بلوچستان حق دو مارچ: منصورہ سے باہر نکلنے کی کوشش پر مظاہرین کا پولیس سے تصادم
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
’بلوچستان حق دو مارچ‘ کے شرکاء اور پولیس کے درمیان منصورہ کے باہر اس وقت تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی جب مظاہرین نے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، جس پر صورتحال کشیدہ ہو گئی، تاہم قائدین کی مداخلت پر وقتی طور پر تصادم رک گیا ہے۔
مارچ کے قائدین نے شرکاء کو اگلے لائحہ عمل تک پیچھے ہٹنے کی ہدایت کی ہے جبکہ پولیس کی بھاری نفری تاحال منصورہ کے اطراف تعینات ہے۔
مذاکراتی عمل جاریدوسری طرف پنجاب حکومت کی مذاکراتی ٹیم مسلسل دوسرے روز بھی منصورہ پہنچی، جہاں مظاہرین سے بات چیت جاری ہے۔ مذاکراتی ٹیم کی قیادت سینئر وزیر مریم اورنگزیب کر رہی ہیں، جب کہ دیگر اراکین میں وزیر قانون ملک صہیب بھرتھ اور خواجہ سلمان رفیق شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے سرحد کی بندش اور لاپتا افراد کی عدم بازیابی پر مولانا ہدایت الرحمان کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان
جماعت اسلامی کی طرف سے نائب امیر لیاقت بلوچ، سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمان بلوچ مذاکرات میں شریک ہیں۔
جماعت اسلامی کی قیادت کا مؤقفجماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کراچی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے منصورہ کے محاصرہ کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
’پرامن سیاسی جمہوری جدوجہد ہمارا آئینی حق ہے، اور مظاہرین کو اسلام آباد جانے سے روکنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘
جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ حافظ نعیم الرحمان جلد پشاور میں امن جرگہ پروگرام سے فراغت کے بعد مارچ کی قیادت سنبھالیں گے۔
ملک گیر احتجاج کی وارننگحافظ نعیم الرحمان نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے رویہ نہ بدلا تو جماعت اسلامی ملک گیر احتجاج کی کال دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کے جائز مطالبات کو طاقت سے دبانا ناقابل قبول ہے۔
یہ بھی پڑھیے جماعت اسلامی بلوچستان کا لانگ مارچ رکاوٹیں عبور کرتے اسلام آباد کی جانب رواں دواں
یاد رہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے ’بلوچستان حق دو تحریک‘ کے شرکاء کا یہ مارچ ج بلوچستان کے عوام کے حقوق، جبری گمشدگیوں، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور آئینی تحفظات کے لیے جاری ہے۔ مظاہرین جمعہ کو کوئٹہ سے روانہ ہوئے، اب لاہور پہنچ چکے ہیں جہاں سے وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مطالبات مرکزی حکومت کے سامنے پیش کر سکیں۔ تاہم حکومت انہیں اسلام آباد کی طرف آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان حق دو تحریک جماعت اسلامی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان حق دو تحریک جماعت اسلامی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ بلوچستان حق دو جماعت اسلامی اسلام آباد کی طرف
پڑھیں:
پنجاب حکومت اسلام آباد جانے دے یا گرفتار کے، بلوچ لانگ مارچ مظاہرین
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جولائی 2025ء) حق دو تحریک کے رہنما اور بلوچستان اسمبلی کے رکن ہدایت اللہ بلوچ نے پنجاب حکومت کےساتھ دن بھر جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کے پاس اب صرف دو آپشنز ہیں یا وہ ہمیں اسلام آباد جانے کا راستہ دے یا پھر ہمیں گرفتار کر لے۔ '' ہم ہر صورت کل صبح اسلام آباد کے لیے نکلیں گے‘‘
حقوق بلوچستان لانگ مارچ پانچ روز پہلے کوئٹہ سے شروع ہوا تھا۔
اس میں پانچ سو سے زائد بلوچ افراد شریک ہیں۔ اس لانگ مارچ کا اہتمام جماعت اسلامی بلوچستان کی طرف سے کیا گیا تھا۔ یاد رہے حق دو تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن بلوچ جماعت اسلامی کے بلوچستان کے امیر بھی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس قافلے میں عام بلوچ بڑی بھی تعداد میں شامل ہیں اور وہ اپنے خرچ اور اپنی ٹرانسپورٹ پر اپنے حقوق کے لیے مارچ کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
ان کے مطابق اس لانگ مارچ کا مقصد بلوچستان کے عوام کے بنیادی حقوق کو حاصل کرنا اور وفاق کی توجہ مظالم کی جانب مبذول کروانا ہے۔منگل کی صبح جب حقوق بلوچستان کے شرکا اسلام آباد جانے کے لیے ملتان روڈ کی طرف جانے لگے توپولیس کے مسلح اہلکاروں کی بڑی تعداد نے انہیں منصورہ کے گیٹ سے باہر آنے کی اجازت نہیں۔ لانگ مارچ کے شرکا نے پچھلی رات لاہور پہنچ کر منصورہ میں قیام کیا تھا۔
منگل کی صبح لانگ مارچ کے دوبارہ آغاز پر منصورہ کو پولیس نے گھیرے میں لیے رکھا اور منصورہ آنے اور جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے۔اس موقع پر لیڈیز پولیس سمیت متعدد علاقوں سے پولیس کی بھاری نفری منصورہ کے علاقے میں پہنچائی گئی تھی جبکہ واٹر کینن اور قیدیوں کی بسوں کے علاوہ وہاں پولیس کی درجنوں گاڑیاں بھی موجود تھیں۔
اس موقعے پر منصورہ کے باہر ملتان روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔پنجاب حکومت کے مذاکراتی وفد کی سر براہ سینئر منسٹر مریم اورنگ زیب نے لانگ مارچ کے شرکا کو مطالبات منظور کروانے کی یقین دہانی کروائی لیکن ان کی اس پیشکش کو بلوچ رہنماوں نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ان کے پاس یہ مطالبات منظور کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ بلوچ رہنماؤں نے پنجاب حکومت کی اس پیشکش کو بھی مسترد کر دیا جس میں انہیں پروٹوکول کے ساتھ لگژری گاڑیوں میں اسلام آباد پہنچانے کی پیش کش کی گئی تھی۔
پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے خود فون کرکے جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ سے بات کی اور انہیں اس معاملے کو حل کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے۔ پنجاب حکومت نے بلوچوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی بھی پیشکش کی۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں اس لانگ مارچ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان حکومت بے اختیار ہے اور بلوچوں کے بارےمیں سارے فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں اور وہ اسلام آباد جاکر اپنے مطالبات وہاں کے اصل حکمرانوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔
ہدایت الرحمان بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''میں ایک پرامن اور جمہوری سیاسی کارکن ہوں پاکستان اور آئین پاکستان کو مانتا ہوں لیکن میری بات بھی نہیں سنی جا رہی ہے۔
‘‘اپنے مطالبات کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کو رہا کیا جائے، افغانستان اور ایران کے ساتھ بلوچستان کے بارڈرز کھولے جائیں۔ چیک پوسٹوں پر بلوچ عوام کی تذلیل بند کی جائے ، بلوچستان کی زمین اونے پونے داموں دوسرے صوبوں کے با اثر لوگوں کو نہ بیچی جائے، سی پیک میں بلوچوں کی مشاورت شامل کی جائے اور معدنیات پر ان کا حق تسلیم کیا جائے۔
ہدایت الرحمن بلوچ نے بتایا کہ انہیں لانگ مارچ سے پیچھے ہٹ جانے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مظفر گڑھ کے ایک سینیئر پولیس اہلکار نے ان تک یہ پیغام پہنچایا تھا کہ اگر انہوں نے لانگ مارچ جاری رکھا تو ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ '' پنجاب کے لوگوں کی طرف سے ہمیں اچھا ریسپانس مل رہا ہے عام لوگوں نے اس مارچ میں ہمیں عزت دی ہے۔
لیکن میڈیا پر ہمارا بلیک آوٹ کیا جا رہا ہے‘‘سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم نے پنجاب حکومت کی کارروائی کو اوچھے ہتھکنڈے قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرامن مظاہرین کو روکے بغیر آگے بڑھنے دے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور کے منصورہ مرکز میں لیاقت بلوچ کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں اسلام آباد جانےدیا جائے،حکومت گرفتارکرتی ہے توکرلے۔ نائب امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ لانگ مارچ طےشدہ پلان کےمطابق آگے بڑھے گا۔