اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اس ہفتے کے آغاز میں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ چار قانون سازوں کو، جن میں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی شامل تھے، فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نو مئی 2023 کو جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما عمر ایوب، سینیٹر شبلی فراز اور زرتاج گل سمیت 108 ملزمان کو جمعرات کو قید کی سزا سنا دی ہے۔تاہم ان مقدمات میں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی اور خیال کاسترو سمیت 77 افرادد کو بری کر دیا گیا۔2سال قبل فیصل آباد میں بھی دیگر بڑے شہروں کی طرح ملک گیر احتجاج کے دوران حساس ادارے کے دفتر اور پولیس پر حملوں کے چار مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان میں تحریک انصاف کے رہنماؤں سمیت 186کارکنوں کو نامزد کیا گیا تھا۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے احتجاج میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھراؤ کے مقدمات کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے عمر ایوب، زرتاج گل، سینیٹر شبلی فراز اور صاحبزادہ حامد رضا کو 10,10 سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔سزا پانے والے دوسرے رہنماؤں میں رائے حسن نواز، کنول شوذب، اویس اکبر، طاہر جاوید، صابر علی، محمد محسن، علی رضا، مبشر علی، نعمان جمیل، سمیع اللہ، محمد شفیق اور شہزاد الیاس ساجد شامل ہیں۔رکن پنجاب اسمبلی جنید افضل ساہی کو 3 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے،ان فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ جو فیصلے آ رہے ہیں اس سے ملک و قوم کا سخت ترین نقصان ہو رہا ہے۔انھوں نے تمام مقدمات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’اس سے جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔بیرسٹر گوہر نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کے فیصلوں کے ذریعہ پی ٹی آئی کو پارلیمان سے نکالا جا رہا ہے، جن کو سزائیں دی گئیں وہ سیاسی تشدد پر یقین نہیں رکھتے، انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں البتہ اب بھی وقت ہے کہ نظام کو بچایا جائے۔انہوں نے شکوہ کیا کہ عدلیہ کو امید کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن وہاں سے عوام مایوس ہو چکے ہیں،ان فیصلوں کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور یہ فیصلے کس حد تک درست یا غلط ہیں اس کا اندازہ تو ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کئے جانے کے بعد ہی ہوسکے گا لیکن ان فیصلوں کے پس پشت مبینہ سیاسی مقاصد کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ عدالت کی جانب سے سزاؤں کے اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) نے سزاپانے والوں کی جانب سے سزاؤں کے خلاف اپیل کا بھی انتظار کئے بغیر ان سب کو نااہل قرار دے کر ان کی نشستیں خالی قراردے دیں۔
یہ فیصلہ 9 مئی کے مقدمات میں حالیہ سزاؤں کی بنیاد پر کیا گیا گزشتہ روز فیصل آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ای سی پی کے ہاتھ میں مزید مواد دے دیا جب اس نے کئی دیگر قانون سازوں، بشمول قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائدینِ حزب اختلاف، کو سزا سنا دی۔ آئین کے آرٹیکل 63(1)(h) کے تحت، اگر کسی قانون ساز کو 2 سال سے زیادہ قید کی سزا دی جائے تو اسے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ ای سی پی نے انہی تکنیکی بنیادوں پر گزشتہ قانون سازوں کو نااہل قرار دیا۔ فیصل آباد کی انسدادِ دہشتگردی عدالت کی جانب سے سنائے گئے فیصلے متوقع تھے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سب کے لیے قابلِ قبول بھی ہیں۔ اس بار عدالت نے سینئر پی ٹی آئی رہنماؤں جن میں عمر ایوب، شبلی فراز، حامد رضا اور زرتاج گل شامل ہیں – کے ساتھ ساتھ 100 سے زائد کارکنان کو سزا سنائی ہے، جن میں سے کئی کو 10 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنا مقدمہ بلا شک و شبہ ثابت کیا ہے، تاہم اس عمل کے تناسب کے حوالے سے کئی سوالات گردش کر رہے ہیں۔جیسا کہ ہم نے 9 مئی کے ٹرائلز سے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے جن کاجواب ابھی تک کسی بھی جانب سے دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا”؛ فوجی تنصیبات اور ریاستی عمارات پر حملے کسی بھی جمہوری معیار کے مطابق ناقابلِ قبول تھے اور ان پر سخت قانونی ردِعمل ضروری تھا۔ لیکن احتساب کو قانونی ضوابط اور عدالتی خودمختاری کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
حالیہ فیصلے، پچھلے فیصلوں کی طرح، سنگین سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کچھ اپوزیشن رہنماؤں کو کیوں سزا دی گئی جبکہ اسی نوعیت کے مقدمات میں دیگر کو بری کر دیا گیا؟ کیا شواہد کے تجزیے اور ٹرائل کے طریقہ کار میں یکسانیت تھی؟ ایک جمہوریت میں، خاص طور پر پاکستان جیسے سیاسی پس منظر رکھنے والے ملک میں، یہ سوالات انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ انصاف کی ساکھ صرف فیصلوں پر نہیں بلکہ ان فیصلوں کے عمل پر بھی منحصر ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں اور 5 اگست کی مجوزہ سیاسی مہم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہیں۔ اگرچہ پارٹی کی بعض باتیں سیاسی رنگ لیے ہوئے ہیں، لیکن یہ تاثر کہ احتساب کو چن کر لاگو کیا جا رہا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہے۔ اس تاثر کو اس بات نے مزید تقویت دی ہے کہ عام شہریوں کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کا اطلاق کیا گیا، جس پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے شدید قانونی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عدالتیں اور قانونی ادارے سیاسی نتائج مسلط کرنے کے ہتھیار نہیں بننے چاہئیں۔ انصاف کو غیر جانب دار اور متناسب نظر آنا چاہیے۔ اگر ٹرائلز عجلت یا غیر مستقل انداز میں کیے جائیں، یا بعض رہنماؤں کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا جائے، تو یہ عوام کے ان اداروں پر اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے جو سب شہریوں کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں۔اسی کے ساتھ، پی ٹی آئی کو بھی اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا۔ یہ جماعت اب بھی محاذ آرائی اور جلسوں پر انحصار کر رہی ہے، جبکہ اسے پائیدار سیاسی شمولیت کی جانب بڑھنا چاہئے تھا لیکن ایسا اسی وقت ہوسکتاتھا جب حکومت وقت انھیں ایسا کرنے کا موقع دیتی،حکمرانوں نے ان پر زمین اس طرح تنگ کردی ہے کہ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہاکہ ان کا بیانیہ محاذ آرائی پر مبنی ہو، مظاہرے دھرنے اور احتجاج حکومت وقت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اورجمہوری خلا کو دوبارہ بحال کرنے میں بہت مدد دیتے۔ لیکن احتجاج کے دوران جم غفیر میں شامل بعض نادان نوجوانوں کی نادانی کی بنیاد پر ہونے والے کسی ناخوشگوار واقعے کو بنیاد بنا کر ایک سیاسی جماعت کے اہم رہنماؤں کو ایسی سخت سزاؤں کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا یہ سزائیں بلاشبہ سیاسی انتقام کے مترادف نظر آتی ہیں۔ تاہم ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ لیکن کسی بھی بہتری کے لیے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو بالغ نظری، تحمل اور صفر جمع-سیاست (zero-sum politics) سے گریز کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک قومی ادارہ جاتی مکالمہ جیسے اقدامات، جو قانون کی حکمرانی، عدالتی خودمختاری اور سول-ملٹری توازن جیسے بنیادی امور پر کلیدی فریقین کو اکٹھا کریں، سنجیدگی سے زیرِ غور لائے جانے چاہئیں۔احتساب اہم ہے۔ لیکن انصاف، شفافیت اور یکسانیت بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ اگر پاکستان نے سیاسی عدم استحکام کے دائروں سے نکلنا ہے تو اسے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ انصاف صرف ہوتا ہوا نظر نہ آئے، بلکہ واقعی ہو بھی۔۔ اخلاقی طور پر، تاہم، یہ ایک بالکل مختلف مسئلہ ہے۔اکثر لوگوں کے ذہن میں اس بات پر کوئی شک نہیں کہ انسدادِ دہشتگردی عدالتوں کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو سنائی جانے والی سزائیں حد سے زیادہ اور غیرمنصفانہ ہیں۔ ان مقدمات میں پیش کیے گئے شواہد کے معیار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں، اور اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملزمان کو مناسب قانونی عمل سے محروم رکھا گیا۔ ان مقدمات میں ملزمان کے وکلا کا پختہ یقین ہے کہ اگر ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جائے تو یہ سزائیں برقرار نہیں رہیں گی۔ ان حالات میں، ای سی پی کو چاہیے تھا کہ وہ احتیاط سے کام لیتا۔ اسے چاہیے تھا کہ متاثرہ قانون سازوں کو اپیل کرنے کا وقت دیتا۔ حیرت کی بات ہے کہ جب کوئی خاص نتیجہ مطلوب ہو تو تکنیکی نکات فوراً لاگو ہو جاتے ہیں، مگر عام حالات میں یہی قوانین اور ضوابط بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ یہی ہماری جمہوریت کی کہانی رہی ہے، کئی سال بلکہ دہائیوں سے۔ بالآخر، دیگر عوامل غالب آ جاتے ہیں، اور ایسی سزاؤں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ یہ ہر سیاسی دور کا مستقل حصہ رہا ہے۔ پھر بھی، یہ دہرانا ضروری ہے کہ ای سی پی کی بنیادی ذمہ داری عوامی مینڈیٹ کا تحفظ ہے۔ اس ذمہ داری کے حوالے سے اس کی کئی ناکامیاں جیسا کہ پچھلے عام انتخابات کی ناقص کارکردگی اور اس کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات سے نمٹنے میں نااہلی اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنے نقصانات کو کم سے کم کرے۔ عوامی مینڈیٹ کوئی معمولی چیز نہیں جس کے ساتھ کھیل کھیلا جائے؛ افسوس، ای سی پی بار بار اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔
اس طرح کے فیصلوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی حکمت عملی کی بجائے طاقت کے انداز میں ہی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے،اور فریق مخالف کو منظر سے غائب کرکے ہی چین سے حکومت کی جانی چاہئے۔جب ان کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ ملا کر،بات چیت اور انھیں ساتھ جوڑ کر ان کو مسائل کے حل میں شریک کرنا ہوگا تو وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے کیونکہ وہ طاقت کو ہی اپنی بڑی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ قومی مسائل زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔اس حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کا نظام پر اعتماد کمزور ہورہا ہے، حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے مگر اس کے باوجو د ہمارے حکمراں نظام کی غلطیاں درست کرنے کے لیے تیار نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہماری ریاست سیاست اور جمہوریت سمیت سیاسی حکمت عملیوں کی اہمیت سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اس غیر سیاسی سوچ کی وجہ سے سیاسی و جمہوری اسپیس بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔جب حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے بن جاتے ہیں جو اپنے مخالفین کے لیے بھی ریاست کے نظام کے اندر اندھی طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی کلچر پرتشدد اور انتہا پسند رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے اور سب کو لگتا ہے ہمیں بھی ہر سطح پر طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہی کی مدد سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: تحریک انصاف مقدمات میں رہنماؤں کو کی جانب سے قید کی سزا ان فیصلوں فیصل آباد کرنا ہوگا کے مقدمات فیصلوں کے پی ٹی آئی کی بنیاد عدالت نے جاتے ہیں کے ساتھ نہیں کہ کیا گیا کیا جا کے لیے رہا ہے رہی ہے اس بات ہیں اس ہیں کہ
پڑھیں:
عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
اسلام ٹائمز: عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔ تحریر: سید انجم رضا
عراق مشرقِ وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو اپنے تاریخی ورثے، مذہبی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لے کر جدید دور تک، یہ خطہ تہذیبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اہلِ تشیع کے لیے عراق ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں نجفِ اشرف، کربلا، کاظمین اور سامرہ جیسے روحانی مراکز واقع ہیں۔
داعش کے خلاف عراقی عوام کی جدوجہد
گذشتہ دہائی میں عراق کو "داعش" جیسے دہشت گرد گروہ کے فتنے کا سامنا رہا۔ اس دوران عراقی عوام نے بے مثال قربانیاں دے کر اپنی زمین کو دہشت گردی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس جنگ نے نہ صرف عراق کی داخلی مزاحمت کو مستحکم کیا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی۔ "الحشد الشعبی" (عوامی مزاحمتی فورسز) کی شمولیت اور پارلیمان کی طرف سے انہیں باضابطہ طور پر ریاستی ڈھانچے میں شامل کرنا عراقی خودمختاری کی ایک اہم پیش رفت قرار دی جاتی ہے۔
مقاومت کا نظریہ اور خطے کی سیاست
عراق میں مزاحمت کا نظریہ محض عسکری نہیں بلکہ فکری و سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ یہ تصور خطے میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور پر امریکی اثر و نفوذ کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا۔ صدام ملعون کے سقوط کے بعد اگرچہ امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، مگر عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے ہمیشہ بیرونی تسلط کو چیلنج کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر کی بغداد کے ہوائی اڈے پر شہادت نے عراقی خود مختاری کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا اور عوامی مزاحمت کو نیا جوش بخشا۔
غزہ و فلسطین کے مسئلے پر عراقی موقف
"طوفان الاقصیٰ" کے بعد جب خطے میں کشیدگی بڑھی تو عراق نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عراقی حکومت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور غزہ کے عوام کی حمایت کو انسانی و اسلامی فریضہ قرار دیا۔ یہ موقف اس امر کا غماز ہے کہ عراقی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی آزادی ایک مستقل اصولی حیثیت رکھتی ہے۔
امریکی اثر و رسوخ اور نیا ایلچی
عراق کی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ کوئی نیا موضوع نہیں۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمتِ عملی نے عراق کے داخلی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مارک ساوایا" کو عراق کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ مارک ساوایا ایک کاروباری شخصیت ہے، جو بھنگ اور جائیداد کے کاروبار سے منسلک ہے اور یہ شخص سفارتی تجربے سے محروم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس تقرری کا مقصد عراق کی سیاست میں امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ اقدام عراق میں امریکی اثر کے نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں اور ٹام باراک نے لبنان میں کیا تھا۔
نومبر کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ علاقائی مفادات کا محور
عراق میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ ہے، انتخابات کی تارہخ 11 نومبر مقرر کی گئی ہے، انتخابات کے ذریعے ملک کی پارلیمنٹ یعنی مجلس النواب العراقي کے 239 ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ عراق میں سیاسی جماعتوں، مکتبۂ فکر، فرقوں اور علاقائی تقسیم کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے اور اس کا اثر حکومت سازی، طاقت کے توازن اور داخلی استحکام پر پڑے گا۔ عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات داخلی سیاست سے بڑھ کر ایک علاقائی اور بین الاقوامی معاملہ بن چکے ہیں۔ مختلف طاقتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتخابی اتحادوں کی کثرت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عراق کا سیاسی منظر نامہ متحرک مگر غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ مقتدیٰ صدر نے انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، تاہم مرجعِ عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے عوام کو بھرپور شرکت کی تلقین کی ہے، جو عوامی شعور اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
عراقی سماج کا بیانیہ۔۔۔۔ رواداری اور وحدت
عراقی سماج کی بنیاد قبائلی ڈھانچے پر ضرور ہے، مگر وہاں کے قبائل اور عام عوام مسلکی اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کے قائل ہیں۔ اکثریت کے شیعہ ہونے کے باوجود عراقی معاشرہ بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہی وحدت عراق کے استحکام اور مزاحمت دونوں کی بنیاد ہے۔
عراق کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ استحکام کی امید یا ایک اور آزمائش؟
عراق ایک بار پھر جمہوری امتحان سے گزرنے جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ملک سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور عوامی بے زاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اکیس سال گزرنے کے باوجود عراق کا جمہوری سفر اب بھی عدم استحکام اور طاقت کے کھیل سے آزاد نہیں ہوسکا۔
عوامی توقعات اور سیاسی حقیقت
عراقی عوام کے لیے یہ انتخابات محض ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں بلکہ ایک اور امید کی کرن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں اب وہ چہرے آئیں، جو بدعنوانی، فرقہ واریت اور بیرونی اثرات سے بلند ہو کر عراق کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی بساط اب بھی پرانی جماعتوں اور طاقتور گروہوں کے زیرِ اثر ہے، جو انتخابات کے نتائج کے باوجود اقتدار کی تقسیم کے لیے ایک دوسرے سے سودے بازی کرتے ہیں۔
فرقہ واریت اور اتحاد کی سیاست
2003ء میں صدام کے زوال کے بعد سے عراقی سیاست شیعہ، سنی اور کرد جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ پر استوار ہے۔ کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی، اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی ہیں، جو جلد ہی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے طویل مذاکرات، الزامات اور مفاہمتوں کا وہی پرانا سلسلہ دہرایا جائے گا۔
احتجاجی تحریکوں کی بازگشت
2019ء کی عوامی تحریک نے عراقی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی کلچر کا مطالبہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جذبہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لا پاتا ہے یا نہیں۔ عوام میں سیاسی اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی موجود ہے، مگر نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انتخابی ٹرن آؤٹ اسی اعتماد کی حقیقی پیمائش ہوگی۔
علاقائی اثرات اور بین الاقوامی توازن
عراق مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ایران اور امریکا دونوں کے مفادات ٹکراتے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ اس بات کا عندیہ دے گا کہ نئی حکومت کس حد تک بیرونی دباؤ سے آزاد پالیسی اپناتی ہے۔ بغداد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے واشنگٹن سے بھی متوازن روابط برقرار رکھ سکے۔۔۔ یعنی ایک خود مختار مگر حقیقت پسند خارجہ پالیسی۔
سلامتی اور تعمیرِ نو
داعش کے خاتمے کے باوجود عراق مکمل طور پر پرامن نہیں۔ سکیورٹی اداروں میں سیاسی اثراندازی، کرپشن اور ملیشیاؤں کا کردار ریاستی عملداری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نئی حکومت سلامتی، روزگار، بجلی، پانی اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔۔۔۔ وہ وعدے جو ہر انتخابی مہم میں کیے جاتے ہیں، مگر پورے کم ہی ہوتے ہیں۔
امید باقی ہے
عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔