خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں دہشتگردوں کے خلاف ممکنہ آپریشن کے لیے خار میں خیمہ بستی کی تیاریاں ایسے وقت میں شروع کردی گئی ہیں جب 50 رکنی قومی جرگے اور طالبان کے درمیان مذاکرات آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ جرگے نے طالبان کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ وہ یا تو ہتھیار ڈال دیں، افغانستان واپس چلے جائیں یا پھر ان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ہوگا۔

باجوڑ میں قومی جرگے اور طالبان نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا عمل گزشتہ تین روز سے جاری ہے۔ گزشتہ روز ایک نامعلوم مقام پر ہونے والی براہِ راست ملاقات میں طالبان کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اب علاقے میں دہشتگردی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا افغان عبوری حکومت کے ساتھ مسلسل مذاکرات کا فیصلہ

جرگے میں کن امور پر بات ہوئی؟

جماعت اسلامی کے رہنما، سابق ممبر قومی اسمبلی اور باجوڑ قومی جرگے کے رکن ہارون رشید نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت باجوڑ میں سیزفائر ہے اور کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔

انہوں نے بتایا کہ 50 رکنی قومی جرگے اور طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات ہوئے جو نہایت خوشگوار ماحول میں منعقد ہوئے۔ ان کے مطابق جرگے نے باجوڑ میں قیامِ امن کے لیے اپنے مطالبات طالبان کے سامنے رکھے ہیں، جن کے جواب کے لیے طالبان نے وقت مانگا ہے۔

’ہم امن کی بات کررہے ہیں، یہ مسئلہ 25 سال سے زیادہ پرانا ہے، شاید ایک دن میں حل نہ ہو، لیکن اس بار نتائج کی امید ہے۔‘

ہارون رشید نے کہاکہ طالبان کی جانب سے بھی مذاکرات کا مثبت جواب آیا ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ بات آپریشن تک نہیں جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت باجوڑ میں امن ہے، اور اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو آپریشن کی نوبت نہیں آئے گی۔

حکومتی مطالبات کیا ہیں؟

باجوڑ کے 50 رکنی قومی جرگے میں پی ٹی آئی کے منتخب اراکین، مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنما، علما اور بااثر مقامی افراد شامل ہیں۔

جرگے کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان نے اپنی شوریٰ سے منظوری کے لیے وقت مانگا تھا، جو جرگے نے دے دیا۔

انہوں نے بتایا کہ جرگہ ایک نامعلوم مقام پر ہوا جس میں طالبان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ رکن کے مطابق قومی جرگے نے طالبان کو بتا دیا کہ لوگ دہشتگردی اور امن و امان کی خراب صورت حال سے سخت پریشان ہیں۔ آپریشن کی صورت میں عام شہری متاثر ہوتے ہیں اور انہیں نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ جرگے نے طالبان کو صاف الفاظ میں بتا دیا کہ لوگ اب دہشتگردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ طالبان یا تو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں یا افغانستان واپس چلے جائیں۔ اگر وہ لڑائی کرنا چاہتے ہیں تو مقامی آبادی کو خالی کرکے پہاڑی علاقوں کا رخ کریں۔

انہوں نے بتایا کہ جرگے نے طالبان کے مطالبات بھی سنے ہیں، تاہم ان مطالبات کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔

کیا طالبان جرگے کے مطالبات مانیں گے؟

جب ہارون رشید سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان جرگے کے مطالبات مانیں گے، تو انہوں نے کہاکہ اس بار وہ کافی حد تک پُرامید ہیں کہ بات آپریشن تک نہیں جائے گی۔

’مذاکرات اچھے ماحول میں ہوئے ہیں اور رابطہ اب بھی جاری ہے، ہمیں امید ہے کہ مثبت نتائج نکلیں گے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں اور آپریشن کی ضرورت نہ پڑے۔ ابھی تک طالبان نے انکار نہیں کیا بلکہ وقت مانگا ہے، اور امید ہے کہ وہ مطالبات مانیں گے۔‘

’باجوڑ میں آپریشن کی تیاری‘

قبائلی ضلع باجوڑ میں اس وقت طالبان دہشتگردوں کے خلاف عسکری آپریشن کی مکمل تیاریاں کی جا چکی ہیں۔ رواں ہفتے 16 دیہات میں کرفیو نافذ کیا گیا تھا، تاہم مقامی لوگوں اور صوبائی حکومت کی درخواست پر جرگے کے ذریعے مذاکرات کے لیے وقت دیا گیا، جس کے بعد کرفیو میں نرمی کی گئی۔

ذرائع کے مطابق خار میں ممکنہ آپریشن کے پیش نظر خیمہ بستی قائم کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگرد مشترکہ دشمن ہیں، ان کا خاتمہ سب کی اولین ترجیح ہے، خیبرپختونخوا ایپکس کمیٹی

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اگر طالبان سے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو ان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کیا جائےگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آپریشن کی تیاریاں افغانستان باجوڑ آپریشن پاکستان طالبان سے مذاکرات ہتھیار ڈالیں وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا پریشن کی تیاریاں افغانستان باجوڑ آپریشن پاکستان طالبان سے مذاکرات وی نیوز جرگے نے طالبان مذاکرات کا قومی جرگے طالبان کے باجوڑ میں طالبان کو آپریشن کی بتایا کہ نے کہاکہ انہوں نے جرگے کے کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

فوجی آپریشن سے امن قائم نہیں ہوگا، فیصلہ ساز قوتیں ماضی سے سبق سیکھیں

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 30 جولائی2025ء)امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں اندھا دھند فوجی آپریشن سے امن قائم نہیں ہوگا، فیصلہ ساز ماضی کے آپریشنوں سے سبق سیکھیں۔پشاور میں امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہے کہ حکمران مرضی کی قانون سازی کرکے قبائلی علاقوں میں موجود معدنیات پر قبضہ کرنے کے لئے غیور قبائل کوتختہ مشق نہ بنائیں، آئین پاکستان میں واضح طور پر درج ہے کہ جو وسائل جہاں پیداہوتے ہیں اس پر پہلا حق اسی علاقے کے عوام کا ہے۔

امن جرگہ کا انعقاد صوبہ میں امن وامان کی مخدوش صورتحال اور مختلف اضلاع میں کرفیواور ملٹری آپریشن سے پیداشدہ صورتحال کے تناظر میں جماعت اسلامی کی جانب سے کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

امیر جماعت نے نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر محمد ابراہیم کو اختیار دیا کو صوبے میں قیام امن کے لئے دھرنے اور اسلام آباد کی جانب مارچ سمیت کسی بھی قسم کے احتجاج کے لیے دیگرسیاسی جماعتوں،قبائلی عمائدین اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں۔

امیرجماعت نے کہا جماعت اسلامی مجوزہ احتجاجی تحریک میں ہراول دستے کا کردار اداکرے گی۔ جرگہ میں سابق گورنرشوکت اللہ خان، پروفیسرمحمد ابراہیم خان،عنایت اللہ خان،عبدالواسع، ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر امین الرحمن یوسفزئی، صاحبزادہ ہارون الرشید،اخونزادہ چٹان،نثار باز،انورزیب، سرحد چیمبرآف کامرس کے صدرفضل مقیم،معروف صحافیوں محمود جان بابر،شمس مہمند،لحاظ علی،جماعت اسلامی کے ضلعی امیر بحراللہ خان ایڈوکیٹ،میاں صہیب الدین کاکاخیل،تاجر رہنماء ملک مہر الہی،تحصیل ناظم عزیز اللہ مروت،ناظم اسلامی جمعیت طلبہ اسفندیار عزت سمیت صوبہ بھر سے موجودہ اور سابقہ ممبران پارلیمنٹ اور قبائلی زعماء نے شرکت کی اور قیام امن کے لئے تجاویز پیش کیں۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جنرل پرویزمشرف نے ڈالروں کے عوض جس پالیسی کا آغاز کیا تھا پاکستان آج تک اس کے تباہ کن اثرات سے نہیں نکلا۔حکمران بائیسویں آپریشن سے قبل اس بات کا تجزیہ کریں کہ اس سے قبل ہونے والے اکیس ملٹری آپریشنوں کے نتیجے میں ملک اور قوم کا کتنا فائدہ ہوا ہے۔ سول اورملٹری قیادت کو اس کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ گزشتہ دوعشروں کے دوران ہونے والے آپریشنوں نے ملک اور قوم کو کتنا امن دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مختلف قومیتوں کی اکائی ہے جو بحیثیت قوم قطعاً ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ پشتون، پنجابی، سندھی اور بلوچی کو آپس میں لڑانے والے مفاد پرست حکمران ہیں جواپنے مفادات کے لئے سینیٹ الیکشن میں شیروشکرہوجاتے ہیں اور جب ان سے قیام امن کا مطالبہ کیا جائے تو یہی حکمران اور سیاسی جماعتیں بے اختیار ہونے کا رونا رونے لگ جاتے ہیں۔

امیر جماعت نے کہا کہ کوئی اس ملک میں عقل کُل نہیں ہے مسئلے سے نکلنا ہے تو مشاورت اور سب کو ساتھ لے کر ہی نکلا جاسکتا ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ہمسایہ ملک ہے، اس کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں گے تو پاکستان میں امن قائم ہوگا۔افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات میں بہتری خوش آئند ہے، پرامن افعانستان دونوں ممالک کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض قوتیں بھارت کے ساتھ آلو پیاز کی تجارت کے لئے بے چین نظرآتی ہیں لیکن یہی جذبہ کشمیر کی آزادی میں نظر نہیں آتا۔کشمیر کا مسئلہ جب تک موجود ہے بھارت سے کسی قسم کی تجارت قبول نہیں، حق خودارادیت کے علاوہ کشمیر پر ثالثی بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی گھروں کو خالی کراکے ملٹری آپریشنوں کی مخالف ہے اس لئے کہ ایسے آپریشنوں میں بے گناہ بچے خواتین، بزرگ اور فورسزکے جوان بھی شہید ہوتے ہیں جو اس ملک کے شہری ہیں۔

انہوں نے کہا آئین پاکستان کے حدود میں رہ کرپرامن احتجاج ہرپاکستانی شہری کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ حقوق بلوچستان کے لیے لانگ مارچ کرنے والے اپنے آئینی حق کے لیے میدان میں ہیں، جماعت اسلامی ان کی پشت بان ہے۔ انہوں نے کہا ملک کے نوجوان جذباتی نعروں کے بجائے مثبت اور تعمیری احتجاج پر فوکس کریں۔

متعلقہ مضامین

  • خیبرپختونخواہ کے وسائل نہ کسی نے مانگے، نہ کسی کو دئیے اور نہ کسی کو دیے جائیں گے
  • حماس نے ہتھیار ڈالنے کو فلسطین کی آزادی سے مشروط کردیا
  • جو بھی ہوگا، دیکھا جائے گا، ہم پاکستان ضرور جائیں گے!
  • باجوڑ امن جرگے کے مذاکرات کا پہلا راؤنڈ ختم، کل دوبارہ جرگہ ہوگا
  • بنوں، پولیس اور سی ٹی ڈی کے آپریشن میں 6 دہشتگرد ہلاک
  • بنوں: پولیس اور سی ٹی ڈی کے آپریشن میں 6 دہشتگرد ہلاک
  • ملک بھر کے تمام یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کردیا گیا
  • فوجی آپریشن سے امن قائم نہیں ہوگا، فیصلہ ساز قوتیں ماضی سے سبق سیکھیں
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا  نے باجوڑ میں باقاعدہ آپریشن کی تردید کر دی