Islam Times:
2025-08-02@13:51:36 GMT

غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک

اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT

غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی براداری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکی خاموشی فلسطینیوں کی چیخیں سن کر بھی نہیں ٹوٹی، یہ ناقابل معافی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مسئلے پر عالمی خاموشی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ فلسطینیوں کے درد پر دنیا کی خاموشی اخلاقی بحران کی آئینہ دار ہے۔ میں عالمی بے حسی کی وضاحت نہیں کرسکتا، انسانیت ختم ہوچکی ہے، عالمی برادری میں ہمدردی، صداقت اور انسانیت کا فقدان ہے۔" عالمی برادری سے گوتریس کا شکوہ اور حکمرانوں کو کوسنا بجا ہے، مگر اقوام متحدہ جیسے غیر موثر ادارے کی اب دنیا کو کیا ضرورت ہے، اس پر بھی انہیں روشنی ڈالنی چاہیئے تھی۔ تحریر: عادل فراز
adilfaraz2@gmail.

com

غزہ میں "محدود جنگ بندی" کا اعلان ہوا ہے، مگر یہ انسانی امداد کی ترسیل کے لئے ناکافی ہے۔ اسرائیل نے عالمی دبائو سے مجبور ہوکر محدود جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اب غزہ میں انسانی امداد پہنچنا شروع ہوگی۔ اسرائیل نے مستقل جنگ بندی کے بجائے غزہ کے تین مخصوص علاقوں میں روزانہ دس گھنٹے کے لئے حملے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ اسرائیل کے وعدے پر یقین نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس سے پہلے بھی وہ مسلسل جنگ بندی کی مخالفت کرتا رہا ہے۔اسرائیل انسانی امداد حاصل کرنے کے لئے ضرورت مندوں کی بھیڑ پر ہوائی حملے کرکے نسل کشی کر رہا ہے۔ خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے، تاکہ غزہ میں انسانی بحران کو جنم دے کر وہاں صہیونیوں کے لئے عیاشی کے مراکز قائم کئے جاسکیں۔ مختلف رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اب بھی "جنگ بندی" کے اصولوں کو پامال کر رہا ہے۔ عوام مسلسل بھوک سے مر رہے ہیں۔ خاص طور پر بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ زخمیوں کو علاج میسر نہیں ہے اور وہ مہلک امراض کا شکار ہیں۔ ایسے پرآشوب حالات میں "محدود جنگ بندی" سے زیادہ راحت کی امید نہیں ہے۔ عالمی دبائو میں ابھی مسلسل اضافہ ہونا چاہیئے، تاکہ جنگ بندی کا دائرہ مزید وسیع ہوسکے۔

اہل غزہ کا درد پوری دنیا نے محسوس کیا، سوائے عالمی حکمرانوں کے۔ خاص طور پر مسلم حکمران جو بے غیرتی اور بے حسی کی مجسم تصویر بن چکے ہیں۔ غزہ کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں داخلے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں۔ اہل غزہ کی استقامت اور حوصلے کو توڑنے کے لئے بھوک کو آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ "اونرا" کے ترجمان عدنان ابوحسنہ کے مطابق غزہ کی صورتحال قابو سے باہر ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہوچکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تمام بیانات غزہ کی بدترین صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں، اس کے باوجود عالمی رہنمائوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ امریکی صدر ٹرمپ جو ہر جنگ بندی کا کریڈٹ لینے میں پیش پیش رہتے ہیں، وہ بھی غزہ میں جنگ بندی نہیں کروا سکے۔

اسرائیل کی جنگ حماس کے ساتھ ہے، مگر حماس کو شکست دینے اور ان کی فوجی قیادت کو گھٹنوں پر لانے کے لئے اہل غزہ کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی دبائو تشکیل دینے میں مسلم حکمرانوں کا کوئی کردار نہیں رہا۔ انہوں نے اسرائیلی مظالم کی صرف زبانی مذمت کی ہے اور کسی بھی عملی اقدام سے باز رہے ہیں۔ اگر وہ متحد ہوکر دبائو بناتے تو اب تک غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کے لئے تمام راستے کھول دیئے جاتے، کیونکہ اسرائیل کو اپنے وجود کے لئے ان حکمرانوں کی حمایت کی بے حد ضرورت ہے۔ غزہ میں قحط اور بھک مری شباب پر ہے۔ انسانی حقوق کی سو سے زیادہ بین الاقوامی تنظیموں اور گروہوں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کا انتباہ دیا ہے۔ "اونرا" کے کمشنر جنرل فلپ لازراینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ "غزہ میں لوگ مردہ ہیں اور نہ زندہ بلکہ وہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ بھوک سے مرنے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے۔ ہماری ٹیم کو جو بچے ملے ہیں، وہ انتہائی لاغر، کمزور اور قریب المرگ ہیں۔ اگر ان کا فوری علاج نہ کیا گیا تو ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔

ان بیانات سے غزہ میں سنگین صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی صحت کی معروف تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ غزہ کی آبادی کا بڑا حصہ بھکمری کا شکار ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ اس صورت حال کو بڑے پیمانے پر قحط اور بھکمری کے اور کیا کہیں گے اور یہ صورت حال انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے فوڈایڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ میں ہر تیسرا شخص کئی دن تک بغیر غذا کے زندگی گزار رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نوے ہزار خواتین اور بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔" اس ناگفتہ بہ صورت حال کو پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ امریکہ کے ایوان کانگریس کے کئی اراکین نے غزہ میں انسانی بحران کے مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی صورت حال نہایت افسوس ناک، لرزہ خیز اور کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔

غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ جان لیوا بن چکی ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً سینکڑوں بے گناہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "غزہ کی محصور آبادی کا پچھتر فیصد حصہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ محاصرے کے باعث ہولناک بھوک کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نتن یاہو کی مجرمانہ پالیسیاں انسانی وقار اور عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہیں۔" امریکی ایوان کانگریس کے نمائندگان نے تو غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے والی امریکی حمایت یافتہ تنظیم "غزہ ہیومنیٹیر ین فائونڈیشن" کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ کیا ایسی جرأت کسی مسلم حکومت کے نمائندوں میں پائی جاتی ہے، جو اپنی حکومت کی بے حسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکیں۔؟ اسرائیل کے حلیف ممالک میں جابجا فلسطین کی آزادی اور غزہ میں جنگ بندی کے لئے احتجاج ہو رہے ہیں، مگر مسلم ملکوں کی عوام اب بھی مغرب سے کوئی سبق نہیں لے سکی۔

مسلم حکومتوں کے خلاف ان کے عوام میں غم و غصہ تو پایا جاتا ہے، مگر یہ غصہ کب لاوا میں تبدیل ہوگا، یہ نہیں کہا جاسکتا۔ ان کی زندگی عیش و نشاط میں گزر رہی ہے، اس لئے انہیں اپنی حکومتوں سے داخلی سطح پر زیادہ شکایتیں نہیں ہیں، مگر اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور امریکی غلامی نے انہیں بھی بدگمان کر دیا ہے۔ عربوں میں اپنے حکمرانوں کے خلاف غصہ تو موجود ہے، مگر ابھی تک ان میں بغاوت کا جذبہ نہیں ابھر سکا، جس کا انتظار پوری دنیا کو ہے۔ غزہ کی بدترین صورت حال پر دنیا کی مختلف حکومتیں فلسطین کی حمایت میں سامنے آرہی ہیں۔ یہ الگ بات کہ ابھی ان حکومتوں کے بیانات کو حتمی موقف تصور نہیں کیا جا سکتا۔فرانسسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اپنے بیان میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، حالانکہ ابھی اس بیان پر بہت اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ فرانس امریکہ کا حلیف ملک ہے۔ اس کے باوجود اس بیان کی اہمیت کو کم نہیں سمجھا جاسکتا۔ فرانس کی طرح دنیا کی متعدد حکومتیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی راہ میں پیش رفت کر رہی ہیں، جو اہل غزہ کی استقامت کی بنیاد پر ممکن ہو رہا ہے۔

فرانسسی صدر نے کہا ہے کہ "مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ اعلان رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کیا جائے گا۔" دیکھنا یہ ہے کہ تب تک فرانسسی صدر کے موقف میں کیا تبدیلی رونماء ہوگی اور امریکہ انہیں کس طرح اور کن شرائط پر اسرائیل کی حمایت میں لانے کے لئے جدوجہد کرے گا۔ میکرون نے یہ بھی کہا کہ آج کی سب سے فوری ترجیح غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور وہاں کی شہری آبادی کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔" البتہ انہوں نے حماس کو غیر مسلح کرکے غزہ میں قیام امن اور تعمیر نو کی تجویز دی ہے، جس کے آثار نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی براداری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی خاموشی فلسطینیوں کی چیخیں سن کر بھی نہیں ٹوٹی، یہ ناقابل معافی ہے۔

انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مسئلے پر عالمی خاموشی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ فلسطینیوں کے درد پر دنیا کی خاموشی اخلاقی بحران کی آئینہ دار ہے۔ میں عالمی بے حسی کی وضاحت نہیں کرسکتا، انسانیت ختم ہوچکی ہے، عالمی برادری میں ہمدردی، صداقت اور انسانیت کا فقدان ہے۔" عالمی برادری سے گوتریس کا شکوہ اور حکمرانوں کو کوسنا بجا ہے، مگر اقوام متحدہ جیسے غیر موثر ادارے کی اب دنیا کو کیا ضرورت ہے، اس پر بھی انہیں روشنی ڈالنی چاہیئے تھی۔ اگر اقوام متحدہ جنگ بندی اور انسانی امداد کی ترسیل میں ناکام ہے تو اس ادارے کو بند کر دینا چاہیئے۔ انسانی حقوق کی علم بردار تمام تنظیمیں اپنی حیثیت گنوا چکی ہیں۔ ان کے ہونے سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ تمام ادارے استعمار کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں، جس میں اقوام متحدہ سب سے اوپر ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انسانی امداد کی ترسیل کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی عالمی برادری اقوام متحدہ کہا کہ غزہ کی خاموشی ضرورت ہے انہوں نے صورت حال کی حمایت رہے ہیں کے خلاف دنیا کی اہل غزہ بھوک سے کیا جا ہے اور غزہ کے اور ان نے کہا کے لئے غزہ کی رہا ہے

پڑھیں:

جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جولائی 2025ء) عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً جرائم پر مجبور کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات اٹھائیں اور متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی یقینی بنائیں۔

آن لائن دھوکہ دہی سے منشیات کی سمگلنگ اور چوری تک ایسے بہت سے جرائم دانستہ ہی نہیں کیے جاتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو خود بھی بڑے مجرم گروہوں کی جانب سے دھوکے اور استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔

منظم جرائم میں ملوث گروہ تارکین وطن، بچوں اور نوجوانوں سمیت کمزور لوگوں کو دھوکے، دھمکیوں اور تشدد کے ذریعے جرائم کے ارتکاب پر مجبور کرتے ہیں۔ Tweet URL

ایسے متاثرین کو عموماً نوکری کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کیا جاتا ہے جنہیں درپیش حالات جدید غلامی کے مترادف ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

'آئی او ایم' نے اسے انسانی سمگلنگ کا ایسا خوفناک پہلو قرار دیا ہے جس پر کماحقہ توجہ نہیں دی جاتی۔

ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ انسانی حقوق کا بحران ہے۔ اس نے بہت بڑے عالمی کاروبار کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے، خوف پھیلتا ہے اور یہ انتہائی کمزور لوگوں کی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔

استحصال کا شکار لوگوں کو سزا دینے کے بجائیے تحفظ فراہم کرنا ہو گا اور ایسا کیے بغیر انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے پیش رفت ممکن نہیں ہو گی۔لامتناہی استحصال

لوگوں کو دھوکہ دہی سے جرائم پر مجبور کرنے کا مسئلہ تیزی سے وسعت اختیار کر رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا جیسے خطے ایسے جرائم کا گڑھ ہیں جہاں ہزاروں لوگوں کو دھوکہ دہی کے مراکز میں رکھا جاتا ہے۔

یہ لوگ تنہا رہتے ہیں، انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کا اپنی زندگی پر اختیار چھین لیا جاتا ہے۔

جرائم پیشہ گروہوں کے چنگل سے بچنے یا فرار ہونے کے باوجود ان میں بہت سے لوگوں کے نام کے ساتھ جرم کا دھبہ موجود رہتا ہے، انہیں سماجی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نظام ان کے ساتھ متاثرین کے بجائے مجرموں کا سا برتاؤ کرتا ہے۔

اس طرح استحصال کا خاتمہ ہونے کے بعد بھی ان کی لوگوں کی تکالیف ختم نہیں ہوتیں۔

انسانی سمگلنگ کی یہ قسم منظم جرائم کا ایک بڑا محرک بھی ہے جس سے اندازاً سالانہ 40 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ سمگلر ناصرف لوگوں کو جرائم پر مجبور کر کے منافع کماتے ہیں بلکہ متاثرین کو مجرم قرار دینے والا نظام انصاف بھی انہیں فائدہ پہنچاتا ہے۔ جب متاثرین کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے تو انہیں ضروری مدد مہیا نہیں کی جاتی جبکہ نظام کی ناکامی اور بے عملی بڑے مجرموں کو تحفظ دیتی ہے۔

مجرم نہیں، متاثرین

'آئی او ایم' نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ متاثرین کو سزا نہ دینے کے اصولوں کو برقرار رکھیں اور انہیں تحفظ، قانونی معاونت اور سماج میں کارآمد کردار ادا کرنے کی صلاحیت کے حصول میں مدد فراہم کریں۔ جرائم پر مجبور کیے جانے والے ان لوگوں کو مجرموں کے بجائے متاثرہ سمجھنا اخلاقی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ کے گروہوں کا قلع قمع کرنے کے ضمن میں تزویراتی ضرورت بھی ہے۔

انسانی سمگلنگ کے متاثرین میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہوتی ہے اور ان میں سے 78 فیصد کو جبری مشقت یا جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔ مسلح تنازعات، قدرتی آفات اور غربت کے باعث ایسے حالات جنم لیتے ہیں جن سے لاکھوں ایسے لوگوں کے لیے استحصال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو پہلے ہی مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔

'آئی او ایم' نے حکومتوں، بین الاقوامی شراکت داروں اور عام لوگوں پر اس مسئلے کے خلاف اجتماعی اقدامات کے لیے زور دیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی ضروری ہے۔ انہیں ایسے لوگ سمجھا جانا چاہیے جن کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور جن کے مستقبل کا دارومدار وقار اور انصاف کے لیے حکومتوں اور معاشروں کے عزم پر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں خونریزی کا نیا سلسلہ: ایک دن میں 111 شہید، بھوک سے مزید اموات
  • صیہونی دشمن کا پورا انحصار امریکہ پر ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • 9 مئی مقدمات کے فیصلوں کا خیر مقدم، آئندہ کوئی گھناؤنی سازش کی جرأت نہیں کر سکے گا: عطا تارڑ
  • غزہ میں بھوک کا راج ہے!
  • پاکستان انسانی سمگلنگ کے خاتمے کیلئے کوششیں کرتا رہے گا:  زرداری 
  • ’’بیٹیاں کسی سے کم نہیں‘‘ اورنج لائن کی پہلی خاتون ڈرائیور کی تعیناتی،  بچے میری ریڈ لائن، انسانی سمگلنگ کا خاتمہ عزم: مریم نواز
  •  بھوک سے بلکتے فلسطینی بچوں کی آہوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا، شیری رحمن  
  • خیبر پختونخوا کا دشمن سندھ اور پنجاب نہیں حکمران ہیں، حافظ نعیم الرحمان
  • جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ