عائشہ ثنا کی گمشدگی، حقیقت سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
لاہور:پی ٹی وی کے مارننگ شو کی میزبانی کے باعث شہرت پانے والی ادا کارہ عائشہ ثنا ایک وقت میں خوبصورتی، وقار اور دلکش انداز کی پہچان سمجھی جاتی تھیں۔
انہوں نے کئی ٹی وی شوز اور لائیو ایونٹس کی میزبانی کی اور لوگ ان کی پیشکش کے انداز کو بے حد پسند کرتے تھے۔
کچھ سالوں پہلے عائشہ ثنا کا ایک ویڈیو منظرِ عام پر آیا جس میں وہ ”برائٹ کریں اسے“ کہتے ہوئے کیمرہ ٹیم پر چیخ رہی تھیں۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور یہ جملہ ان کی پہچان بن گیا۔ لوگ انہیں دیکھتے ہی یہی جملہ دہراتے تھے اس جملے کا انکی نجی زندگی پر شدید اثر پڑاتھا۔
حال ہی میں اداکارائیں حمیرا اصغر اور عائشہ خان کی المناک اموات کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین عائشہ ثنا کی گمشدگی پر بھی شبہ ظاہر کرنے لگےکہ وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔ تاہم اب اس سلسلے میں ایک اہم انکشاف سامنے آیا ہے۔
عائشہ ثنا کے قریبی دوست ڈاکٹر عمر عادل نے انکشاف کیا ہے کہ وہ زندہ ہیں، لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔
ان کے مطابق 2020 کے آس پاس عائشہ نے ایک سرمایہ کاری کی جس میں انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ وہ ایک بڑی رقم کی مقروض ہو گئیں اور قرض اتارنے کے لیے اپنے دوستوں سے پیسے لینا شروع کیے جن میں عمر عادل بذات خود اور مسرت مصباح شامل ہیں۔
تاہم کچھ وقت بعد عائشہ ثنا اچانک لاپتہ ہو گئیں اور اپنے دوستوں کی رقم تاحال واپس نہیں کی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ مجموعی طور پر تقریباً 4 کروڑ روپے کی مقروض ہیں۔
ڈاکٹر عمر کا کہنا ہے کہ عائشہ کے دو بیٹے ہیں جو ان کے ساتھ ہیں۔ ان کی زندگی کو خطرات لاحق تھے، اسی لیے انہوں نے کبھی ان کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عائشہ ایک مضبوط مالی بیک گراونڈ رکھتی ہیں لیکن ان کے گھر والوں نے بھی اس مشکل وقت میں ان کی مدد نہیں کی۔عائشہ اکثر عمر عادل سے کہتی تھیں کہ کہ ان کی ایسے شخص سے شادی کروا دی جائے جو ان کا قرض ادا کر سکے۔
عائشہ ثنا اپنے مارننگ شو کے لیے پی ٹی وی سے ماہانہ 30 لاکھ روپے تنخواہ وصول کرتی تھیں، جبکہ پرائیویٹ اور کارپوریٹ ایونٹس سے بھی اچھی خاصی آمدنی حاصل کرتی تھیں۔ جب وہ لاپتہ ہوئیں، اس مہینے انہوں نے تقریباً 25 لاکھ روپے کمائے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ مالی بحران اور قرضوں کی دلدل میں پھنس چکی تھیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
چارلی کرک کو قتل کرنے کا دعویٰ کرنے والا بیان سے مکر گیا، حقیقت بیان کردی
یوٹا کاؤنٹی شیرف آفس کے مطابق ایک شخص، جارج زن، نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ چارلی کرک کو اس نے گولی ماری تاکہ اصل حملہ آور فرار ہو سکے۔
جارج زن اب انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے (Obstruction of Justice) کے الزام کا سامنا کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی قدامت پسند کارکن چارلی کرک کو 10 ستمبر کو یوٹا ویلی یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کے دوران گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اصل مشتبہ قاتل ٹائلر رابنسن کو گزشتہ جمعے گرفتار کر لیا گیا، جب اس کے والد نے نگرانی کی فوٹیج میں اپنے بیٹے کو پہچان کر اسے حکام کے حوالے کرنے پر آمادہ کیا۔
شیرف آفس کے بیان میں کہا گیا کہ فائرنگ کے فوراً بعد زن چلانے لگا کہ ’میں نے کرک کو گولی ماری ہے‘۔ پولیس نے اسے حراست میں لیا لیکن بعد میں طبی مسئلے کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس نے اعتراف کیا کہ اس نے جان بوجھ کر غلط دعویٰ کیا تھا تاکہ تفتیش متاثر ہو۔
بیان میں مزید کہا گیا ’فی الحال کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جارج زن کا اصل شوٹر کے ساتھ کوئی تعلق تھا۔‘
اس دوران رابنسن پر سخت گیر قتل (Aggravated Murder) کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یوٹا کے گورنر اسپنسر کاکس نے کہا ہے کہ ریاست اس کے خلاف سزائے موت کا مطالبہ کرے گی۔
یوٹا کاؤنٹی اٹارنی جیف گرے کے مطابق ملزم کی والدہ نے بتایا کہ رابنسن گزشتہ برس سے زیادہ سیاسی طور پر سرگرم ہوا اور اس کے نظریات ’ترقی پسندی‘ کی طرف چلے گئے، خصوصاً ہم جنس پرسوں کے حقوق کی حمایت میں۔
گرے نے مزید کہا کہ رابنسن اپنے روم میٹ کے ساتھ رومانوی تعلق میں ہے جو جنس کی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔
31 سالہ چارلی کرک نے قدامت پسند تنظیم ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے کی بنیاد رکھی تھی اور وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پرجوش حامی تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں