سوات: مدرسے میں تشدد سے طالبعلم کی موت، مرکزی ملزم بیٹے سمیت گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
سوات کے مدرسے میں تشدد سے طالبعلم کی ہلاکت کے واقعے میں پولیس نے مرکزی ملزم قاری محمد عمر اور اُس کے بیٹے احسان اللہ کو گرفتار کرلیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سوات مدرسے میں استاد کا بیہمانہ تشدد، طالبعلم جاں بحق، مدرسہ سِیل کر دیا گیا
ڈی پی او سوات محمد عمر خان کے مطابق اس افسوسناک واقعے میں اب تک مجموعی طور پر 12 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ یہ واقعہ 21 جولائی کو اُس وقت منظر عام پر آیا جب 14 سالہ فرحان کی تشدد زدہ لاش خوازہ خیلہ اسپتال لائی گئی۔
متوفی کے چچا صدر ایاز کی مدعیت میں مدرسے کے مہتمم قاری محمد عمر، اُس کے بیٹے احسان اللہ، ناظم مدرسہ عبداللہ اور ایک اور شخص بخت امین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
صدر ایاز کے مطابق فرحان مدرسے جانے سے انکاری تھا کیونکہ مہتمم کا بیٹا اُس سے نامناسب مطالبات کرتا تھا۔ جب چچا نے اس شکایت کے ساتھ فرحان کو لے جا کر مہتمم سے بات کی تو اُس نے معذرت کرلی، مگر اسی روز مغرب کے بعد ناظم مدرسہ کی کال آئی کہ فرحان غسل خانے میں گرگیا ہے۔ اسپتال پہنچنے پر فرحان کی لاش پر تشدد کے نشانات واضح تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سوات: مدرسے میں تشدد سے 14 سالہ طالبعلم جاں بحق، ایک مدرس گرفتار، 2 کی تلاش جاری
پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش جاری ہے اور تمام حقائق سامنے لانے کے لیے قانونی کارروائی مکمل شفافیت سے کی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews سوات مدرسے میں طالبعلم کی موت ملزم گرفتار وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سوات مدرسے میں طالبعلم کی موت ملزم گرفتار وی نیوز
پڑھیں:
سانحہ دریائے سوات؛ انکوائری رپورٹ میں حکومتی غفلت سمیت افسوسناک حقائق سامنے آگئے
سوات:سانحہ سوات کی انکوائری رپورٹ میں خیبرپختونخوا(کے پی) کی حکومت کے متعلقہ محکموں کی غفلت اور ٹورازم پولیس کی عدم موجودگی اور دفعہ 144 کے باجود بیشتر علاقوں میں پابندی یقینی نہیں بنانے کا کا انکشاف کیا گیا ہے۔
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سوات میں دیگر محکموں کی غفلت کے ساتھ ساتھ کے پی حکومت کی جانب سے صوبے کے سیاحتی مقامات کے لیے بھرتی کی گئی ٹورازم پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں، وقوع کے روز ٹورازم پولیس غائب رہی، فضا گھٹ اور اطراف میں استقبالیہ کیمپ بھی موجود نہیں تھے۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق 27 جون کو واقعے کی صبح ہوٹل کے قریب پولیس کی گاڑی موجود تھی تاہم دفعہ 144 کے تحت پابندی کے باوجود سیاحوں کو پولیس نے دریا میں جانے سے نہیں روکا اور جائے وقوع پر ٹورازم پولیس موجود نہیں تھی۔
سوات میں سانحے کے روز ٹورازم پولیس کی غیر موجودگی پر انکوائری کمیٹی نے سوال اٹھا دیے ہیں اور کمیٹی کے مطابق سیاحتی علاقوں میں ٹورازم پولیس کا ام کیا ہے؟
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 106 ایف آئی آرز درج ہوئیں، 14 ایف آئی آرز پولیس نے اور باقی اسسٹنٹ کمشنرز نے درج کیں۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق پولیس ہوٹلوں کو حفاظتی ہدایات جاری کرنے سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہ کرسکی،
رپورٹس میں سفارش کی گئی ہے کہ سوات پولیس کی غفلت اور دفعہ 144 پر مکمل عمل درآمد نہ کرنے کی انکوائری اور متعلقہ افسران کے خلاف 60 دن میں کارروائی کی جائے۔
انکوائری کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ 30 دن میں قانون و ضوابط میں خامیاں دور کر کے نیا نظام وضع کیا جائے، دریا کے کنارے موجود عمارتوں اور سیفٹی کے لیے نیا ریگولیٹری فریم ورک 30 دن میں نافذ کیا جائے اور تمام موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
سفارش کی گئی ہے کہ پولیس کو دفعہ 144 کا سختی سے نفاذ یقینی بنانے کی ہدایات دی جائیں، حساس مقامات پر پولیس کی نمایاں موجودگی اور وارننگ سائن بورڈ نصب کیے جائیں اور ٹورازم پولیس اور ڈسٹرکٹ پولیس کے مابین نیا میکنزم بنایا جائے۔