہے، گزشتہ دنوں میڈرڈ ریجن کی پاپولر پارٹی کی سربراہ ایزابیل دیاس اییوسو نے وزیراعظم پیڈرو سانچیز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے حق میں مظاہرے ملکی آزادی اور کھیلوں کے تقدس پر حملہ ہیں۔
اسی دوران پاپولر پارٹی کے قومی سربراہ البیرتو نونیز فیخوو نے بھی حکومت کی فلسطین نواز پالیسی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سانچیز اپنی ناکامیوں اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،میں آپ کو اجازت نہیں دوں گا کہ غزہ میں ہونے والی اموات کو ہسپانوی عوام کے خلاف استعمال کریں۔”
جواب میں وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے فیخوو کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حالیہ سروے کے مطابق 82 فیصد اسپین کے عوام غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ اسپین کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت یورپی یونین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے مؤثر آواز رہی ہے۔ 2024 میں اسپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر مستقل اسلحہ پابندی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے درآمدات پر بھی پابندی عائد کی۔
میڈرڈ ریجن کی حکومت کی اس پالیسی نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ عوامی سطح پر بھی شدید بحث کو جنم دیا ہے اور یہ واضح تضاد اجاگر کیا ہے کہ ایک طرف یوکرین کی حمایت کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ فلسطین کی حمایت کو دبایا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔