Express News:
2025-07-30@10:08:56 GMT

زرعی ٹیکس، چھوٹا کسان اور طاقتور طبقہ

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم کسی ایسی زمین پر بستے ہیں جہاں صرف طاقتور کو جینے کا حق حاصل ہے۔ جہاں قانون کی تلوار صرف کمزور کے گرد گھومتی ہے اور مراعات کا سورج صرف طاقتوروں پر چمکتا ہے۔ آج کسانوں کے حقوق، زرعی ٹیکس اور معاشی نابرابری کے تناظر میں جو بحث چل رہی ہے، اس میں ہمیں بہت کچھ کہنے اور سننے کی ضرورت ہے۔

 سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کی جانب سے 45 فیصد زرعی انکم ٹیکس کے خلاف احتجاج عدالت جانے کا اعلان اور گندم کی کاشت کے بائیکاٹ کی اپیل نے ملک بھر میں کسانوں کے غم و غصے کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ بظاہر یہ ردِ عمل چھوٹے کسانوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن ہمیں یہ سوال ضرور اٹھانا ہوگا کہ آیا واقعی یہ ٹیکس چھوٹے کسانوں پر نافذ ہو رہا ہے یا پھر اس شور کے پیچھے وہ بڑے زمیندار اور کارپوریٹ فارمرز ہیں جو دہائیوں سے ٹیکس سے مستثنیٰ چلے آ رہے ہیں؟

 یہ بات ایک تاریخی سچائی ہے کہ پاکستان میں زراعت پر براہ راست آمدنی کا ٹیکس کبھی سنجیدگی سے لاگو ہی نہیں ہوا۔ زمینوں پر قبضہ رکھنے والے جاگیردار جو اکثر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوتے ہیں، خود اپنے لیے قوانین بناتے اور پھر ان ہی قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ زرعی آمدن پر ٹیکس کی تجویزکوئی نئی بات نہیں۔ آئی ایم ایف تو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کو یہ مشورہ دیتا آ رہا ہے کہ زرعی شعبے بالخصوص بڑے زمینداروں اور کارپوریٹ فارموں پر ٹیکس لگایا جائے تاکہ ٹیکس نیٹ وسیع ہو اور آمدنی کی مساوی تقسیم ممکن بنائی جا سکے۔

لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹا ہے۔ جب بھی زرعی ٹیکس کی بات ہوتی ہے، ایک ایسا بیانیہ کھڑا کردیا جاتا ہے کہ جیسے ہرکسان بھوکا، مقروض اور لاچار ہے اور اس پر ٹیکس لگانا ایک ظلمِ ہوگا۔ جی ہاں! بہت سے کسان واقعی مقروض اور استحصال کا شکار ہیں لیکن وہ کسان ایک یا دو ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے والے وہ مزدورکسان ہیں، جن کے پاس نہ جدید ٹریکٹر ہے نہ ہی منڈی تک رسائی اور نہ ہی حکومت کی سبسڈی۔یہ چھوٹے کسان اس نظام کے سب سے مظلوم کردار ہیں۔ ان کے نام پر تحریکیں چلائی جاتی ہیں، ان کے دکھوں پر بیانات دیے جاتے ہیں مگر جب سبسڈی قرض معافی یا مراعات کی تقسیم ہوتی ہے تو ان میں سے بیشتر کا حصہ انھی جاگیرداروں اور طاقتور زمینداروں کو ملتا ہے جو نہ صرف زرعی زمینوں کے مالک ہیں بلکہ سیاسی اقتدارکے مرکز میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ بات صاف الفاظ میں کہنی ہوگی کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کا نفاذ اصولی طور پر غلط نہیں۔ غلط یہ ہے کہ ایک عام تنخواہ دار شخص جو مہینے کے آخر میں بجلی کا بل دیکھ کرکانپ اٹھتا ہے وہ تو انکم ٹیکس بھی دیتا ہے سیلز ٹیکس بھی پٹرول پر لگے ہوئے ٹیکس بھی مگر وہ فرد جو ہزاروں ایکڑ زمین سے کروڑوں کی آمدن حاصل کرتا ہے اس پر کوئی انکم ٹیکس نہ ہو؟یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک اسکول ٹیچر، ایک نرس، ایک کلرک، ایک مزدور تو ٹیکس دے اور ایک ایسا شخص جو صرف اپنے مزارعوں سے زمین جوتوا کرکروڑوں کماتا ہے وہ ٹیکس سے آزاد رہے؟

زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کو اگر چھوٹے کسانوں کے لیے خطرہ بنا دیا جائے تو یہ بدنیتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ واضح پالیسی دے پانچ ایکڑ سے کم زمین رکھنے والے کسان اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں۔ ان کو سبسڈی دی جائے، ان کے لیے بجلی، بیج کھاد اور پانی سستے کیے جائیں، لیکن جو بڑے زمیندار ہیں جو زمین سے دولت کما رہے ہیں جن کے فارم ہاؤسز میں آسائشات کی بھرمار ہے، ان کو اس ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔

آج سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ زمین صرف چند ہاتھوں میں مرتکز ہے۔ زمین کا یہ ارتکاز ہی ہمارے دیہی سماج میں استحصال، غربت اور پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے، آپ اگر غور کریں تو پتا چلے گا کہ بیشتر دیہی مسائل جیسے کہ تعلیم کی کمی، صحت کی سہولیات کا فقدان یا پانی تک رسائی ان سب کے پیچھے یہی جاگیردارانہ ڈھانچہ کھڑا ہے جو اپنی زمین پر ایک اسکول بھی بننے نہیں دیتا تاکہ اس کے مزارعے ہمیشہ ناخواندہ رہیں۔اس پس منظر میں کسانوں کی جانب سے گندم کی کاشت کا بائیکاٹ ایک سنجیدہ مسئلہ بن سکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ واقعی کسانوں کا اجتماعی فیصلہ ہے یا پھر یہ چند بااثر افراد کی حکمت عملی ہے جو ٹیکس سے بچنے کے لیے عوامی ردِ عمل کا لبادہ اوڑھ کر سڑکوں پر آگئے ہیں؟

زرعی شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں زمین کی حد بندی کرنی ہوگی۔ بڑے زمینداروں کی زمینوں پر حد مقررکی جائے، جس کے پاس دس ہزار ایکڑ زمین ہے، اس سے یہ تو پوچھا جائے کہ اس زمین پرکس مزدور کی محنت سے فصل اگتی ہے؟ ان مزدوروں کوکیا تنخواہ دی جاتی ہے؟ کیا انھیں سوشل سیکیورٹی حاصل ہے؟ کیا ان کے بچے اسکول جا پاتے ہیں؟ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دیہی معیشت کا جائزہ صرف فصل کی قیمتوں اور پیداوار سے لیا جاتا ہے جب کہ اصل مسئلہ اس پیداوار کی تقسیم اور اس میں شامل طبقات کے استحصال کا ہے۔

اس پس منظر میں اگر کوئی حکومت واقعی اصلاحات چاہتی ہے تو اسے دو اقدامات کرنے ہوں گے، (اول) زرعی آمدن پر ٹیکس کا نفاذ صرف بڑے زمینداروں اورکارپوریٹ فارموں پرکیا جائے۔ (دوم) چھوٹے کسانوں کو مالی امداد سبسڈی اور قرضوں سے نجات دینے کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے۔

کسانوں کی گرفتاری کی دھمکیوں اور بائیکاٹ کی اپیلوں کو جذباتی بیانات سے ہٹ کر طبقاتی سیاست کے عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کسانوں کو مزید دبایا جائے ہم یہ کہتے ہیں کہ اصل کسان وہ ہے جس کے ہاتھ میں چھالا ہے اور پیٹھ پر دھوپ ہے اُسے سہارا دو مگر جس کے پاس ہزاروں ایکڑ اور درجنوں سیاسی تعلقات ہیں اُسے جوابدہ بناؤ۔

آخر میں یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر حکومتیں بڑے کاروباری افراد صنعت کاروں اور بلڈر مافیازکو ٹیکس نیٹ میں لا سکتی ہیں تو زرعی جاگیرداروں کو کیوں نہیں؟ اگر واقعی یہ ملک زرعی ہے تو پھر اس کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی کسان کو سب سے پہلے تحفظ ملنا چاہیے اور استحصال کرنے والے کو سب سے پہلے کٹہرے میں آنا چاہیے۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہماری زمین تو رہے گی مگر اسے جوتنے والا نہ ہو گا۔ کھیت تو ہوں گے، مگر فصل نہیں اگے گی اور جو بھوک آج غریب کسان کے گھر میں ہے، کل وہ شہر کی دیواروں پر ناچ رہی ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چھوٹے کسانوں چھوٹے کسان ایکڑ زمین انکم ٹیکس پر ٹیکس ٹیکس سے اور اس کے لیے

پڑھیں:

حکومت نے شوگر ملز سے چینی کی خریداری کیلئے مختلف شرائط عائد کردیں

---فائل فوٹو 

حکومت کی جانب سے شوگر ملز سے چینی کی خریداری کے لیے مختلف شرائط عائد کر دیں گئی ہیں۔

شوگرملز کے ذرائع کے مطابق شوگر ملز سے چینی کی خریداری کے لیے حکومت نے سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور این ٹی این نمبر لازمی قرار دے دیا ہے، چینی کی خریداری کے لیے محکمہ لوکل گورنمنٹ سرٹیفکیٹ اور  محکمہ خوراک کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کے بغیر چینی نہیں ملے گی۔

شوگر ملز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی حکومتی شرائط کے مطابق شوگر ملز سے چینی کی خریداری کے لیے شوگر ڈیلرز کو آن لائن رقم بھجوانی پڑے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ شوگر ڈیلرز اور ہول سیلرز کی بڑی تعداد سیلز ٹیکس رجسٹریشن سے محروم ہے۔

شوگر ملز کے ذرائع کے مطابق سیلز ٹیکس رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کی شرط سے مارکیٹ میں چینی کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے، حکومت کی نئی شرائط کے باعث بروقت خریداری نہ ہونے پر چینی کی فی کلو قیمت 200 روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب اسمبلی نے مویشیوں سے آمدنی پر ٹیکس ختم کرنے کا بل منظور کرلیا
  • جاپان میں طاقتور سونامی کی وارننگ، دہائیوں پہلے پیشگوئی کس نے کی تھی؟
  • روس کے قریب 8.7 شدت کا طاقتور زلزلہ، جاپان اور بحرالکاہل میں سونامی کی وارننگ جاری
  • غصے سے بھرے کسان کا انوکھا انتقام، ناجائز پارکنگ کرنے والوں کو مزا چکھا دیا
  • کسانوں کو صرف گندم کی فصل کی مد میں 2 ہزار 200 ارب روپے کا نقصان ہونے کا انکشاف
  • حکومت نے شوگر ملز سے چینی کی خریداری کیلئے مختلف شرائط عائد کردیں
  • شنگھائی سے مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کے لئے ایک نئے پل کی تعمیر
  • چین نے طاقتور ترین ایئر ڈیفنس میزائل ’ ایچ کیو-29 ‘ ایجاد کر لیا
  • 60سالہ چینی کسان نے آبدوز تیار کرلی