غزہ میں دشمن کا آخری ہتھیار بھوک
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی براداری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکی خاموشی فلسطینیوں کی چیخیں سن کر بھی نہیں ٹوٹی، یہ ناقابل معافی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مسئلے پر عالمی خاموشی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ فلسطینیوں کے درد پر دنیا کی خاموشی اخلاقی بحران کی آئینہ دار ہے۔ میں عالمی بے حسی کی وضاحت نہیں کرسکتا، انسانیت ختم ہوچکی ہے، عالمی برادری میں ہمدردی، صداقت اور انسانیت کا فقدان ہے۔" عالمی برادری سے گوتریس کا شکوہ اور حکمرانوں کو کوسنا بجا ہے، مگر اقوام متحدہ جیسے غیر موثر ادارے کی اب دنیا کو کیا ضرورت ہے، اس پر بھی انہیں روشنی ڈالنی چاہیئے تھی۔ تحریر: عادل فراز
adilfaraz2@gmail.
غزہ میں "محدود جنگ بندی" کا اعلان ہوا ہے، مگر یہ انسانی امداد کی ترسیل کے لئے ناکافی ہے۔ اسرائیل نے عالمی دبائو سے مجبور ہوکر محدود جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اب غزہ میں انسانی امداد پہنچنا شروع ہوگی۔ اسرائیل نے مستقل جنگ بندی کے بجائے غزہ کے تین مخصوص علاقوں میں روزانہ دس گھنٹے کے لئے حملے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ اسرائیل کے وعدے پر یقین نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس سے پہلے بھی وہ مسلسل جنگ بندی کی مخالفت کرتا رہا ہے۔اسرائیل انسانی امداد حاصل کرنے کے لئے ضرورت مندوں کی بھیڑ پر ہوائی حملے کرکے نسل کشی کر رہا ہے۔ خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے، تاکہ غزہ میں انسانی بحران کو جنم دے کر وہاں صہیونیوں کے لئے عیاشی کے مراکز قائم کئے جاسکیں۔ مختلف رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اب بھی "جنگ بندی" کے اصولوں کو پامال کر رہا ہے۔ عوام مسلسل بھوک سے مر رہے ہیں۔ خاص طور پر بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ زخمیوں کو علاج میسر نہیں ہے اور وہ مہلک امراض کا شکار ہیں۔ ایسے پرآشوب حالات میں "محدود جنگ بندی" سے زیادہ راحت کی امید نہیں ہے۔ عالمی دبائو میں ابھی مسلسل اضافہ ہونا چاہیئے، تاکہ جنگ بندی کا دائرہ مزید وسیع ہوسکے۔
اہل غزہ کا درد پوری دنیا نے محسوس کیا، سوائے عالمی حکمرانوں کے۔ خاص طور پر مسلم حکمران جو بے غیرتی اور بے حسی کی مجسم تصویر بن چکے ہیں۔ غزہ کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں داخلے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں۔ اہل غزہ کی استقامت اور حوصلے کو توڑنے کے لئے بھوک کو آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ "اونرا" کے ترجمان عدنان ابوحسنہ کے مطابق غزہ کی صورتحال قابو سے باہر ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہوچکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تمام بیانات غزہ کی بدترین صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں، اس کے باوجود عالمی رہنمائوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ امریکی صدر ٹرمپ جو ہر جنگ بندی کا کریڈٹ لینے میں پیش پیش رہتے ہیں، وہ بھی غزہ میں جنگ بندی نہیں کروا سکے۔
اسرائیل کی جنگ حماس کے ساتھ ہے، مگر حماس کو شکست دینے اور ان کی فوجی قیادت کو گھٹنوں پر لانے کے لئے اہل غزہ کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ عالمی دبائو تشکیل دینے میں مسلم حکمرانوں کا کوئی کردار نہیں رہا۔ انہوں نے اسرائیلی مظالم کی صرف زبانی مذمت کی ہے اور کسی بھی عملی اقدام سے باز رہے ہیں۔ اگر وہ متحد ہوکر دبائو بناتے تو اب تک غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کے لئے تمام راستے کھول دیئے جاتے، کیونکہ اسرائیل کو اپنے وجود کے لئے ان حکمرانوں کی حمایت کی بے حد ضرورت ہے۔ غزہ میں قحط اور بھک مری شباب پر ہے۔ انسانی حقوق کی سو سے زیادہ بین الاقوامی تنظیموں اور گروہوں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کا انتباہ دیا ہے۔ "اونرا" کے کمشنر جنرل فلپ لازراینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ "غزہ میں لوگ مردہ ہیں اور نہ زندہ بلکہ وہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ بھوک سے مرنے والوں میں اکثریت بچوں کی ہے۔ ہماری ٹیم کو جو بچے ملے ہیں، وہ انتہائی لاغر، کمزور اور قریب المرگ ہیں۔ اگر ان کا فوری علاج نہ کیا گیا تو ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔
ان بیانات سے غزہ میں سنگین صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی صحت کی معروف تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ غزہ کی آبادی کا بڑا حصہ بھکمری کا شکار ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ اس صورت حال کو بڑے پیمانے پر قحط اور بھکمری کے اور کیا کہیں گے اور یہ صورت حال انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے فوڈایڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ میں ہر تیسرا شخص کئی دن تک بغیر غذا کے زندگی گزار رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نوے ہزار خواتین اور بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔" اس ناگفتہ بہ صورت حال کو پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ امریکہ کے ایوان کانگریس کے کئی اراکین نے غزہ میں انسانی بحران کے مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی صورت حال نہایت افسوس ناک، لرزہ خیز اور کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔
غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ جان لیوا بن چکی ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً سینکڑوں بے گناہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "غزہ کی محصور آبادی کا پچھتر فیصد حصہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ محاصرے کے باعث ہولناک بھوک کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نتن یاہو کی مجرمانہ پالیسیاں انسانی وقار اور عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہیں۔" امریکی ایوان کانگریس کے نمائندگان نے تو غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے والی امریکی حمایت یافتہ تنظیم "غزہ ہیومنیٹیر ین فائونڈیشن" کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ کیا ایسی جرأت کسی مسلم حکومت کے نمائندوں میں پائی جاتی ہے، جو اپنی حکومت کی بے حسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکیں۔؟ اسرائیل کے حلیف ممالک میں جابجا فلسطین کی آزادی اور غزہ میں جنگ بندی کے لئے احتجاج ہو رہے ہیں، مگر مسلم ملکوں کی عوام اب بھی مغرب سے کوئی سبق نہیں لے سکی۔
مسلم حکومتوں کے خلاف ان کے عوام میں غم و غصہ تو پایا جاتا ہے، مگر یہ غصہ کب لاوا میں تبدیل ہوگا، یہ نہیں کہا جاسکتا۔ ان کی زندگی عیش و نشاط میں گزر رہی ہے، اس لئے انہیں اپنی حکومتوں سے داخلی سطح پر زیادہ شکایتیں نہیں ہیں، مگر اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور امریکی غلامی نے انہیں بھی بدگمان کر دیا ہے۔ عربوں میں اپنے حکمرانوں کے خلاف غصہ تو موجود ہے، مگر ابھی تک ان میں بغاوت کا جذبہ نہیں ابھر سکا، جس کا انتظار پوری دنیا کو ہے۔ غزہ کی بدترین صورت حال پر دنیا کی مختلف حکومتیں فلسطین کی حمایت میں سامنے آرہی ہیں۔ یہ الگ بات کہ ابھی ان حکومتوں کے بیانات کو حتمی موقف تصور نہیں کیا جا سکتا۔فرانسسی صدر ایمانوئیل میکرون نے اپنے بیان میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، حالانکہ ابھی اس بیان پر بہت اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ فرانس امریکہ کا حلیف ملک ہے۔ اس کے باوجود اس بیان کی اہمیت کو کم نہیں سمجھا جاسکتا۔ فرانس کی طرح دنیا کی متعدد حکومتیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی راہ میں پیش رفت کر رہی ہیں، جو اہل غزہ کی استقامت کی بنیاد پر ممکن ہو رہا ہے۔
فرانسسی صدر نے کہا ہے کہ "مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ اعلان رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کیا جائے گا۔" دیکھنا یہ ہے کہ تب تک فرانسسی صدر کے موقف میں کیا تبدیلی رونماء ہوگی اور امریکہ انہیں کس طرح اور کن شرائط پر اسرائیل کی حمایت میں لانے کے لئے جدوجہد کرے گا۔ میکرون نے یہ بھی کہا کہ آج کی سب سے فوری ترجیح غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور وہاں کی شہری آبادی کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔" البتہ انہوں نے حماس کو غیر مسلح کرکے غزہ میں قیام امن اور تعمیر نو کی تجویز دی ہے، جس کے آثار نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی براداری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی خاموشی فلسطینیوں کی چیخیں سن کر بھی نہیں ٹوٹی، یہ ناقابل معافی ہے۔
انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مسئلے پر عالمی خاموشی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ فلسطینیوں کے درد پر دنیا کی خاموشی اخلاقی بحران کی آئینہ دار ہے۔ میں عالمی بے حسی کی وضاحت نہیں کرسکتا، انسانیت ختم ہوچکی ہے، عالمی برادری میں ہمدردی، صداقت اور انسانیت کا فقدان ہے۔" عالمی برادری سے گوتریس کا شکوہ اور حکمرانوں کو کوسنا بجا ہے، مگر اقوام متحدہ جیسے غیر موثر ادارے کی اب دنیا کو کیا ضرورت ہے، اس پر بھی انہیں روشنی ڈالنی چاہیئے تھی۔ اگر اقوام متحدہ جنگ بندی اور انسانی امداد کی ترسیل میں ناکام ہے تو اس ادارے کو بند کر دینا چاہیئے۔ انسانی حقوق کی علم بردار تمام تنظیمیں اپنی حیثیت گنوا چکی ہیں۔ ان کے ہونے سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ تمام ادارے استعمار کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں، جس میں اقوام متحدہ سب سے اوپر ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انسانی امداد کی ترسیل کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی عالمی برادری اقوام متحدہ کہا کہ غزہ کی خاموشی ضرورت ہے انہوں نے صورت حال کی حمایت رہے ہیں کے خلاف دنیا کی اہل غزہ بھوک سے کیا جا ہے اور غزہ کے اور ان نے کہا کے لئے غزہ کی رہا ہے
پڑھیں:
سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-5
میر بابر مشتاق
ہیڈ لائن کی ضرورت ہی کیا ہے جب شہر خود اپنی کہانی سنارہا ہو؟ یہ کہانی سڑکوں پر بہتے گٹر کے پانی کی ہے، پانی کے ٹینکر کے پیچھے بھاگتے عوام کی ہے، اور بارش کے بعد طوفانی نالے بن کر بہنے والی سڑکوں کی ہے۔ یہ کہانی اس انفرا اسٹرکچر کی ہے جو کاغذوں پر تو شاندار نظر آتا ہے، مگر زمین پر ’’زیرو‘‘ ہے۔ اور ان تمام مسائل پر ایک طاقتور حقیقت مسلط ہے: مافیا۔ ٹینکر مافیا، ڈمپر مافیا، اور اب اس کے ساتھ ایک نیا اضافہ ’ای چالان مافیا‘۔ کراچی، جو کبھی پاکستان کا معاشی دل سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسے شہر کی حیثیت سے جی رہا ہے جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ سڑکیں نہ صرف کچی ہیں، بلکہ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ کچی سڑکیں بھی شرم سے منہ چھپا لیتی ہیں۔ ہر موڑ پر گڑھے، ہر سڑک پر کھدائی، اور ہر بارش کے بعد یہ شہر ڈوبتا نہیں بلکہ شرم سے مر جاتا ہے۔ اسی خراب انفرا اسٹرکچر کے نتیجے میں رواں سال 700 سے زائد شہری ٹریفک حادثات کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اموات میں 205 کا تعلق بھاری گاڑیوں؛ ٹینکر، ٹرالر اور ڈمپر سے ہے، جو عوام کے لیے موت کا پروانہ بن کر دوڑ رہے ہیں۔ یہ وہ ’’اسٹرکچر‘‘ ہیں جو کبھی نہیں ڈوبتے، ان کا کام جاری ہے، اور ان کے مالکان کو کوئی جوابدہی نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شہریوں کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، تو پھر اس کی ناکامی کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں ’ای- چالان‘ کا المیہ شروع ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک طرف تو سڑکوں کی مرمت، پانی کی فراہمی اور سیکورٹی جیسی بنیادی ذمے داریوں کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے، دوسری طرف وہ ’’عالمی معیار‘ کے ای-چالان سسٹم کے ذریعے عوام کو ڈھادے جانے والے بھاری جرمانوں سے اپنے خزانے بھرنے میں مصروف ہے۔ یہ نظام درحقیقت لوٹ مار کا ایک منظم دھندا بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پنجاب میں اسی ای-چالان سسٹم کے تحت موٹر سائیکل سوار سے 200 روپے کا جرمانہ وصول کیا جاتا ہے، جبکہ کراچی میں ایک ہی قصور پر موٹر سائیکل سوار کو 5000 روپے کی خطیر رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں، یہ دس گنا سے بھی زیادہ کا فرق ہے۔ کیا کراچی کے شہری پنجاب کے شہریوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ امیر ہیں؟ یا پھر یہ سندھ حکومت کی طرف سے عوام پر معاشی تشدد ہے؟
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہی حکومت جو سڑکوں پر گڑھے چھوڑ کر، ٹریفک کے بہاؤ کو درست کرنے میں ناکام رہ کر اور عوامی ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہ کر کے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں شہریوں کو غیر محفوظ ٹریفک اسٹرٹیجی کا شکار بنا رہی ہے، اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی نااہلی کی پاداش میں عوام پر بھاری جرمانے عائد کرے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ڈاکو خود تو گھر لوٹے، اور مالک کو ہی قصوروار ٹھیرایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت عوام کو شعور دینے اور انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کے بجائے، صرف جرمانوں کے ذریعے خزانہ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ ایک آسان راستہ ہے۔ سڑکیں بنانے، ٹریفک انجینئرنگ درست کرنے، عوامی امن و امان قائم رکھنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے میں تو محنت اور خلوص نیت کی ضرورت ہے، جبکہ کیمرے لگا کر جرمانے کاٹ لینا بہت آسان کام ہے۔
ای-چالان سسٹم کا مقصد اصل میں عوام کو سزائیں دینا نہیں، بلکہ ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر بنانا اور حادثات کو کم کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن جب یہ نظام انصاف کے بجائے مالی فائدہ کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہوتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اس پورے معاملے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ای-چالان سسٹم کو ایک انصاف پر مبنی، شفاف اور عوام دوست نظام میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات فوری طور پر اٹھائے جانے چاہئیں:
1۔ جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے برابر ہونا: سندھ میں جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے ساتھ ہم آہنگ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ ایک عام موٹر سائیکل سوار کے لیے 5000 روپے کا جرمانہ نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ غیر معاشی بھی ہے۔
2۔ سڑکوں کی فوری مرمت: سڑکوں کو حادثات کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ گڑھوں کو پر کیا جائے، سڑکوں کی واضح مارکنگ کی جائے، اور خاص طور پر اسکولز، اسپتالوں اور مصروف چوراہوں کے اردگرد سیفٹی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
3۔ بھاری گاڑیوں پر کنٹرول: ٹینکر اور ڈمپرز کے لیے مخصوص اوقات مقرر کیے جائیں اور ان کی رفتار پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ ان گاڑیوں کے ڈرائیورز کو خصوصی تربیت دی جائے اور ان کی گاڑیوں کی فٹنس کا سالانہ معائنہ لازمی ہونا چاہیے۔
4۔ عوامی آگاہی مہم: محض جرمانے جاری کرنے کے بجائے، ٹریفک قوانین کے بارے میں عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ اسکولوں، کالجز اور میڈیا کے ذریعے شہریوں کو ٹریفک اصولوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ خود بخود قوانین کی پابندی کریں۔
5۔ شفافیت اور جوابدہی: ای-چالان کے ذریعے وصول کی گئی رقم کا شفاف حساب کتاب عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ رقم صرف سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کی جائے، نہ کہ عام بجٹ میں شامل کر کے ضائع کی جائے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ شہریوں کو سہولت نہ دی جائے اور ان پر بھاری بھرکم جرمانے مسلط کیے جائیں، یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کو ’’مجرم‘‘ بنا کر نہیں، بلکہ ان کی خدمت کر کے ہی ترقی ممکن ہے۔ جب تک سڑکیں کچے سے بدتر رہیں گی، تب تک چاہے جرمانے عالمی معیار کے ہی کیوں نہ ہو جائیں، شہر کی کہانی اندھیرے اور مایوسی ہی سناتی رہے گی۔ حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست کی مشروعیت عوام کی خدمت سے آتی ہے، نہ کہ ان پر جرمانے عائد کر کے۔ اگر سڑکیں ٹھیک نہیں، پانی نہیں، بجلی نہیں، اور امن نہیں، تو پھر ’’عالمی معیار کے جرمانے‘‘ صرف ایک مذاق ہیں۔