امپورٹ 53 ارب ڈالر سے بڑھ کر 59 ارب ڈالر رہی جو 11 فیصد زائد ہے، نان آئل امپورٹس میں 16 فیصد اضافہ ہوا اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے نان آئل امپورٹ میں اضافہ ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی ریٹ 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رہے گی، گزشتہ مالی سال اوسط افراط زر 4.

5 فیصد رہا، جبکہ سال شرح سود اسٹیٹ بینک اور حکومت کی توقع پانچ سے سات فیصد سے کم رہا۔ انہوں نے کہا کہ فوڈ انفلیشن اور کور انفلیشن میں گزشتہ مالی سال نمایاں کمی آئی، کور انفلیشن 7.2 فیصد پر رہا اور جون میں افراط زر 3.2 فیصد رہا۔ اپریل میں افراط زر 0.3 فیصد پر آکر مئی اور جون میں اضافہ ہوا، رواں مالی سال کے شروع میں افراط زر میں اضافہ کم اور آگے چل کر زیادہ رہے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل سے بھی افراط زر پر اثر پڑے گا، مانیٹری پالیسی کمیٹی نے ایکسٹرنل اکاؤنٹ کا گہرائی سے جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ امپورٹ میں گزشتہ مالی سال نمو رہی، امپورٹ 53 ارب ڈالر سے بڑھ کر 59 ارب ڈالر رہی جو 11 فیصد زائد ہے، نان آئل امپورٹس میں 16 فیصد اضافہ ہوا اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے نان آئل امپورٹ میں اضافہ ہوا۔

گورنر نے کہا کہ ترسیلات اور ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوا، ایکسپورٹ کا اضافہ 4 فیصد تک محدود رہا، خسارے پر قابو پانے کیلئے ایکسپورٹ میں اضافہ ضروری ہے، گزشتہ مالی سال ترسیلات میں 8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، ترسیلات اب قانونی اور باضابطہ طریقوں سے آ رہی ہے، ترسیلات بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ فاضل رہا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2022ء میں جاری کھاتے کا خسارہ 17.5 ارب ڈالر تھا اور 2023ء میں جی ڈی پی کا ایک فیصد 2024 میں نصف فیصد رہا، اس سال جاری کھاتہ 14 سال بعد سرپلس رہا، جو کہ 22 سال کا بلند ترین سرپلس رہا۔ گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے انٹر بینک مارکیٹ میں بھی سرگرمیاں کیں، جس سے شرح مبادلہ بہتر رہی، قرضوں کی ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک سال کے دوران 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، گزشتہ سال 26 ارب ڈالر کی بیرونی قرضوں میں سے 10 ارب ڈالر کی ری پے منٹس کی گئیں، امپورٹ اور زرمبادلہ کی تمام ضروریات کو بینکنگ سیکٹر نے پورا کیا۔

معاشی نمو

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ مالی سال معاشی نمو 2.7 فیصد رہی اور زرعی شعبے میں سست نمو سے معاشی ترقی کی رفتار کم رہی، البتہ صنعتی سرگرمیاں بہتر رہیں اور خدمات کے شعبے نے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ رواں مالی سال زرعی شعبے میں بہتری کی امید ہے جس سے معاشی نمو بھی بہتر رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال افراط زر کا ہدف وسط مدتی 5 سے 7 فیصد کی رینج میں رہے گا، افراط زر میں اضافہ کی توقع ہے اس کے باوجود وسط مدت ہدف حاصل کریں گے۔ کچھ مہینوں میں افراط زر 7 فیصد سے زائد رہے گی تاہم اوسط 5 سے 7 فیصد رہے گا، کور انفلیشن میں کمی آرہی ہے جو آگے جاکر بڑھے گا۔

گورنر نے کہا کہ گزشتہ مالی سال جاری کھاتا سرپلس رہا اور اس سال امپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے جاری کھاتے پر اثر پڑے گا، رواں مالی سال جاری کھاتے کو جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصد خسارے کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ ترسیلات، امپورٹ اور ایکسپورٹ کی کارکردگی پر منحصر ہے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کیا رہے گا۔ رواں مالی سال ترسیلات زر 40 ارب ڈالر سے زائد رہنے کی توقع ہے جبکہ معاشی ترقی کی شرح نمو رواں مالی سال 3.25 سے 4.25 فیصد کے درمیان رہے گی اور معاشی نمو میں زراعت کا حصہ 0.6 فیصد سے بڑھے گا۔

گورنر کا کہنا تھا کہ بڑی فصلوں کو بارشوں اور پانی کی دستیابی سے فائدہ ہوگا جبکہ زراعت کی کارکردگی گزشتہ سال سے بہتر لیکن 2024 سے کم رہے گی۔ صنعتی شعبے اور خدمات کی کارکردگی بھی بہتر رہنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کی شرح نمو کے لحاظ سے معاشی نمو کو بھی زیادہ اور تیز ہونا ضروری ہے، پائیدار معاشی نمو کے لیے ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ پائیدار معاشی نمو اور ایکسپورٹ سے بیرونی اکاؤنٹ پر ہر تین چار سال آنے والا دباؤ بھی کم ہوگا۔ گورنر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی نگرانی میں زرعی قرضوں کی فراہمی بنانے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے اور کمرشل اسپیشل بینکوں کے ساتھ مائکرو فنانس بینکوں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔ زراعت کے شعبے کی شرح نمو ڈھائی فیصد تک رہنے کی امید ہے

قرضوں کی ادائیگی

گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ رواں مالی سال 25.9 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کرنا ہوں گے جبکہ قرضوں کی ادائیگی گزشتہ مالی سال سے قدرے کم رہے گی، گزشتہ مالی سال بھی 26 ارب ڈالر کے قرضے سیٹل کیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور ہوں گے اور 10 ارب ڈالر ہمیں ادا کرنا ہوگا، 22 ارب ڈالر کے پرنسپل قرضے اور 4 ارب ڈالر کی سودی ادائیگیاں شامل ہیں۔ جون 2022 میں مجموعی پبلک قرضہ 100 ارب ڈالر تھا اور تین سال سے بیرونی قرضے اسی سطح پر برقرار ہیں، نئے قرضے لیتے ہیں لیکن پچھلے قرضے ادا کرتے ہیں۔

گورنر نے کہا کہ 2015 سے 2022 کے دوران 7 سال کے دوران سالانہ 6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا لیکن گزشتہ تین سال میں اضافہ نہیں ہوا، 2022 میں 43 فیصد قرضہ عالمی ترقیاتی اداروں سے طویل مدتی اور سستا قرضہ لیا، ملٹی لٹرل طویل مدتی سستے قرضوں کا تناسب 50 فیصد سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سودی ادائیگیاں کم ہو رہی ہیں، بین الاقوامی مارکیٹ میں شرح سود 2 فیصد سے بڑھ کر 4.25 فیصد تک آگیا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سودی ادائیگیاں کم ہوئی ہیں، نئے قرضوں پر کم سود ادا کر رہے ہیں جبکہ قرضوں کی مدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

گورنر نے کہا کہ بیرونی قرضوں کی پائیداری اور پاکستان کی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے اسی وجہ سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اَپ گریڈ کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو اس سال کے قرضوں سے زائد ہے۔ انہوں نے کہ اکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے تین بانڈز پریمیئم پر ٹریڈ ہو رہے ہیں اور عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی معیشت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ گلوبل مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز پریمیئم پر ٹریڈ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قرضہ لینے اور واجبات کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے، اس وقت صورتحال انٹرنیشنل مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرنے کے لیے سازگار ہے۔

گورنر نے کہا کہ حکومت پانڈہ بانڈ پر کام کر رہی ہے، اس سال کے دوران دو بانڈز ستمبر میں 500 ملین اور آئندہ سال اپریل میں 1.3 ارب ڈالر کے یورو بانڈز میچور ہو رہے ہیں، 1.8 ارب ڈالر کے یورو بانڈز کے ساتھ 10 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کریں گے۔ چھ ماہ قبل تک دنیا کے مرکزی بینکوں کا طرز عمل کچھ اور تھا، دنیا کے مرکزی بینکوں نے محتاط طرز عمل اختیار کیا ہے۔

ڈیجیٹل کرنسی اور کرنسی نوٹ

انہوں نے کہ اکہ اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی پر کام کر رہا ہے اور ایک آزمائشی پروجیکٹ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس پر کام جاری ہے، حکومت نے کرپٹو سے متعلق قانون بھی بنا دیا ہے اور اس حوالے سے کونسل بنائی جا رہی ہے۔ جس طرح بہت سارے ممالک کے اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی پر پائلٹ پروجیکٹ کر رہے ہیں ہم بھی اسی طرح کریں گے۔ گورنر نے کہا کہ نئے کرنسی نوٹوں کا ڈیزائن منتخب کر لیا جس کے لیے بین الاقوامی ڈیزائنر کی مدد حاصل کرلی ہیں، کابینہ کی منظوری کے بعد نئے ڈیزائن کے نوٹوں پر کام شروع کر دیں گے۔

ترسیلات اور زرمبادلہ کے ذخائر

گورنر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر دسمبر تک 15.5 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اس لیے زرمبادلہ کے لیے جون 2026 کا ہدف 17.5 ارب ڈالر رکھا ہے۔ یورو بانڈز جاری کیے تو ذخائر اس سطح سے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹر بینک اور ایکس چینج کمپنیوں کے ساتھ ملک میں غیر قانونی مارکیٹ بھی موجود ہے۔ اسٹیٹ بینک 2 قانونی مارکیٹس کو ریگولیٹ اور مانیٹر کرتا ہے۔ اوپن مارکیٹ اسٹیٹ بینک کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی اس کی سرگرمیوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔

جمیل احمد نے بتایا کہ انٹر بینک اور ایکسچینج کمپنیوں کو فعال طریقے سے دیکھتے ہیں ضرورت پڑنے پر فوری مداخلت کرتے ہیں، غیر قانونی مارکیٹ سے متعلق کوئی اطلاع ہوتی ہے تو سیکیورٹی اداروں کو دیتے ہیں۔ گولڈ کی اسمگلنگ کو حکومتی سطح پر کنٹرول کیا جائے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ترسیلات سے متعلق پالیسی اقدامات کیے جائیں گے اور حکومت ترسیلات کی معاون اسکیم کو جاری رکھے گی، قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کریں گے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: زرمبادلہ کے ذخائر گورنر اسٹیٹ بینک قرضوں کی ادائیگی مانیٹری پالیسی گورنر نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ نان آئل امپورٹ گزشتہ مالی سال رواں مالی سال اسٹیٹ بینک نے میں اضافہ ہو میں افراط زر ارب ڈالر سے نے بتایا کہ امپورٹ میں مارکیٹ میں اضافہ ہوا کے دوران کا اضافہ فیصد پر زائد ہے کریں گے فیصد سے کی توقع اس سال رہے گا رہا ہے رہی ہے رہے گی سے بڑھ سال کے

پڑھیں:

سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار

کراچی (کامرس رپورٹر) سٹیٹ بنک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے مارکیٹ توقعات کے عین مطابق پالیسی ریٹ 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پالیسی ریٹ کو برقرار رکھے گی، کیونکہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے۔ ماہرین اقتصادیات کو توقع ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی شرح سود برقرار رکھے گی کیونکہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے۔ مرکزی بنک کی جانب سے اجری اعلامیہ کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ جولائی اور اگست دونوں مہینوں میں مہنگائی نسبتاً معتدل رہی، جبکہ قوزی مہنگائی نسبتاً سست رفتار سے کم ہوتی رہی۔ بلند تعدد کے اقتصادی اظہاریوں بشمول بڑے پیمانے کی اشیاء سازی، سے ناپی گئی، اقتصادی سرگرمیوں میں مزید تیزی آئی۔ تاہم جاری سیلابوں کے باعث مستقبل قریب میں میکرو اکنامک منظر نامے میں معمولی سا بگاڑ دیکھا گیا۔ سیلاب کی وجہ سے یہ عارضی لیکن نمایاں رسدی دھچکہ، خصوصاً وہ جو فصلوں کے شعبے کو لگے گا، عمومی مہنگائی کو بڑھا سکتا ہے اور مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سابقہ توقعات سے بڑھ سکتا ہے۔ دریں اثناء، معاشی نمو سابقہ تخمینے رکے مقابلے میں معتدل رہنے کی پیش گوئی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے ارتقا پذیر میکرو اکنامک منظرنامے اور سیلاب سے متعلق غیر یقینی کیفیت کو دیکھتے ہوئے قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے آج کے فیصلے کو مناسب قرار دیا۔ زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ معیشت پچھلے بڑے سیلابوں کے مقابلے میں حالیہ سیلاب کے منفی اثرات کو برداشت کرنے کی خاصی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ کم مہنگائی کے حالات میں ملکی طلب میں معتدل اضافے اور اجناس کی عالمی قیمتوں کے قدرے خوش آئند منظرنامے کے پیش نظر امید ہے کہ مہنگائی اور بیرونی کھاتے میں پچھلے سیلاب کے بعد آنے والا اضافی دباؤ اس مرتبہ قابو میں رہے گا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ ذخائر مستحکم رہے۔ دوسرا، سٹیٹ بنک اور آئی بی اے کے ستمبر میں ہونے والے احساسات کے دونوں سروے سے صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کی مہنگائی کی توقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ بلند تعدد والے اقتصادی اظہاریوں، مثلاً مشینری اور وساطتی اشیاء کی درآمدات، گاڑیوں اور سیمنٹ کی فروخت، نجی شعبے کو قرضے اور کاروباری اعتماد کے تازہ ترین اعداد و شمار اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ مالی سال 25ء کی دوسری ششماہی سے معیشت میں مستحکم بنیادی نمو کا رجحان جاری ہے۔ اسی رجحان کے مطابق، مالی سال 25ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران بڑے پیمانے کی اشیاء سازی میں 3 فیصد سال بسال اضافہ ہوا، جب کہ اس سے پہلے کی تین سہ ماہیوں میں سکڑ آیا تھا۔ تاہم، حالیہ سیلاب نے مالی سال 26ء کے لیے مجموعی نمو کے امکانات کو معتدل کر دیا ہے۔ فی الحال دستیاب معلومات بشمول سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ خریف کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ نقصانات اور سیلاب کے نتیجے میں رسدی زنجیر میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں، مستقبل قریب میں اشیاء سازی اور خدمات کے شعبوں میں سرگرمیوں کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ حقیقی جی ڈی پی کی نمو اپنے گذشتہ تخمینے 3.25 تا 4.25 فیصد کی حد کے نچلے سرے کے قریب رہنے کا امکان ہے۔ جولائی 2025ء میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 254 ملین ڈالر خسارہ ریکارڈ ہوا، جس کی وجہ بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمی کے ساتھ درآمدات میں اضافہ اور ترسیلات زر میں کسی قدر اعتدال تھا۔ اس خسارے اور مالی رقوم کی کم آمد کے باوجود، سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ ذخائر 5 ستمبر تک تقریباً 14.3 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم رہے۔ مستقبل کے تناظر میں بیرونی شعبے کا منظرنامہ ملکی اور عالمی عوامل میں ممکنہ تبدیلیوں سے مشروط رہے گا۔ بالخصوص، فصلوں کو سیلاب سے پہنچنے والا نقصان تجارتی خسارے کو مزید بڑھانے کا باعث بنے گا، مجموعی طور پر مالی سال 26ء کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پہلے سے دئیے گئے تخمینے کے مطابق جی ڈی پی کے صفر تا ایک فیصد کی حد میں رہنے کا امکان ہے۔ متوقع سرکاری رقوم کی آمد کے ساتھ سٹیٹ بنک کے زرِمبادلہ ذخائر دسمبر 2025ء تک بڑھ کر تقریباً 15.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مالی سال 26ء کے ابتدائی دو ماہ میں، ایف بی آر کے ٹیکس محاصل میں سال بسال 14.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سٹیٹ بنک کی جانب سے حکومت کو 2.4 ٹریلین روپے کے بھاری منافع کی منتقلی اور بلند پٹرولیم لیوی کی بدولت مالی سال 26 ء کی پہلی سہ ماہی میں نمایاں پرائمری سرپلس کی توقع ہے۔ اسی اثناء میں سٹیٹ بنک کی جانب سے حکومت کو منافع موصول ہونے کے بعد بنکاری نظام سے حکومت کی خالص میزانی قرض گیری تیزی سے کم ہوئی جبکہ غیر سرکاری شعبے کو بنکوں کی جانب سے قرض کی فراہمی بڑھی۔ نجی شعبے کے قرضوں میں 14.1 فیصد سال بسال اضافہ ہوا جسے بہتر ہوتے ہوئے مالی حالات، معاشی سرگرمی اور میزانی قرض گیری میں مسلسل کمی سے سہارا ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ قرضوں میں اضافہ وسیع البنیاد تھا، اہم قرض گیر شعبوں میں ٹیکسٹائل، ٹیلی مواصلات اور تھوک اور خردہ تجارت شامل تھے۔ سیلاب کے بعد معاشی سرگرمیوں میں متوقع سست روی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کے باوجود نجی شعبے کے قرض کی طلب کی موجودہ رفتار برقرار رہنے کا امکان ہے۔ جولائی میں مہنگائی بڑھ کر 4.1 فیصد سال بسال تک پہنچ گئی، جو اگست میں کم ہوکر 3 فیصد رہ گئی۔ یہ نتائج بڑے پیمانے پر غذا اور توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ حالیہ سیلاب نے مہنگائی کے مستقبل قریب کے منظر نامے میں، بالخصوص غذائی مہنگائی کے سلسلے میں، غیر یقینی کو بڑھا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک سال میں بینکوں کے ڈپازٹس 3685 ارب روپے بڑھے گئے
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 200 پوائنٹس سے زائد اضافہ
  • شرح سود 11فیصد برقراررکھنے پر صنعت کاروں کا مایوسی کا اظہار
  • شرح سود کو 11فیصد پر برقرار رکھنا مانیٹری پالیسی کا غلط فیصلہ ہے‘ گوہر اعجاز
  • سیلاب مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ‘ سٹیٹ بنک : شرح سود 11فیصدبرقرار
  • سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک
  •  صنعتکاروں کی پالیسی ریٹ 11فیصد برقرار رکھنے پر کڑی تنقید
  • اسٹیٹ بینک کا شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • نئی مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود 11 فیصد کی سطح پر برقرار