Juraat:
2025-09-18@17:17:17 GMT

الیکشن کمیشن کی جلد بازی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

الیکشن کمیشن کی جلد بازی

اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اس ہفتے کے آغاز میں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ چار قانون سازوں کو، جن میں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی شامل تھے، فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نو مئی 2023 کو جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما عمر ایوب، سینیٹر شبلی فراز اور زرتاج گل سمیت 108 ملزمان کو جمعرات کو قید کی سزا سنا دی ہے۔تاہم ان مقدمات میں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی اور خیال کاسترو سمیت 77 افرادد کو بری کر دیا گیا۔2سال قبل فیصل آباد میں بھی دیگر بڑے شہروں کی طرح ملک گیر احتجاج کے دوران حساس ادارے کے دفتر اور پولیس پر حملوں کے چار مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان میں تحریک انصاف کے رہنماؤں سمیت 186کارکنوں کو نامزد کیا گیا تھا۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے احتجاج میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھراؤ کے مقدمات کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے عمر ایوب، زرتاج گل، سینیٹر شبلی فراز اور صاحبزادہ حامد رضا کو 10,10 سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔سزا پانے والے دوسرے رہنماؤں میں رائے حسن نواز، کنول شوذب، اویس اکبر، طاہر جاوید، صابر علی، محمد محسن، علی رضا، مبشر علی، نعمان جمیل، سمیع اللہ، محمد شفیق اور شہزاد الیاس ساجد شامل ہیں۔رکن پنجاب اسمبلی جنید افضل ساہی کو 3 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے،ان فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ جو فیصلے آ رہے ہیں اس سے ملک و قوم کا سخت ترین نقصان ہو رہا ہے۔انھوں نے تمام مقدمات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’اس سے جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔بیرسٹر گوہر نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کے فیصلوں کے ذریعہ پی ٹی آئی کو پارلیمان سے نکالا جا رہا ہے، جن کو سزائیں دی گئیں وہ سیاسی تشدد پر یقین نہیں رکھتے، انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں البتہ اب بھی وقت ہے کہ نظام کو بچایا جائے۔انہوں نے شکوہ کیا کہ عدلیہ کو امید کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن وہاں سے عوام مایوس ہو چکے ہیں،ان فیصلوں کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور یہ فیصلے کس حد تک درست یا غلط ہیں اس کا اندازہ تو ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کئے جانے کے بعد ہی ہوسکے گا لیکن ان فیصلوں کے پس پشت مبینہ سیاسی مقاصد کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ عدالت کی جانب سے سزاؤں کے اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن  پاکستان (ای سی پی) نے سزاپانے والوں کی جانب سے سزاؤں کے خلاف اپیل کا بھی انتظار کئے بغیر ان سب کو نااہل قرار دے کر ان کی نشستیں خالی قراردے دیں۔

یہ فیصلہ 9 مئی کے مقدمات میں حالیہ سزاؤں کی بنیاد پر کیا گیا گزشتہ روز فیصل آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ای سی پی کے ہاتھ میں مزید مواد دے دیا جب اس نے کئی دیگر قانون سازوں، بشمول قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائدینِ حزب اختلاف، کو سزا سنا دی۔ آئین کے آرٹیکل 63(1)(h) کے تحت، اگر کسی قانون ساز کو 2 سال سے زیادہ قید کی سزا دی جائے تو اسے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ ای سی پی نے انہی تکنیکی بنیادوں پر گزشتہ قانون سازوں کو نااہل قرار دیا۔ فیصل آباد کی انسدادِ دہشتگردی عدالت کی جانب سے سنائے گئے فیصلے متوقع تھے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سب کے لیے قابلِ قبول بھی ہیں۔ اس بار عدالت نے سینئر پی ٹی آئی رہنماؤں جن میں عمر ایوب، شبلی فراز، حامد رضا اور زرتاج گل شامل ہیں – کے ساتھ ساتھ 100 سے زائد کارکنان کو سزا سنائی ہے، جن میں سے کئی کو 10 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنا مقدمہ بلا شک و شبہ ثابت کیا ہے، تاہم اس عمل کے تناسب کے حوالے سے کئی سوالات گردش کر رہے ہیں۔جیسا کہ ہم نے 9 مئی کے ٹرائلز سے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے جن کاجواب ابھی تک کسی بھی جانب سے دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا”؛ فوجی تنصیبات اور ریاستی عمارات پر حملے کسی بھی جمہوری معیار کے مطابق ناقابلِ قبول تھے اور ان پر سخت قانونی ردِعمل ضروری تھا۔ لیکن احتساب کو قانونی ضوابط اور عدالتی خودمختاری کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

حالیہ فیصلے، پچھلے فیصلوں کی طرح، سنگین سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کچھ اپوزیشن رہنماؤں کو کیوں سزا دی گئی جبکہ اسی نوعیت کے مقدمات میں دیگر کو بری کر دیا گیا؟ کیا شواہد کے تجزیے اور ٹرائل کے طریقہ کار میں یکسانیت تھی؟ ایک جمہوریت میں، خاص طور پر پاکستان جیسے سیاسی پس منظر رکھنے والے ملک میں، یہ سوالات انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ انصاف کی ساکھ صرف فیصلوں پر نہیں بلکہ ان فیصلوں کے عمل پر بھی منحصر ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں اور 5 اگست کی مجوزہ سیاسی مہم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہیں۔ اگرچہ پارٹی کی بعض باتیں سیاسی رنگ لیے ہوئے ہیں، لیکن یہ تاثر کہ احتساب کو چن کر لاگو کیا جا رہا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہے۔ اس تاثر کو اس بات نے مزید تقویت دی ہے کہ عام شہریوں کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کا اطلاق کیا گیا، جس پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے شدید قانونی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عدالتیں اور قانونی ادارے سیاسی نتائج مسلط کرنے کے ہتھیار نہیں بننے چاہئیں۔ انصاف کو غیر جانب دار اور متناسب نظر آنا چاہیے۔ اگر ٹرائلز عجلت یا غیر مستقل انداز میں کیے جائیں، یا بعض رہنماؤں کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا جائے، تو یہ عوام کے ان اداروں  پر اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے جو سب شہریوں کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں۔اسی کے ساتھ، پی ٹی آئی کو بھی اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا۔ یہ جماعت اب بھی محاذ آرائی اور جلسوں پر انحصار کر رہی ہے، جبکہ اسے پائیدار سیاسی شمولیت کی جانب بڑھنا چاہئے تھا لیکن ایسا اسی وقت ہوسکتاتھا جب حکومت وقت انھیں ایسا کرنے کا موقع دیتی،حکمرانوں نے ان پر زمین اس طرح تنگ کردی ہے کہ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہاکہ  ان کا بیانیہ محاذ آرائی پر مبنی ہو،  مظاہرے دھرنے اور احتجاج  حکومت وقت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اورجمہوری خلا کو دوبارہ بحال کرنے میں بہت مدد دیتے۔ لیکن احتجاج کے دوران جم غفیر میں شامل بعض نادان نوجوانوں کی نادانی کی بنیاد پر ہونے والے کسی ناخوشگوار واقعے کو بنیاد بنا کر ایک سیاسی جماعت کے اہم رہنماؤں کو ایسی سخت سزاؤں کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا یہ سزائیں بلاشبہ سیاسی انتقام کے مترادف نظر آتی ہیں۔ تاہم ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ لیکن کسی بھی بہتری کے لیے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو بالغ نظری، تحمل اور صفر جمع-سیاست (zero-sum politics) سے گریز کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک قومی ادارہ جاتی مکالمہ جیسے اقدامات، جو قانون کی حکمرانی، عدالتی خودمختاری اور سول-ملٹری توازن جیسے بنیادی امور پر کلیدی فریقین کو اکٹھا کریں، سنجیدگی سے زیرِ غور لائے جانے چاہئیں۔احتساب اہم ہے۔ لیکن انصاف، شفافیت اور یکسانیت بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ اگر پاکستان نے سیاسی عدم استحکام کے دائروں سے نکلنا ہے تو اسے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ انصاف صرف ہوتا ہوا نظر نہ آئے، بلکہ واقعی ہو بھی۔۔ اخلاقی طور پر، تاہم، یہ ایک بالکل مختلف مسئلہ ہے۔اکثر لوگوں کے ذہن میں اس بات پر کوئی شک نہیں کہ انسدادِ دہشتگردی عدالتوں کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو سنائی جانے والی سزائیں حد سے زیادہ اور غیرمنصفانہ ہیں۔ ان مقدمات میں پیش کیے گئے شواہد کے معیار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں، اور اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملزمان کو مناسب قانونی عمل سے محروم رکھا گیا۔ ان مقدمات میں ملزمان کے وکلا کا پختہ یقین ہے کہ اگر ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جائے تو یہ سزائیں برقرار نہیں رہیں گی۔ ان حالات میں، ای سی پی کو چاہیے تھا کہ وہ احتیاط سے کام لیتا۔ اسے چاہیے تھا کہ متاثرہ قانون سازوں کو اپیل کرنے کا وقت دیتا۔ حیرت کی بات ہے کہ جب کوئی خاص نتیجہ مطلوب ہو تو تکنیکی نکات فوراً لاگو ہو جاتے ہیں، مگر عام حالات میں یہی قوانین اور ضوابط بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ یہی ہماری جمہوریت کی کہانی رہی ہے، کئی سال بلکہ دہائیوں سے۔ بالآخر، دیگر عوامل غالب آ جاتے ہیں، اور ایسی سزاؤں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ یہ ہر سیاسی دور کا مستقل حصہ رہا ہے۔ پھر بھی، یہ دہرانا ضروری ہے کہ ای سی پی کی بنیادی ذمہ داری عوامی مینڈیٹ کا تحفظ ہے۔ اس ذمہ داری کے حوالے سے اس کی کئی ناکامیاں جیسا کہ پچھلے عام انتخابات کی ناقص کارکردگی اور اس کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات سے نمٹنے میں نااہلی اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنے نقصانات کو کم سے کم کرے۔ عوامی مینڈیٹ کوئی معمولی چیز نہیں جس کے ساتھ کھیل کھیلا جائے؛ افسوس، ای سی پی بار بار اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔
اس طرح کے فیصلوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی حکمت عملی کی بجائے طاقت کے انداز میں ہی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے،اور فریق مخالف کو منظر سے غائب کرکے ہی چین سے حکومت کی جانی چاہئے۔جب ان کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ ملا کر،بات چیت اور انھیں ساتھ جوڑ کر ان کو مسائل کے حل میں شریک کرنا ہوگا تو وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے کیونکہ وہ طاقت کو ہی اپنی بڑی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ قومی مسائل زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔اس حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کا نظام پر اعتماد کمزور ہورہا ہے، حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے مگر اس کے باوجو د ہمارے حکمراں نظام کی غلطیاں درست کرنے کے لیے تیار نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہماری ریاست سیاست اور جمہوریت سمیت سیاسی حکمت عملیوں کی اہمیت سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اس غیر سیاسی سوچ کی وجہ سے سیاسی و جمہوری  اسپیس بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔جب حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے بن جاتے ہیں جو اپنے مخالفین کے لیے بھی ریاست کے نظام کے اندر اندھی طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی کلچر پرتشدد اور انتہا پسند رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے اور سب کو لگتا ہے ہمیں بھی ہر سطح پر طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہی کی مدد سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: تحریک انصاف مقدمات میں رہنماؤں کو کی جانب سے قید کی سزا ان فیصلوں فیصل آباد کرنا ہوگا کے مقدمات فیصلوں کے پی ٹی آئی کی بنیاد عدالت نے جاتے ہیں کے ساتھ نہیں کہ کیا گیا کیا جا کے لیے رہا ہے رہی ہے اس بات ہیں اس ہیں کہ

پڑھیں:

سیلاب ،بارش اور سیاست

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل

کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • ایک منظم سازش کے تحت ووٹر لسٹ سے بڑے پیمانے پر نام حذف کئے جارہے ہیں، راہل گاندھی
  • الیکشن کمیشن انتخابی عمل کو تباہ کرنے میں پیش پیش ہے، پرینکا گاندھی
  • 772 روز سے جھوٹے مقدمات میں قید ہوں،بانی پی ٹی آئی کاچیف جسٹس کوخط
  • سندھ میں ضمنی بلدیاتی انتخابات24ستمبر کو ہوں گے
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • بہار کے بعد اب دہلی میں بھی ایس آئی آر ہوگا، الیکشن کمیشن تیاریوں میں مصروف
  • بھارت اور پاکستان طویل انتظار کے بعد نیزہ بازی مقابلے کے لیے تیار
  • الیکشن کمیشن نے عوامی راج پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخاب کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • پاکستان کا جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے بیٹنگ کا فیصلہ، پراعتماد بلے بازی جاری