مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے اور دو ریاستی حل کے امکانات تیزی سے معدوم ہو رہے ہیں۔
نیویارک میں فلسطین کے مسئلے کے پُرامن حل سے متعلق اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ فوری اور فیصلہ کن اقدامات کریں تاکہ یہ عمل مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا اماراتی ہم منصب سے رابطہ، مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل پر زور
انہوں نے سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے اس اہم کانفرنس کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہاکہ یہ عمل کی طرف بڑھنے کا ایک نادر اور ناگزیر موقع ہے۔
انتونیو گوتریس نے کہاکہ یہ تنازع حل ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے سچائی، جرات مند قیادت اور سیاسی عزم درکار ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ دو ریاستی حل ماضی کی نسبت آج کہیں زیادہ دور ہے۔
انہوں نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے واضح کیاکہ ان حملوں کے باوجود غزہ کی مکمل تباہی، عوام کا قحط، ہزاروں شہریوں کا قتل، مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی تقسیم، اسرائیلی بستیوں کا پھیلاؤ، فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری، زبردستی بے دخلی اور مغربی کنارے کے الحاق کی کھلی حمایت کسی طور قابلِ جواز نہیں۔
انہوں نے کہاکہ مغربی کنارے کا تدریجی الحاق بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے اور اسے فوراً روکنا ہوگا۔ غزہ کی وسیع تباہی اور وہ تمام یکطرفہ اقدامات جو دو ریاستی حل کو ہمیشہ کے لیے ناممکن بنا دیں، ناقابلِ قبول ہیں۔
’یہ سب الگ تھلگ واقعات نہیں بلکہ ایک منظم حقیقت کا حصہ ہیں جو مشرق وسطیٰ میں امن کی بنیادیں کھوکھلی کر رہی ہے۔‘
انتونیو گوتریس نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ یہ کانفرنس محض اچھی نیت پر مبنی بیانات کا فورم نہ بنے، بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو، جو قابض نظام کے خاتمے اور ایک قابلِ عمل دو ریاستی حل کی طرف ناقابل واپسی پیش رفت کا باعث بنے۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ دو آزاد، خودمختار، جمہوری اور جڑی ہوئی ریاستیں اسرائیل اور فلسطین 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر ایک دوسرے کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہیں، اور یروشلم دونوں کا دارالحکومت ہو۔ یہی بین الاقوامی قانون پر مبنی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے منظور شدہ اور عالمی برادری کا حمایت یافتہ واحد قابلِ عمل راستہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل، سعودی عرب کا بین الاقوامی الائنس کی تشکیل کا فیصلہ
انہوں نے آخر میں کہاکہ اسرائیل، فلسطین اور دیگر کلیدی فریقین کی جانب سے جرات مند اور اصولی قیادت ہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل فلسطین جنگ اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کانفرنس انتونیو گوتریس حماس دو ریاستی حل مسئلہ فلسطین وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل فلسطین جنگ اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کانفرنس انتونیو گوتریس دو ریاستی حل مسئلہ فلسطین وی نیوز انتونیو گوتریس بین الاقوامی مسئلہ فلسطین دو ریاستی حل اقوام متحدہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔