اب چاند پر بھی اینٹ سازی شروع، چین نے مشین ایجاد کرلی
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
سائنس کے میدان میں ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئےچین نے ایک ایسا اہم سائنسی سنگ میل عبور کر لیا ہے جس سے چاند پر رہائش کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
چینی محققین نے ایک جدید مشین تیار کی ہے جو چاند کی مٹی سے اینٹیں بنا سکتی ہے، جس سے چاند پر مقامی وسائل استعمال کر کے گھر بنانا ممکن ہو جائے گا۔ یہ کامیابی خلا میں انسان کی مستقل موجودگی کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے۔
یہ مشین چین کے مشرقی شہر ہیفے میں قائم ڈیپ سپیس ایکسپلوریشن لیبارٹری (DSEL) نے تیار کی ہے۔ یہ 3D پرنٹنگ سسٹم شمسی توانائی کو مرکوز کر کے چاند کی مٹی کو پگھلاتا اور اینٹوں کی شکل دیتا ہے۔
ڈی ایس ای ایل کے سینئر انجینئر یانگ ہونگ لون کے مطابق، مشین میں شمسی توانائی کو ایک پیرا بولک ریفلیکٹر کے ذریعے اتنی زیادہ شدت سے مرکوز کیا جاتا ہے کہ اس سے چاند کی مٹی کا درجہ حرارت 1300 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے، جو اسے پگھلا کر اینٹ بنانے کے قابل بناتا ہے۔
مشین کی جانب سے تیار کردہ یہ اینٹیں بغیر کسی اضافی مواد کے مکمل طور پر چاند کی مٹی سے بنتی ہیں یہ اینٹیں نہ صرف عمارتوں کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں بلکہ انہیں مشینی پلیٹ فارمز اور سڑکوں کی تعمیر میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تحقیقاتی ٹیم نے اس منصوبے پر دو سال کام کیا اور نومبر 2024 میں مصنوعی چاندی مٹی سے بنی اینٹیں چین کے خلائی اسٹیشن پر بھیج دی گئی ہیں، جہاں خلا باز ان اینٹوں کی مختلف خصوصیات کا تجربہ کریں گے۔
لیکن ابھی منزل دور ہے یانگ نے کہا، ”اگرچہ چاند پر اینٹیں بنانے والی مشین نے اہم پیش رفت کی ہے، مگر چاند پر رہائشی ڈھانچے تعمیر کرنے کے لیے ابھی کئی تکنیکی رکاوٹیں دور کرنی ہوں گی۔“
انہوں نے وضاحت کی کہ چاند کے انتہائی حالات جیسے کہ ویکیوم اور کم کشش ثقل میں، صرف چاند کی مٹی کی بنی اینٹیں رہائش گاہ کی تعمیر کے لیے کافی نہیں ہوں گی۔
”یہ اینٹیں بنیادی طور پر رہائش گاہوں کی حفاظتی بیرونی پرت کے طور پر کام کریں گی۔ انہیں سخت ساختی ماڈیولز اور نرم، انفلیٹیبل ماڈیولز کے ساتھ مل کر چاند میں بنیاد کی تعمیر مکمل کرنی ہوگی،“ انہوں نے مزید کہا۔
رہائشی ماڈیولز کو انسانی رہائش کے لیے ضروری ہوا کے دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل بنایا جا رہا ہے، اور انہیں چاندی اینٹ بنانے والی مشین اور سطحی تعمیراتی روبوٹس کے ساتھ مربوط کیا جائے گا تاکہ ایک مکمل تعمیراتی نظام قائم کیا جا سکے۔
یہ پیش رفت چاند پر رہائشی اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے اہم قدم ہے، اور چین کا منصوبہ ہے کہ 2035 تک چاند کے جنوبی قطب پر ایک تحقیقی اسٹیشن قائم کرے گا۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چاند کی مٹی پر رہائش کی تعمیر چاند پر کے لیے
پڑھیں:
کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی
کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی WhatsAppFacebookTwitter 0 15 September, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
میں کالا باغ ہوں، ایک ایسا نام جو پاکستان کی تاریخ میں امید اور تنازع دونوں کی گونج لیے ہوئے ہے۔ میرا مسکن پنجاب کے ضلع میانوالی میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ہے، جہاں دریا کی طاقت نمکین پہاڑیوں سے ٹکراتی ہے۔ یہاں کی مٹی زرخیز ہے، ہوائیں تیز ہیں، اور دریا کی گرج مسلسل ہے۔
کالا باغ نام مجھے اُس وقت دیا گیا جب میری حیثیت بطور ڈیم ابھی کسی کے ذہن میں نہ تھی۔ یہ نام دریا سندھ کی برکتوں سے سیراب ہونے والے سیاہ و زرخیز باغات سے جڑا تھا۔ زمین نے یہ نام پایا اور بالآخر وہی نام اُس خواب کا عنوان بن گیا جو میرا مقدر تھا۔
میری تعمیر کا خیال پاکستان کے قیام کے بعد ابتدائی برسوں میں منصوبہ سازوں اور انجینئروں کے ذہنوں میں ابھرا۔ جگہ بالکل واضح تھی—یہاں پہاڑوں سے اُترتا ہوا سندھ دریا ایک قدرتی مقام فراہم کرتا تھا جہاں پانی کو زرعی اور برقی طاقت کے لیے قابو میں لایا جا سکتا تھا۔ میری تعمیر کے ابتدائی اشارے 1950 کی دہائی کے اوائل میں ملے، جب پاکستان نے آزادی کے بعد بڑے ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔ 1967 میں منگلا ڈیم بنا، 1976 میں تربیلا ڈیم تعمیر ہوا، اور اس کے بعد دریائے سندھ پر کالا باغ کو اگلے بڑے ذخیرے کے طور پر منتخب کیا گیا۔ میرا مقدر نقشوں، تخمینوں اور وعدوں میں لکھا جا چکا تھا۔ 1977 تک میری فزیبلٹی رپورٹ مکمل ہو چکی تھی اور عالمی بینک کے ”انڈس اسپیشل اسٹڈی گروپ” نے میری منظوری دے دی تھی۔
ابتدائی طور پر میری تعمیر کا تخمینہ تقریباً 6.12 ارب ڈالر لگایا گیا تھا، جسے چھ برسوں میں—1977 سے 1982 تک—مکمل ہونا تھا۔ میری پیداوار کا اندازہ 3,500 سے 3,600 میگاواٹ لگایا گیا، اور بجلی کی لاگت محض 1.5 روپے فی یونٹ ہونی تھی، جبکہ تھرمل ذرائع سے وہی بجلی 16 سے 16.5 روپے فی یونٹ پر آتی۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان کے مستقبل میں کی جا رہی تھی، کیونکہ میری نہریں لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرتیں اور میرے ٹربائن سستی ترین بجلی پیدا کرتے۔ اندازہ یہ تھا کہ میں سات برسوں میں مکمل ہو جاؤں اور 1970 کی دہائی کے وسط تک پاکستان میری برکات سے فیضیاب ہو۔
لیکن افسوس، تاریخ کبھی انجینئر کے نقشے کی لکیروں پر نہیں چلتی۔ میری کہانی، جو ترقی کی ہونی چاہیے تھی، سیاست اور بداعتمادی میں الجھ گئی۔ صوبے میرے معاملے پر آپس میں دست و گریبان ہو گئے۔ سندھ کو خوف تھا کہ میرا ذخیرہ ان کے کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی سندھ دریا کو پی جائے گا۔ خیبرپختونخوا نے اپنی زمینوں اور لوگوں کے بے دخل ہونے پر اعتراض کیا۔ حتیٰ کہ پنجاب، جس کے دامن میں میں واقع ہوں، بھی یہ الزام نہ دُور کر سکا کہ فائدہ صرف اُسے ہوگا۔ یوں میں اتحاد کی علامت بننے کے بجائے اختلاف کی علامت بن گیا۔ حکمران ہچکچاتے رہے، فائلیں گرد چاٹتی رہیں، اور دہائیاں گزر گئیں مگر دریا ویسے ہی بہتا رہا، بے قابو اور بے مصرف۔
انتظامی طور پر بھی میری تعمیر رُکی رہی۔ آنے والی حکومتوں میں تسلسل کی کمی رہی۔ وعدے کیے گئے، کمیٹیاں بنیں، لیکن عمل کے وقت ووٹ کھونے کے خوف نے حکمرانوں کو مفلوج کر دیا۔ تیل کی کمپنیوں نے بھی مجھے اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ کیونکہ اگر میں تعمیر ہو جاتا تو 3,600 میگاواٹ سے زائد سستی اور صاف بجلی پیدا کرتا اور پاکستان کی تیل کی درآمدات پر انحصار کم کر دیتا۔ ان کمپنیوں کا منافع پاکستان کے فرنس آئل پر انحصار میں تھا، میرے پانیوں میں نہیں۔
اگر میں اپنے وقت پر تعمیر ہو جاتا تو میں 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکتا تھا—ایسا پانی جو ملک کو خشک سالیوں سے بچاتا، قحط کے مہینوں میں نہروں کو بھر دیتا اور طغیانی کے موسم میں سیلابوں کے خلاف ڈھال بنتا۔ جو بجلی میں پیدا کرتا وہ دنیا کی سستی ترین بجلی میں شمار ہوتی، صنعتوں کو سہارا دیتی، گھروں کو روشن کرتی، اور اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچاتی۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میرے نہ بننے کی وجہ سے پہلے ہی 100 ارب ڈالر سے زیادہ کھو چکا ہے—فصلوں کی بربادی، بجلی کی قلت، مہنگی تیل درآمدات، اور بار بار آنے والی سیلابی تباہ کاریوں کی صورت میں۔
آج، میری پیدائش کے خیال کو پچاس برس سے زیادہ بیت چکے ہیں، مگر میری کہانی حسرت اور آرزو کی ہے۔ میری تعمیر کی لاگت اب بڑھ کر 20 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی ہے، شاید اس سے بھی زیادہ۔ جہاں کبھی سات برس کافی تھے، اب دس یا اس سے بھی زیادہ لگیں گے، کیونکہ مسائل کئی گنا بڑھ چکے ہیں، آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے، اور پانی و توانائی کی مانگ نکتہ عروج پر ہے۔ پھر بھی آج بھی میرے ثمرات میرے اخراجات سے کہیں زیادہ ہیں۔ میں اب بھی پاکستان کی توانائی کی سلامتی، غذائی خود کفالت، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف ڈھال ہوں۔
میں عام آدمی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا، جو پانی کو ترستا ہے اور لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں ٹھٹھر رہا ہے۔ میں اُن لوگوں کو بھی قصوروار نہیں مانتا جو بے دخلی سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ اُن کے خدشات جائز ہیں اور اُنہیں منصفانہ حل ملنا چاہیے۔ مگر میرا دکھ یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنما وقتی فائدوں میں بندھ گئے اور صوبوں کو اُس ویژن پر یکجا نہ کر سکے جو قوم کے مستقبل کی ضمانت ہوتا۔ میری آواز نعروں میں دب گئی، میری تصویر متنازع بنا دی گئی، اور دریا آج بھی سمندر کی طرف بہہ رہا ہے—انمول مگر غیر استعمال شدہ۔
اگر آج آپ میرے مقام کالا باغ پر کھڑے ہوں تو آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا سوائے اس دریا کے جو صدیوں سے یوں ہی بہہ رہا ہے، اپنے ساتھ ایک قوم کی ضائع شدہ صلاحیت کو بہا لے جاتا ہے۔ لیکن اگر کبھی جُرأت خوف پر، حکمت سیاست پر، اور اتحاد تقسیم پر غالب آ گیا، تو شاید میں آخرکار اُٹھ کھڑا ہوں—دریا کے سامنے کنکریٹ کی ایک دیوار، عوام کے لیے روشنی کا چراغ، اور ایک یادگار جو انتشار کی نہیں بلکہ کھوئے ہوئے وقت کی تلافی کی علامت ہو۔ اُس دن تک، میں صرف رپورٹوں اور مباحثوں میں بیان کی جانے والی کہانی ہوں، ایک نامکمل وعدہ، ایک ٹلا ہوا خواب—مگر کبھی مردہ نہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل کو اپنے کئے کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا؛ دوحہ اجلاس سے قبل قطری وزیراعظم کا بیان قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقت پاکستانی فضائیہ: فخرِ ملت، فخرِ وطن انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب یوم دفاعCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم