اقوام متحدہ میں اصلاحات کی تجاویز غور و خوض کے لیے رکن ممالک کے حوالے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ادارے کو مزید موثر اور مربوط بنانے اور اسے دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنی تجاویز کا مجموعہ رکن ممالک کو پیش کر دیا ہے۔
'ذمہ داریوں پر عملدرآمد کی جائزہ رپورٹ' کے عنوان سے سیکرٹری جنرل کی یہ تجاویز گزشتہ روز جاری کی گئیں جو وسیع تر 'یو این 80 اقدام' کا حصہ ہیں جس کا مقصد اقوام متحدہ کے کام کو جدت دینا ہے اور اس پر کئی سال سے کام ہو رہا ہے۔
اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے اداروں کے کام کا الگ الگ جائزہ لینے کے بجائے ان کے قیام کی پوری مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کی ذمہ داریاں کیسے تشکیل پائیں، ان پر عملدرآمد کیسے ہوا اور ہر مرحلے پر انہیں بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
سیکرٹری جنرل نے آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقائق کا سامنا کرنا ہو گا۔
دنیا کو بہتر بنانےکے لیے درکار ذرائع اور وسائل کی عدم موجودگی میں بہتر نتائج کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔اقوام متحدہ کے اداروں کی ذمہ داریاں دراصل اس کے ارکان کی جانب سے متعین کی جاتی ہیں اور وہی انہیں تخلیق کرنے، ان کا جائزہ لینے اور انہیں ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ادارے کا کام ان ذمہ داریوں پر مکمل، دیانت دارانہ اور موثر طور سے عملدرآمد کرنا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ رکن ممالک کی جانب سے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو بطریق احسن کیسے پورا کیا جا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کو تفویض کردہ ذمہ داریوں کی بدولت دنیا بھر میں لاکھوں زندگیوں میں بہتری آئی ہے۔ تاہم، کاموں کی تکرار، ان میں انتشار اور پرانے طریقہ ہائے کار کے باعث ادارے کے وسائل پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور ان لوگوں کو مدد پہنچانے کے لیے اس کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
گزشتہ 80 سال کے دوران جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور معاشی و سماجی کونسل کی درخواستوں یا ہدایات پر انجام دی جانے والی ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
آج اقوام متحدہ کے پاس 40 ہزار سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں جو 400 سے زیادہ بین الحکومتی اداروں کے ذریعے انجام دی جا رہی ہیں۔ ان کے لیے سالانہ 27 ہزار سے زیادہ اجلاس ہوتے ہیں اور روزانہ تقریباً 2,300 صفحات پر مشتمل دستاویزات جاری کی جاتی ہیں۔ ان اجلاسوں پر سالانہ 360 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔موثر جائزے کا فقداناقوام متحدہ 190 سے زیادہ ممالک اور علاقوں میں قیام امن سے لے کر امدادی کارروائیوں اور ترقیاتی اقدامات تک بہت سی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہے۔
تاہم ایسی بہت سے ذمہ داریاں پرانی ہو چکی ہیں اور ان کی پیچیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ 2020 سے اب تک جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے الفاظ کی اوسط تعداد میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ سلامتی کونسل کی قراردادیں 30 سال پہلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ طویل ہوتی ہیں۔مختلف کاموں کے مابین ارتباط کے فقدان سے دباؤ جنم لیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعدد اداروں کے تحت ایک جیسی ذمہ داریوں کے لیے علیحدہ پروگرام اور بجٹ ہیں جن سے کام کی تکرار پیدا ہوتی ہے اور اس کا اثر محدود ہو جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، 85 فیصد سے زیادہ ذمہ داریوں پر نظرثانی یا ان کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ بہت سی ذمہ داریوں کے موثر جائزے کا فقدان ہے اور سال بہ سال ان میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آتی۔انتونیو گوتیرش نے کہا کہ تکرار اور پیچیدگی سے نمٹںے کے لیے اس رپورٹ میں ذمہ داریوں کے ڈیجیٹل اندراج کے لیے کہا گیا ہے جس سے مختلف اداروں کے کاموں کا جائزہ لینا آسان ہو گا۔ اس میں مختصر اور واضح قراردادوں اور وسائل کی حقیقت پسندانہ طور سے فراہمی کی اہمیت کا بیان بھی ہے۔
علاوہ ازیں، اس میں اجلاسوں کے انعقاد اور رپورٹوں کی تیاری پر بڑھتے ہوئے اخراجات کی بات بھی کی گئی ہے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اجلاس اور رپورٹیں ضروری ہیں لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا محدود وسائل موثر ترین انداز میں استعمال ہو رہے ہیں یا نہیں۔ذمہ داری اور نتائجاس جائزے میں اجلاسوں اور رپورٹوں کی تعداد میں کمی لانے، ترتیب کو سادہ بنانے اور ان کے استعمال کی نگرانی سے متعلق تجاویز بھی دی گئی ہیں تاکہ ان کی افادیت یقینی بنائی جا سکے۔
سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے اداروں کے مابین مضبوط ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بھی کہا ہے تاکہ ذمہ داریوں کو واضح نتائج سے منسلک کیا جا سکے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ منتشر مالی وسائل ہم آہنگ نتائج کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 2023 میں اقوام متحدہ کے 80 فیصد مالی وسائل رضاکارانہ عطیات سے حاصل ہوئے جن میں سے 85 فیصد کا استعمال پہلے سے طے تھا۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ منتشر وسائل اور منصوبوں پر منتشر انداز میں عملدرآمد سے منتشر نتائج ہی حاصل ہوتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سبھی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اصلاحات کا تعلق طریقہ ہائے کار سے نہیں بلکہ نتائج سے ہے۔ ذمہ داریاں حقیقی زندگیوں اور حقیقی دنیا میں حقیقی نتائج کے حصول کا ذریعہ ہیں۔
انہوں نے اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے عملے کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ذمہ داریوں پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی بھی کام اقوام متحدہ کے مردوخواتین کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔
اس میں ان کی مہارتوں، لگن اور جرات کا اہم ترین کردار ہے۔ ذمہ داریوں پر عملدآمد میں بہتری لانے کے لیے ان لوگوں کو مدد دینا اور بااختیار بنانا ہو گا جو انہیں انجام دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں آئندہ اقدامات رکن ممالک نے اٹھانا ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ نے بہتری کے لیے اپنی تجاویز پیش کر دی ہیں جن پر عملدرآمد ارکان کی ذمہ ادری ہے۔ رپورٹ میں رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ تجاویز پر عملدرآمد کے لیے مخصوص وقت میں بین الحکومتی عمل شروع کریں تاکہ اقوام متحدہ کو مزید مستعد، ہم آہنگ اور موثر بنایا جا سکے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے ذمہ داریوں پر ذمہ داریاں رکن ممالک رپورٹ میں اداروں کے نے کہا کہ سے زیادہ گیا ہے اور ان ہے اور
پڑھیں:
پاکستان کی سلامتی کونسل کی صدارت کا اختتام ، سفیرعاصم افتخار احمد نے استقبالیہ تقریب منعقد کی
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 اگست2025ء) اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے سلامتی کونسل کی جولائی کے مہینے کیلئے پاکستان کی صدارت کی مدت کے اختتام پر ایک شاندار استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا۔تقریب میں اقوام متحدہ میں تعینات سفارتی مشنز کے سربراہان، اعلیٰ یو این حکام، ممتاز شہریوں اور سینئر صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پاکستان کے سابق مستقل مندوب منیر اکرم بھی تقریب میں شریک ہوئے۔سفیر عاصم افتخار احمد نے استقبالیہ میں شریک تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اورپاکستان کی سلامتی کونسل کی صدارت کے دوران ان کے بھرپور تعاون کو سراہا۔ انہوں نے خصوصی طور پر سابق سفیر منیر اکرم کی شرکت پر بھی ان کا شکریہ ادا کیا۔(جاری ہے)
سلامتی کونسل کی صدارت کے دوران پاکستان نے ایجنڈا آئٹمز کے علاوہ دو اہم تقاریب کا اہتمام بھی کیا جن میں ’’کثیرالجہتی تعاون اور تنازعات کے پرامن تصفیہ کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کا فروغ‘‘ کے موضوع پر اعلیٰ سطحی مباحثہ بھی شامل ہے ،اس اجلاس کے اختتام پر 15 رکنی کونسل نے پاکستان کی پیش کردہ قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا جس میں تمام رکن ممالک سے تنازعات کے پرامن تصفیہ سے متعلق کونسل کی قراردادوں پر مؤثر عملدرآمد کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا، دوسرا اہم اجلاس اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے مابین تعاون بڑھانے پر مرکوز تھا، جس کے بعد ایک صدارتی بیان بھی جاری کیا گیا۔
پاکستان نے ’’مشرق وسطیٰ کی صورت حال بشمول مسئلہ فلسطین‘‘کے موضوع پر سلامتی کونسل کے سہ ماہی مباحثے کی بھی صدارت کی۔ تمام اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی صدارت نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کی۔