اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود 11 فیصد پر برقرار
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
امپورٹ 53 ارب ڈالر سے بڑھ کر 59 ارب ڈالر رہی جو 11 فیصد زائد ہے، نان آئل امپورٹس میں 16 فیصد اضافہ ہوا اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے نان آئل امپورٹ میں اضافہ ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی ریٹ 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رہے گی، گزشتہ مالی سال اوسط افراط زر 4.
گورنر نے کہا کہ ترسیلات اور ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوا، ایکسپورٹ کا اضافہ 4 فیصد تک محدود رہا، خسارے پر قابو پانے کیلئے ایکسپورٹ میں اضافہ ضروری ہے، گزشتہ مالی سال ترسیلات میں 8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، ترسیلات اب قانونی اور باضابطہ طریقوں سے آ رہی ہے، ترسیلات بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ فاضل رہا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2022ء میں جاری کھاتے کا خسارہ 17.5 ارب ڈالر تھا اور 2023ء میں جی ڈی پی کا ایک فیصد 2024 میں نصف فیصد رہا، اس سال جاری کھاتہ 14 سال بعد سرپلس رہا، جو کہ 22 سال کا بلند ترین سرپلس رہا۔ گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے انٹر بینک مارکیٹ میں بھی سرگرمیاں کیں، جس سے شرح مبادلہ بہتر رہی، قرضوں کی ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک سال کے دوران 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، گزشتہ سال 26 ارب ڈالر کی بیرونی قرضوں میں سے 10 ارب ڈالر کی ری پے منٹس کی گئیں، امپورٹ اور زرمبادلہ کی تمام ضروریات کو بینکنگ سیکٹر نے پورا کیا۔
معاشی نمو
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ مالی سال معاشی نمو 2.7 فیصد رہی اور زرعی شعبے میں سست نمو سے معاشی ترقی کی رفتار کم رہی، البتہ صنعتی سرگرمیاں بہتر رہیں اور خدمات کے شعبے نے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ رواں مالی سال زرعی شعبے میں بہتری کی امید ہے جس سے معاشی نمو بھی بہتر رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال افراط زر کا ہدف وسط مدتی 5 سے 7 فیصد کی رینج میں رہے گا، افراط زر میں اضافہ کی توقع ہے اس کے باوجود وسط مدت ہدف حاصل کریں گے۔ کچھ مہینوں میں افراط زر 7 فیصد سے زائد رہے گی تاہم اوسط 5 سے 7 فیصد رہے گا، کور انفلیشن میں کمی آرہی ہے جو آگے جاکر بڑھے گا۔
گورنر نے کہا کہ گزشتہ مالی سال جاری کھاتا سرپلس رہا اور اس سال امپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے جاری کھاتے پر اثر پڑے گا، رواں مالی سال جاری کھاتے کو جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصد خسارے کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ ترسیلات، امپورٹ اور ایکسپورٹ کی کارکردگی پر منحصر ہے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کیا رہے گا۔ رواں مالی سال ترسیلات زر 40 ارب ڈالر سے زائد رہنے کی توقع ہے جبکہ معاشی ترقی کی شرح نمو رواں مالی سال 3.25 سے 4.25 فیصد کے درمیان رہے گی اور معاشی نمو میں زراعت کا حصہ 0.6 فیصد سے بڑھے گا۔
گورنر کا کہنا تھا کہ بڑی فصلوں کو بارشوں اور پانی کی دستیابی سے فائدہ ہوگا جبکہ زراعت کی کارکردگی گزشتہ سال سے بہتر لیکن 2024 سے کم رہے گی۔ صنعتی شعبے اور خدمات کی کارکردگی بھی بہتر رہنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کی شرح نمو کے لحاظ سے معاشی نمو کو بھی زیادہ اور تیز ہونا ضروری ہے، پائیدار معاشی نمو کے لیے ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ پائیدار معاشی نمو اور ایکسپورٹ سے بیرونی اکاؤنٹ پر ہر تین چار سال آنے والا دباؤ بھی کم ہوگا۔ گورنر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی نگرانی میں زرعی قرضوں کی فراہمی بنانے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے اور کمرشل اسپیشل بینکوں کے ساتھ مائکرو فنانس بینکوں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔ زراعت کے شعبے کی شرح نمو ڈھائی فیصد تک رہنے کی امید ہے
قرضوں کی ادائیگی
گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ رواں مالی سال 25.9 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کرنا ہوں گے جبکہ قرضوں کی ادائیگی گزشتہ مالی سال سے قدرے کم رہے گی، گزشتہ مالی سال بھی 26 ارب ڈالر کے قرضے سیٹل کیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور ہوں گے اور 10 ارب ڈالر ہمیں ادا کرنا ہوگا، 22 ارب ڈالر کے پرنسپل قرضے اور 4 ارب ڈالر کی سودی ادائیگیاں شامل ہیں۔ جون 2022 میں مجموعی پبلک قرضہ 100 ارب ڈالر تھا اور تین سال سے بیرونی قرضے اسی سطح پر برقرار ہیں، نئے قرضے لیتے ہیں لیکن پچھلے قرضے ادا کرتے ہیں۔
گورنر نے کہا کہ 2015 سے 2022 کے دوران 7 سال کے دوران سالانہ 6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا لیکن گزشتہ تین سال میں اضافہ نہیں ہوا، 2022 میں 43 فیصد قرضہ عالمی ترقیاتی اداروں سے طویل مدتی اور سستا قرضہ لیا، ملٹی لٹرل طویل مدتی سستے قرضوں کا تناسب 50 فیصد سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سودی ادائیگیاں کم ہو رہی ہیں، بین الاقوامی مارکیٹ میں شرح سود 2 فیصد سے بڑھ کر 4.25 فیصد تک آگیا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سودی ادائیگیاں کم ہوئی ہیں، نئے قرضوں پر کم سود ادا کر رہے ہیں جبکہ قرضوں کی مدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
گورنر نے کہا کہ بیرونی قرضوں کی پائیداری اور پاکستان کی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے اسی وجہ سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اَپ گریڈ کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو اس سال کے قرضوں سے زائد ہے۔ انہوں نے کہ اکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے تین بانڈز پریمیئم پر ٹریڈ ہو رہے ہیں اور عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی معیشت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ گلوبل مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز پریمیئم پر ٹریڈ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قرضہ لینے اور واجبات کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے، اس وقت صورتحال انٹرنیشنل مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرنے کے لیے سازگار ہے۔
گورنر نے کہا کہ حکومت پانڈہ بانڈ پر کام کر رہی ہے، اس سال کے دوران دو بانڈز ستمبر میں 500 ملین اور آئندہ سال اپریل میں 1.3 ارب ڈالر کے یورو بانڈز میچور ہو رہے ہیں، 1.8 ارب ڈالر کے یورو بانڈز کے ساتھ 10 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کریں گے۔ چھ ماہ قبل تک دنیا کے مرکزی بینکوں کا طرز عمل کچھ اور تھا، دنیا کے مرکزی بینکوں نے محتاط طرز عمل اختیار کیا ہے۔
ڈیجیٹل کرنسی اور کرنسی نوٹ
انہوں نے کہ اکہ اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی پر کام کر رہا ہے اور ایک آزمائشی پروجیکٹ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس پر کام جاری ہے، حکومت نے کرپٹو سے متعلق قانون بھی بنا دیا ہے اور اس حوالے سے کونسل بنائی جا رہی ہے۔ جس طرح بہت سارے ممالک کے اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی پر پائلٹ پروجیکٹ کر رہے ہیں ہم بھی اسی طرح کریں گے۔ گورنر نے کہا کہ نئے کرنسی نوٹوں کا ڈیزائن منتخب کر لیا جس کے لیے بین الاقوامی ڈیزائنر کی مدد حاصل کرلی ہیں، کابینہ کی منظوری کے بعد نئے ڈیزائن کے نوٹوں پر کام شروع کر دیں گے۔
ترسیلات اور زرمبادلہ کے ذخائر
گورنر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر دسمبر تک 15.5 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اس لیے زرمبادلہ کے لیے جون 2026 کا ہدف 17.5 ارب ڈالر رکھا ہے۔ یورو بانڈز جاری کیے تو ذخائر اس سطح سے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹر بینک اور ایکس چینج کمپنیوں کے ساتھ ملک میں غیر قانونی مارکیٹ بھی موجود ہے۔ اسٹیٹ بینک 2 قانونی مارکیٹس کو ریگولیٹ اور مانیٹر کرتا ہے۔ اوپن مارکیٹ اسٹیٹ بینک کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی اس کی سرگرمیوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔
جمیل احمد نے بتایا کہ انٹر بینک اور ایکسچینج کمپنیوں کو فعال طریقے سے دیکھتے ہیں ضرورت پڑنے پر فوری مداخلت کرتے ہیں، غیر قانونی مارکیٹ سے متعلق کوئی اطلاع ہوتی ہے تو سیکیورٹی اداروں کو دیتے ہیں۔ گولڈ کی اسمگلنگ کو حکومتی سطح پر کنٹرول کیا جائے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ترسیلات سے متعلق پالیسی اقدامات کیے جائیں گے اور حکومت ترسیلات کی معاون اسکیم کو جاری رکھے گی، قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: زرمبادلہ کے ذخائر گورنر اسٹیٹ بینک قرضوں کی ادائیگی مانیٹری پالیسی گورنر نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ نان آئل امپورٹ گزشتہ مالی سال رواں مالی سال اسٹیٹ بینک نے میں اضافہ ہو میں افراط زر ارب ڈالر سے نے بتایا کہ امپورٹ میں مارکیٹ میں اضافہ ہوا کے دوران کا اضافہ فیصد پر زائد ہے کریں گے فیصد سے کی توقع اس سال رہے گا رہا ہے رہی ہے رہے گی سے بڑھ سال کے
پڑھیں:
پاکستان رواں برس قرضوں کی مد میں کتنی رقم ادا کرے گا؟ گورنر اسٹیٹ بینک نے تفصیل بیان کردی
کراچی:گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران 25.9 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کرنا ہوں گے جو گزشتہ مالی سال سے قدرے کم رہے گی جبکہ گزشتہ مالی سال بھی 26 ارب ڈالر کے قرضے سیٹل کیے گئے۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پاکستان کے قرضوں کے حوالے سے بریفنگ کے دوران کہا کہ 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور ہوں گے اور 10 ارب ڈالر ہمیں ادا کرنے ہوں گے، 22 ارب ڈالر کے پرنسپل قرضے اور 4 ارب ڈالر کی سودی ادائیگیاں شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جون 2022 میں مجموعی سرکاری قرضہ 100 ارب ڈالر تھا اور تین سال سے بیرونی قرضے اسی سطح پر برقرار ہیں، نئے قرضے لیتے ہیں لیکن پچھلے قرضے ادا کرتے ہیں۔
گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ 2015 سے 2022 کے دوران 7 سال کے دوران سالانہ 6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا لیکن گزشتہ تین سال میں اضافہ نہیں ہوا، 2022 میں 43 فیصد قرضہ عالمی ترقیاتی اداروں سے طویل مدتی اور سستا قرضہ لیا، ملٹی لٹرل طویل مدتی سستے قرضوں کا تناسب 50 فیصد سے زائد ہے۔
انہوں نے کہا کہ سودی ادائیگیاں کم ہو رہی ہیں، بین الاقوامی مارکیٹ میں شرح سود 2 فیصد سے بڑھ کر 4.25 فیصد تک آگیا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سودی ادائیگیاں کم ہوئی ہیں، نئے قرضوں پر کم سود ادا کر رہے ہیں جبکہ قرضوں کی مدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
جمیل احمد نے کہا کہ بیرونی قرضوں کی پائیداری اور پاکستان کی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے اسی وجہ سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اَپ گریڈ کر دیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو اس سال کے قرضوں سے زائد ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے تین بانڈز پریمیئم پر ٹریڈ ہو رہے ہیں اور عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی معیشت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ گلوبل مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز پریمیئم پر ٹریڈ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قرضہ لینے اور واجبات کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے، اس وقت صورتحال انٹرنیشنل مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرنے کے لیے سازگار ہے۔
گورنر نے کہا کہ حکومت پانڈہ بانڈ پر کام کر رہی ہے، اس سال کے دوران دو بانڈز ستمبر میں 500 ملین اور آئندہ سال اپریل میں 1.3 ارب ڈالر کے یورو بانڈز میچور ہو رہے ہیں، 1.8 ارب ڈالر کے یورو بانڈز کے ساتھ 10 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کریں گے۔