سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی نے صوبائی محتسب کے فیصلے کیخلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
مونس علوی— فائل فوٹو
سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی نے ہراسانی کا مرتکب قرار دینے کے صوبائی محتسب کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔
گزشتہ روز صوبائی محتسب نے مونس علوی کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا اور ان پر 25 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔
محتسب کا کہنا تھا کہ مونس علوی پر خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے مونس علوی نے جمعرات کو بطور سی ای او دوبارہ چارج سنبھالا تھا خاتون سے ہراسانی کا الزام ثابت ہونے پر سزا، مونس علوی نے ردعمل دے دیا کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی پر خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت، عہدے سے ہٹانے کا حکم اور جرمانہمحتسب اعلیٰ سندھ کے مطابق کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی پر خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہوتا ہے، وہ ایک ماہ میں جرمانے کی رقم ادا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کے سی ای او نے شکایت کنندہ کو ہراساں کیا اور ذہنی اذیت دی۔ مونس علوی جرمانے ادا نہ کریں تو منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ضبط کی جائے۔
بعدازاں مونس علوی نے اپنے مؤقف میں کہا تھا کہ انہوں نے پیشہ ورانہ تعلقات میں ہمیشہ دیانتداری اور وقار کی اقدار کو برقرار رکھا ہے، حالیہ فیصلہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کا الزام ثابت مونس علوی نے کے الیکٹرک کو ہراساں سی ای او
پڑھیں:
کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ گورنر ہائوس سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی کے درمیان اختیارات اور رسائی کے تنازع نے بالآخر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔
موجودہ گورنر کامران ٹیسوری نے سندھ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ چیلنج کر دیا ہے جس میں عدالت نے قائم مقام گورنر کو گورنر ہائوس کی مکمل رسائی دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے مطابق، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ اس مقدمے کی پیر 3 نومبر کو سماعت کرے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قائم مقام گورنر کو آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے گورنر ہاو ¿س کے تمام حصوں تک بلا تعطل رسائی ہونی چاہیے۔
تاہم گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات اور انتظامی دائرہ کار سے تجاوز کے مترادف ہے، لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
سیاسی و قانونی حلقوں کی نظر اب سپریم کورٹ کی سماعت پر مرکوز ہے، جو اس اختیاراتی تنازع کے مستقبل کا تعین کرے گی۔