خیبر پختونخوا میں حالیہ دہشتگردی کی لہر کے بعد عسکری آپریشن کا آغاز ہوا ہے مگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اس آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کی حکومت صوبے میں کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ’ایکشن ان ایڈ آف سول پاور‘ جیسے قوانین پر شدید تحفظات ہیں حالانکہ یہی قانون پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے سنہ 2019 میں خیبر پختونخوا میں نافذ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: باجوڑ میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن، علی امین گنڈاپور کی مخالفت، ڈی سیز سے کرفیو کا اختیار واپس

گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں صوبے کی سیکیورٹی صورت حال پر آل پارٹیز کانفرنس کے بعد علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت عسکری آپریشن کی اجازت نہیں دے گی۔ ساتھ ہی قبائلی علاقوں کی روایات کے مطابق جرگہ سسٹم کو اپنانے کی تجویز بھی دی گئی۔ مسلسل دہشتگردی کے واقعات اور شدت پسندوں کی مرکزی شاہراہوں پر نقل و حرکت نے صوبائی حکومت کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے بعد علی امین گنڈاپور نے ایک بار پھر ایکشن ان ایڈ آف سول پاور پر اپنے تحفظات کا اعادہ کیا۔

ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کیا ہے اور کب لاگو کیا گیا؟

ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ایک ایسا ریگولیشن یا آرڈیننس ہے جس کے تحت سول حکومت سیکیورٹی فورسز کو اپنے تعاون کے لیے طلب کرتی ہے اور انہیں خصوصی اختیارات دیتی ہے۔ یہ قانون پہلی مرتبہ سنہ 2011 میں سابقہ فاٹا اور پاٹا میں دہشتگردوں کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کے دوران نافذ کیا گیا تاہم اس کا اطلاق سنہ 2008 سے مؤثر سمجھا گیا۔

مزید پڑھیے: باجوڑ میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن، علی امین گنڈاپور کی مخالفت، ڈی سیز سے کرفیو کا اختیار واپس

اس قانون کے ذریعے وفاق اور صوبائی حکومتیں سیکیورٹی فورسز کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ بغیر کسی عدالتی اجازت کے مشتبہ افراد کو گرفتار، حراست میں رکھ سکیں، چھاپے مار سکیں اور حراستی مراکز قائم کر سکیں۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور تحویل میں لیے گئے افراد کو عدالت میں پیش کیے بغیر حراست میں رکھنا بھی اس قانون کا حصہ ہے۔

خیبر پختونخوا میں اس کا اطلاق کب اور کیسے ہوا؟

سال 2018 میں فاٹا اور پاٹا کو آئینی ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ سنہ 2019 میں پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت نے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کو پورے صوبے تک توسیع دے دی۔ اس وقت کے گورنر شاہ فرمان نے آرڈیننس جاری کر کے اس ریگولیشن کو صوبہ خیبر پختونخوا میں نافذ کیا جو اس سے قبل صرف قبائلی اضلاع تک محدود تھا۔

تاہم اس اقدام کو پشاور ہائیکورٹ میں وکیل شبیر حسین گگیانی نے چیلنج کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ نفاذ غیر قانونی ہے۔ ہائیکورٹ نے اس قانون کو غیر آئینی قرار دے دیا مگر پی ٹی آئی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ تاحال یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔

اس قانون کے تحت سیکیورٹی فورسز کو کیا اختیارات حاصل ہوتے ہیں؟

ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کے تحت سیکیورٹی فورسز کو وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں جس میں بغیر وارنٹ چھاپے مارنے کا اختیار، مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش کیے بغیر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت، حراستی مراکز کے قیام اور ان کی قانونی حیثیت، سویلین عدالتوں کو بائی پاس کرتے ہوئے براہِ راست کارروائی کا اختیار، تمام کارروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا شامل ہیں۔

علی امین گنڈاپور کے تحفظات کیا ہیں؟

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ انہیں اس قانون کے نفاذ اور سیکیورٹی فورسز کو دیے گئے غیر معمولی اختیارات پر شدید تحفظات ہیں۔ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں بھی اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے متعدد اراکین نے آپریشن کی مخالفت کی اور مذاکرات و جرگہ سسٹم اپنانے کی تجویز دی۔ ان کا مؤقف تھا کہ ممکنہ آپریشن سے قبائلی علاقوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

مزید یہ کہ بعض اراکین نے تجویز دی کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا اسٹے آرڈر ختم کرانے کے لیے دوبارہ قانونی چارہ جوئی کی جائے تاکہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کے اختیارات واپس لیے جا سکیں۔

مزید پڑھیں: علی امین گنڈاپور ضرورت کے مطابق تعاون کرتے ہیں، بیانات کی کوئی حیثیت نہیں، رانا ثنااللہ

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور پارٹی کے اندرونی دباؤ اور مقتدر حلقوں سے کشیدہ تعلقات کے باعث آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ ممکنہ فوجی کارروائی پارٹی کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

تاہم ذرائع کے مطابق اپیکس کمیٹی میں دی جانے والی بریفنگ کے بعد وزیر اعلیٰ کے کچھ تحفظات دور ہو چکے ہیں جس کے بعد وہ ممکنہ طور پر نرم مؤقف اختیار کر سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایکشن ان ایڈ آف سول پاور پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کو علی امین گنڈاپور کی مخالفت کا اختیار وزیر اعلی پی ٹی آئی کے مطابق کے لیے کے بعد

پڑھیں:

پاکستان اور کویت کے درمیان مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے دوسرا قرض پروگرام طے پا گیا

پاکستان اور کویت فنڈ فار اکنامک ڈیولپمنٹ (KFAED) کے درمیان مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے دوسرا قرض پروگرام طے پا گیا ہے، جس کے تحت پاکستان کو 2.5 کروڑ امریکی ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔
وزارت اقتصادی امور کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دستخط کی یہ تقریب وزارت میں منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کی جانب سے سیکریٹری اقتصادی امور محمد حمیر کریم نے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس موقع پر کویتی سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن فہد حشام، وزارت اقتصادی امور اور واپڈا کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ سیکریٹری اقتصادی امور نے کویتی حکومت اور KFAED کا پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں میں مسلسل تعاون پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ رعایتی قرض دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات اور پائیدار شراکت کی عکاسی کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، انہوں نے توانائی، پانی اور سماجی شعبوں میں کویت فنڈ کی مالی معاونت کو سراہا، جس سے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ مئی 2024 میں ہونے والے پاکستان-کویت مشترکہ وزارتی کمیشن کے پانچویں اجلاس کے دوران پاکستان نے کویت فنڈ سے مہمند ڈیم کے لیے کل 30 ملین کویتی دینار (تقریباً 10 کروڑ امریکی ڈالر) کی فنانسنگ کی درخواست کی تھی، جو چار مساوی قسطوں میں فراہم کی جائے گی۔
اعلامیے کے مطابق جون 2024 میں پہلے قرضے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اور اب دوسرے مرحلے کے لیے بھی دستخط کر دیے گئے ہیں۔
سیکریٹری اقتصادی امور محمد حمیر کریم نے کہا کہ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور دوسرے قرض کے ذریعے تعمیراتی کاموں میں مزید رفتار آئے گی۔ اس منصوبے کا مقصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانا، صاف توانائی پیدا کرنا، پشاور شہر کو پینے کے پانی کی فراہمی یقینی بنانا اور ملک میں سیلاب کے خطرات کو کم کرنا ہے۔
حمیر کریم نے تیسرے قرضے پر جلد دستخط کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کویت فنڈ سے دیگر ترجیحی ترقیاتی منصوبوں کے لیے اضافی مالی معاونت کی درخواست کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کویتی سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن فہد حشام نے دوطرفہ اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا اور پاکستان کے ترقیاتی اقدامات میں KFAED کی مسلسل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔

متعلقہ مضامین

  • ایکسکلیوسیو سٹوریز اکتوبر 2025
  • اسمارٹ میٹرز کی تنصیب کے کام کا آغاز کردیا گیا
  • مہمند ڈیم پاور منصوبہ: کویت 25 ملین ڈالر قرض دے گا
  • الفاشر کا المیہ
  • پاکستان اور کویت کے درمیان مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے دوسرا قرض پروگرام طے پا گیا
  • پختونخوا میں جو امن قائم کیا وہ ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے، سابق وزیراعلیٰ گنڈاپور
  • ملک بھر میں اسمارٹ میٹرنگ اصلاحات کا آغاز کردیا گیا
  • پی ایس بی انکواٸری کمیٹی نےتحقیقاتی رپورٹ دبا دی ،حکومتی قواٸد نظرانداز، اضافی سیلف ہائرنگ لینے والوں کیخلافے ایکشن نہ ہوسکا
  • یکم نومبر یوم آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر گلگت میں بڑے جلسے کا اعلان
  • خیبر پختونخوا کی نئی کابینہ میں پرانے چہرے، علی امین اور سہیل آفریدی میں سے درست کون؟