سندھ میں اندراج مقدمے میں تاخیر کا رجحان تشویشناک ہے، سپریم کورٹ کے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے قتل کے ایک مقدمے میں ملزم سیتا رام کی بریت کی اپیل منظور کرتے ہوئے پولیس کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پر شدید تنقید کی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے 30 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا کہ سندھ میں مقدمات کے اندراج میں تاخیر کا رجحان باعثِ تشویش ہے، اور یہ طرز عمل آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ پولیس نے مقدمہ واقعے کے دو دن بعد درج کیا، جو انصاف کے تقاضوں کے منافی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ سیتا رام کو شک کا فائدہ دے کر بری کیا گیا کیونکہ استغاثہ ملزم کے خلاف قابلِ اعتماد شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا۔
18 اگست 2018 کو سیتا رام پر چندر کمار کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ مدعی ڈاکٹر انیل کمار نے واقعے کی اطلاع پولیس کو دی تھی، تاہم ایف آئی آر دو دن بعد درج کی گئی۔ سماعت کے دوران تفتیشی افسر ایس ایچ او قربان علی نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اطلاع تو روزنامچہ میں درج کی گئی تھی مگر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت باقاعدہ ایف آئی آر بروقت درج نہیں کی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بروقت ایف آئی آر کا اندراج پولیس افسر کا آئینی اور قانونی فریضہ ہے۔ تاخیر نہ صرف شواہد کے ضیاع کا باعث بنتی ہے بلکہ بے گناہ افراد کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
عدالت نے سندھ پولیس کے اس طرز عمل پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر بالخصوص کمزور، غریب اور پسماندہ طبقات کے ساتھ سنگین ناانصافی کے مترادف ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پولیس کا طاقتور طبقے کی خدمت میں مصروف رہنا اور عوام کو نظر انداز کرنا ایک خطرناک ’پولیس اسٹیٹ‘ کا تاثر پیدا کر رہا ہے، جو کہ جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی آر
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمے میں عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران ملزم کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ میڈیکل رپورٹ اور گواہ کے بیانات میں واضح تضاد موجود ہے۔
ان کے مطابق میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مدعی کی موت 3 فٹ کے فاصلے سے چلنے والی گولی سے ہوئی، جبکہ عینی گواہ کے بیان اور وقوعہ کے نقشے کے مطابق فائرنگ کا فاصلہ 40 فٹ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ساس سسر کے قتل کے ملزم کی سزا کیخلاف اپیل مسترد، عمر قید کا فیصلہ برقرار
جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ واقعہ کب کا ہے اور کیا ملزم اس وقت حراست میں ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ واقعہ 2006 میں پیش آیا اور ملزم 2012 سے حراست میں ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ ملزم 6 سال تک مفرور رہا، آپ جائے وقوعہ کے نقشے پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ اسی بنیاد پر آپ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ایسا کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہیں جس میں صرف جائے وقوعہ کے نقشے کی بنیاد پر ملزم کو بری کیا گیا ہو۔
مزید پڑھیں: فخر زمان کو سپریم کورٹ رجسٹرار کا عارضی چارج دے دیا گیا
ملزم کے وکیل نے عدالت سے مہلت مانگی تاکہ عدالتی نظیریں پیش کی جا سکیں۔
عدالت نے وکیل کو ایک ہفتے میں عدالتی نظیریں جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بری جائے وقوعہ جسٹس علی باقر نجفی جسٹس ہاشم کاکڑ سپریم کورٹ عدالتی نظیر عمر قید میڈیکل رپورٹ