تل ابیب میں ہزاروں افراد کا احتجاج، جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تل ابیب :اسرائیل میں غزہ میں جاری جنگ کے خلاف عوامی بے چینی میں شدت آتی جا رہی ہے، ہزاروں اسرائیلی شہریوں نے تل ابیب میں قائم فوجی ہیڈکوارٹرز کے سامنے شدید احتجاج کرتے ہوئے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی معاہدہ کرے اور حماس کے زیرِ قبضہ یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کی واپسی کو یقینی بنائے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق احتجاج میں شریک مظاہرین نے نیتن یاہو کی جنگی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ محض سیاسی مفادات کے لیے طول دی جا رہی ہے، جس کا نتیجہ صرف تباہی، انسانی المیہ اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کی صورت میں نکل رہا ہے۔
مظاہرین کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز تھے جن پر درج تھا: ’’جنگ بند کرو، یرغمالی واپس لاؤ‘‘، ’’نیتن یاہو ہٹاؤ، امن بچاؤ‘‘ اور ’’سیاسی فائدے کے لیے خون نہ بہاؤ۔
مظاہرے کے دوران مظاہرین نے نیتن یاہو حکومت پر الزام لگایا کہ وہ داخلی دباؤ کو کم کرنے کے لیے جنگ کو طول دے رہی ہے جبکہ درپردہ سیاسی مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں، ملک میں بے یقینی کی فضا بڑھ رہی ہے، فوجی ہلاکتیں جاری ہیں اور یرغمالیوں کے اہل خانہ اذیت میں مبتلا ہیں۔
مظاہرین نے واضح کیا کہ اگر حکومت نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو ملک گیر احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا، اور نیتن یاہو کی قیادت پر عوامی اعتماد کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔
خیال رہےکہ اس احتجاج کے بعد وزیراعظم نیتن یاہو نے ممکنہ جنگ بندی ڈیل پر مشاورت کے لیے اپنی حکومت کے دائیں بازو کے سخت گیر اتحادیوں، قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کو فوری طور پر ملاقات کے لیے طلب کر لیا ہے، بن گویر اور سموٹریچ دونوں پہلے ہی کسی بھی ممکنہ جنگ بندی کے شدید مخالف رہے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ حماس کو مکمل طور پر شکست دیے بغیر مذاکرات نہ کیے جائیں۔
دوسری جانب غزہ میں انسانی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتا جا رہا ہے، ہزاروں فلسطینی شہری بمباری، خوراک اور ادویات کی کمی، اور پناہ گاہوں کی عدم دستیابی کے باعث بدترین حالات سے دوچار ہیں، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی بارہا اسرائیل سے جنگ بندی اور امدادی راہداریوں کے قیام کا مطالبہ کر چکے ہیں، لیکن اب تک مؤثر پیش رفت نہیں ہو سکی۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’’جی ایچ ایف‘‘ (Gaza Humanitarian Fund) یا دیگر عالمی امدادی ذرائع کو ’’امداد کے نام پر قتلِ عام‘‘ کے لیے استعمال کر رہا ہے، امداد کی آڑ میں کی جانے والی فوجی کارروائیوں سے نہ صرف معصوم شہری نشانہ بن رہے ہیں بلکہ اسپتال، اسکول اور دیگر بنیادی تنصیبات بھی تباہ ہو رہی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نیتن یاہو رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
تل ابیب میں ایک اور صہیونی فوجی کی خود سوزی
غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہونیوالے ایک اور اسرائیلی ریزرو فوجی نے صہیونی وزارت جنگ کیساتھ وابستہ ایک محکمے کے اعلی افسر کے گھر کے سامنے خود کو آگ لگا لی اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی رژیم کے سرکاری میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے ایک اور اسرائیلی فوجی نے خود کو آگ لگا لی ہے۔ اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی چینل 12 کا کہنا ہے کہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) میں مبتلا ایک ریزرو صیہونی فوجی نے ریکوری سے متعلق اسرائیلی وزارت جنگ کے ذیلی محکمے کے ایک اعلی افسر کے گھر کے سامنے خود کو آگ لگا لی۔
اس بارے غاصب صیہونی رژیم کے آرمی ریڈیو کا بھی کہنا ہے کہ سابق اسرائیلی فوجی خود سوزی کی اس کارروائی کے بعد شدید زخمی ہو گیا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے آرمی ریڈیو نے بنایا کہ 7 اکتوبر کے بعد سے غزہ کی پٹی میں زخمی ہونے والے اسرائیلی فوج کے 50 فیصد اہلکار ذہنی مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔
قبل ازیں صیہونی ریڈیو اینڈ ٹیلیویژن کارپوریشن نے اطلاع دی تھی کہ جنگ غزہ کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا درجنوں زخمی اسرائیلی فوجیوں نے وزارت جنگ کی عمارت کے سامنے جمع ہو کر "مساوات اور طبی خدمات" کا مطالبہ کیا تھا۔ عبری اخبار یدیعوت احرونوت (Yedioth Ahronoth) نے بھی اسرائیلی وزارت جنگ کے بحالی مرکز سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت تقریباً "80 ہزار زخمی اسرائیلی فوجی" زیر علاج ہیں جن میں سے "26 ہزار" ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔