سانحہ دریائے سوات، انکوائری رپورٹ میں حکومتی غفلت سمیت افسوسناک حقائق سامنے آگئے
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سوات میں دیگر محکموں کی غفلت کے ساتھ ساتھ کے پی حکومت کی جانب سے صوبے کے سیاحتی مقامات کے لیے بھرتی کی گئی ٹورازم پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں اسلام ٹائمز۔ سانحہ سوات کی انکوائری رپورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کی حکومت کے متعلقہ محکموں کی غفلت اور ٹورازم پولیس کی عدم موجودگی اور دفعہ 144 کے باجود بیشتر علاقوں میں پابندی یقینی نہیں بنانے کا کا انکشاف کیا گیا ہے۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سوات میں دیگر محکموں کی غفلت کے ساتھ ساتھ کے پی حکومت کی جانب سے صوبے کے سیاحتی مقامات کے لیے بھرتی کی گئی ٹورازم پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں، وقوع کے روز ٹورازم پولیس غائب رہی، فضا گھٹ اور اطراف میں استقبالیہ کیمپ بھی موجود نہیں تھے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق 27 جون کو واقعے کی صبح ہوٹل کے قریب پولیس کی گاڑی موجود تھی تاہم دفعہ 144 کے تحت پابندی کے باوجود سیاحوں کو پولیس نے دریا میں جانے سے نہیں روکا اور جائے وقوع پر ٹورازم پولیس موجود نہیں تھی۔
سوات میں سانحے کے روز ٹورازم پولیس کی غیر موجودگی پر انکوائری کمیٹی نے سوال اٹھا دیے ہیں اور کمیٹی کے مطابق سیاحتی علاقوں میں ٹورازم پولیس کا کام کیا ہے؟ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 106 ایف آئی آرز درج ہوئیں، 14 ایف آئی آرز پولیس نے اور باقی اسسٹنٹ کمشنرز نے درج کیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق پولیس ہوٹلوں کو حفاظتی ہدایات جاری کرنے سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہ کرسکی، رپورٹس میں سفارش کی گئی ہے کہ سوات پولیس کی غفلت اور دفعہ 144 پر مکمل عمل درآمد نہ کرنے کی انکوائری اور متعلقہ افسران کے خلاف 60 دن میں کارروائی کی جائے۔
انکوائری کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ 30 دن میں قانون و ضوابط میں خامیاں دور کر کے نیا نظام وضع کیا جائے، دریا کے کنارے موجود عمارتوں اور سیفٹی کے لیے نیا ریگولیٹری فریم ورک 30 دن میں نافذ کیا جائے اور تمام موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ سفارش کی گئی ہے کہ پولیس کو دفعہ 144 کا سختی سے نفاذ یقینی بنانے کی ہدایات دی جائیں، حساس مقامات پر پولیس کی نمایاں موجودگی اور وارننگ سائن بورڈ نصب کیے جائیں اور ٹورازم پولیس اور ڈسٹرکٹ پولیس کے مابین نیا میکنزم بنایا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انکوائری رپورٹ میں ٹورازم پولیس کی کی غفلت گیا ہے کی گئی
پڑھیں:
سانحہ مریدکے کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بایا جائے، تنظیمات اہلسنت
اہلسنت قائدین نے کہا کہ اگر وزیرِاعلیٰ اپنا موقف درست ثابت کرنا چاہتی ہیں تو وہ فوری طور پر جوڈیشل کمیشن قائم کریں تاکہ حقائق شفاف انداز میں قوم کے سامنے لائے جائیں، مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندوں کو بیٹھا کر شہداء اہلِسنت کا مذاق اُڑانا اور تالیاں بجانا شرمناک فعل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ مریدکے میں ریاستی رویّے سے کروڑوں اہلِسنت کے دل چھلنی اور وہ غم و غصّے میں مبتلا ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ تنظیماتِ اہلِسنت پاکستان کے قائدین سابق وفاقی وزیر سید حامد سعید کاظمی، سابق وفاقی وزیر و سنی سپریم کونسل کے چیئرمین پیر محمد امین الحسنات شاہ، جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ و سابق ایم این اے ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیرالوری، مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان کے مرکزی امیر صاحبزادہ پیر میاں عبدالخالق القادری، تنظیمات اہلسنت پاکستان کے کوآرڈینیٹر پیر زادہ محمد امین قادری، پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور، سنی اتحاد کونسل کے وائس چیئرمین صاحبزادہ حسن رضا، سنی تحریک کے سربراہ انجینئر ثروت اعجاز قادری، سابق ایم این اے صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری، انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی صدر فیصل قیوم ماگرے، جمعیت علمائے پاکستان کی سپریم کونسل کے چیئرمین قاری زوار بہادر، پاکستان فلاح پارٹی کے چیئرمین محمد رمضان مغل، جمعیت علماء پاکستان (نیازی) کے سربراہ پیر سید معصوم نقوی، وفاق المساجد الرضویہ کے مرکزی صدر مفتی محمد مقیم خان، محمد اکرم رضوی اور دیگر نے وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کی طرف سے کی گئی پریس کانفرنس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ پریس کانفرنس حقائق کو مسخ کرنے، عوام کو گمراہ کرنے اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک ناکام کوشش تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیرِاعلیٰ اپنا موقف درست ثابت کرنا چاہتی ہیں تو وہ فوری طور پر جوڈیشل کمیشن قائم کریں تاکہ حقائق شفاف انداز میں قوم کے سامنے لائے جائیں، مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندوں کو بیٹھا کر شہداء اہلِسنت کا مذاق اُڑانا اور تالیاں بجانا شرمناک فعل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ مریدکے میں ریاستی رویّے سے کروڑوں اہلِسنت کے دل چھلنی اور وہ غم و غصّے میں مبتلا ہیں۔ تحریکِ لبیک پاکستان سے سیاسی اختلاف ہر شہری کا حق ہے، مگر نہتے مظاہرین پر فائرنگ اور جابرانہ رویّے کسی طور پر درست نہیں۔ اہلِسنت کے مدارس، مساجد اور خانقاہوں کی بندش، بلاجواز چھاپے، علما و مشائخ کی گرفتاریوں اور سانحہ مریدکے میں ہونیوالے مظالم پر کروڑوں اہلسنت کے غمزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت یکطرفہ اور جھوٹے بیانیے کے ذریعے مذہبی طبقات کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
رہنماوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس میں شریک نمائندے اہلِ سنت کی نمائندگی کے مجاز نہیں اور حقیقی قیادت کو دانستہ طور پر مشاورت سے دور رکھا جا رہا ہے۔ تنظیماتِ اہلِ سنت پاکستان کے رہنماؤں نے کہا سرکاری سطح پر جاری یک طرفہ بیانیے واپس لئے جائیں اور عوام سے معافی مانگی جائے۔ سانحہ مریدکے کی شفاف تحقیقات کیلئے فوراً جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے، مساجد، مدارس اور خانقاہوں کیخلاف کارروائیاں فی الفور بند کی جائیں اور گرفتار علمائے و مشائخ کو رہا کیا جائے۔ پُرامن اہلسنت کو دہشتگردی سے نتھی کرنا افسوسناک ہے، ہم پُرامن لوگ ہیں اور قانون و آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے پُرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا مذاکرات کے نام پر دھوکہ دہی بند کی جائے مذاکرات کو شفاف اور قابلِ اعتماد بنایا جائے، بار بار مذاکرات کے باوجود حکومت نے اپنے وعدے پورے نہیں ہوئے امید کرتے ہیں پریس کانفرنس میں کیے گئے وعدے حکومت پورے کرے گی، گرفتار علماء ومشائخ کو رہا اور مساجد، مدارس، خانقاہوں کو ڈی سیل کر دیا جائے گا۔