اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اس ہفتے کے آغاز میں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ چار قانون سازوں کو، جن میں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی شامل تھے، فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نو مئی 2023 کو جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما عمر ایوب، سینیٹر شبلی فراز اور زرتاج گل سمیت 108 ملزمان کو جمعرات کو قید کی سزا سنا دی ہے۔تاہم ان مقدمات میں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی اور خیال کاسترو سمیت 77 افرادد کو بری کر دیا گیا۔2سال قبل فیصل آباد میں بھی دیگر بڑے شہروں کی طرح ملک گیر احتجاج کے دوران حساس ادارے کے دفتر اور پولیس پر حملوں کے چار مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان میں تحریک انصاف کے رہنماؤں سمیت 186کارکنوں کو نامزد کیا گیا تھا۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے احتجاج میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھراؤ کے مقدمات کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے عمر ایوب، زرتاج گل، سینیٹر شبلی فراز اور صاحبزادہ حامد رضا کو 10,10 سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔سزا پانے والے دوسرے رہنماؤں میں رائے حسن نواز، کنول شوذب، اویس اکبر، طاہر جاوید، صابر علی، محمد محسن، علی رضا، مبشر علی، نعمان جمیل، سمیع اللہ، محمد شفیق اور شہزاد الیاس ساجد شامل ہیں۔رکن پنجاب اسمبلی جنید افضل ساہی کو 3 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے،ان فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ جو فیصلے آ رہے ہیں اس سے ملک و قوم کا سخت ترین نقصان ہو رہا ہے۔انھوں نے تمام مقدمات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’اس سے جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔بیرسٹر گوہر نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کے فیصلوں کے ذریعہ پی ٹی آئی کو پارلیمان سے نکالا جا رہا ہے، جن کو سزائیں دی گئیں وہ سیاسی تشدد پر یقین نہیں رکھتے، انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں البتہ اب بھی وقت ہے کہ نظام کو بچایا جائے۔انہوں نے شکوہ کیا کہ عدلیہ کو امید کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن وہاں سے عوام مایوس ہو چکے ہیں،ان فیصلوں کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور یہ فیصلے کس حد تک درست یا غلط ہیں اس کا اندازہ تو ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کئے جانے کے بعد ہی ہوسکے گا لیکن ان فیصلوں کے پس پشت مبینہ سیاسی مقاصد کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ عدالت کی جانب سے سزاؤں کے اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) نے سزاپانے والوں کی جانب سے سزاؤں کے خلاف اپیل کا بھی انتظار کئے بغیر ان سب کو نااہل قرار دے کر ان کی نشستیں خالی قراردے دیں۔
یہ فیصلہ 9 مئی کے مقدمات میں حالیہ سزاؤں کی بنیاد پر کیا گیا گزشتہ روز فیصل آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ای سی پی کے ہاتھ میں مزید مواد دے دیا جب اس نے کئی دیگر قانون سازوں، بشمول قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائدینِ حزب اختلاف، کو سزا سنا دی۔ آئین کے آرٹیکل 63(1)(h) کے تحت، اگر کسی قانون ساز کو 2 سال سے زیادہ قید کی سزا دی جائے تو اسے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ ای سی پی نے انہی تکنیکی بنیادوں پر گزشتہ قانون سازوں کو نااہل قرار دیا۔ فیصل آباد کی انسدادِ دہشتگردی عدالت کی جانب سے سنائے گئے فیصلے متوقع تھے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سب کے لیے قابلِ قبول بھی ہیں۔ اس بار عدالت نے سینئر پی ٹی آئی رہنماؤں جن میں عمر ایوب، شبلی فراز، حامد رضا اور زرتاج گل شامل ہیں – کے ساتھ ساتھ 100 سے زائد کارکنان کو سزا سنائی ہے، جن میں سے کئی کو 10 سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنا مقدمہ بلا شک و شبہ ثابت کیا ہے، تاہم اس عمل کے تناسب کے حوالے سے کئی سوالات گردش کر رہے ہیں۔جیسا کہ ہم نے 9 مئی کے ٹرائلز سے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے جن کاجواب ابھی تک کسی بھی جانب سے دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا”؛ فوجی تنصیبات اور ریاستی عمارات پر حملے کسی بھی جمہوری معیار کے مطابق ناقابلِ قبول تھے اور ان پر سخت قانونی ردِعمل ضروری تھا۔ لیکن احتساب کو قانونی ضوابط اور عدالتی خودمختاری کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
حالیہ فیصلے، پچھلے فیصلوں کی طرح، سنگین سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کچھ اپوزیشن رہنماؤں کو کیوں سزا دی گئی جبکہ اسی نوعیت کے مقدمات میں دیگر کو بری کر دیا گیا؟ کیا شواہد کے تجزیے اور ٹرائل کے طریقہ کار میں یکسانیت تھی؟ ایک جمہوریت میں، خاص طور پر پاکستان جیسے سیاسی پس منظر رکھنے والے ملک میں، یہ سوالات انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ انصاف کی ساکھ صرف فیصلوں پر نہیں بلکہ ان فیصلوں کے عمل پر بھی منحصر ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں اور 5 اگست کی مجوزہ سیاسی مہم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہیں۔ اگرچہ پارٹی کی بعض باتیں سیاسی رنگ لیے ہوئے ہیں، لیکن یہ تاثر کہ احتساب کو چن کر لاگو کیا جا رہا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہے۔ اس تاثر کو اس بات نے مزید تقویت دی ہے کہ عام شہریوں کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کا اطلاق کیا گیا، جس پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے شدید قانونی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عدالتیں اور قانونی ادارے سیاسی نتائج مسلط کرنے کے ہتھیار نہیں بننے چاہئیں۔ انصاف کو غیر جانب دار اور متناسب نظر آنا چاہیے۔ اگر ٹرائلز عجلت یا غیر مستقل انداز میں کیے جائیں، یا بعض رہنماؤں کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا جائے، تو یہ عوام کے ان اداروں پر اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے جو سب شہریوں کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں۔اسی کے ساتھ، پی ٹی آئی کو بھی اپنے رویے پر غور کرنا ہوگا۔ یہ جماعت اب بھی محاذ آرائی اور جلسوں پر انحصار کر رہی ہے، جبکہ اسے پائیدار سیاسی شمولیت کی جانب بڑھنا چاہئے تھا لیکن ایسا اسی وقت ہوسکتاتھا جب حکومت وقت انھیں ایسا کرنے کا موقع دیتی،حکمرانوں نے ان پر زمین اس طرح تنگ کردی ہے کہ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہاکہ ان کا بیانیہ محاذ آرائی پر مبنی ہو، مظاہرے دھرنے اور احتجاج حکومت وقت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اورجمہوری خلا کو دوبارہ بحال کرنے میں بہت مدد دیتے۔ لیکن احتجاج کے دوران جم غفیر میں شامل بعض نادان نوجوانوں کی نادانی کی بنیاد پر ہونے والے کسی ناخوشگوار واقعے کو بنیاد بنا کر ایک سیاسی جماعت کے اہم رہنماؤں کو ایسی سخت سزاؤں کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا یہ سزائیں بلاشبہ سیاسی انتقام کے مترادف نظر آتی ہیں۔ تاہم ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ لیکن کسی بھی بہتری کے لیے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو بالغ نظری، تحمل اور صفر جمع-سیاست (zero-sum politics) سے گریز کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک قومی ادارہ جاتی مکالمہ جیسے اقدامات، جو قانون کی حکمرانی، عدالتی خودمختاری اور سول-ملٹری توازن جیسے بنیادی امور پر کلیدی فریقین کو اکٹھا کریں، سنجیدگی سے زیرِ غور لائے جانے چاہئیں۔احتساب اہم ہے۔ لیکن انصاف، شفافیت اور یکسانیت بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ اگر پاکستان نے سیاسی عدم استحکام کے دائروں سے نکلنا ہے تو اسے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ انصاف صرف ہوتا ہوا نظر نہ آئے، بلکہ واقعی ہو بھی۔۔ اخلاقی طور پر، تاہم، یہ ایک بالکل مختلف مسئلہ ہے۔اکثر لوگوں کے ذہن میں اس بات پر کوئی شک نہیں کہ انسدادِ دہشتگردی عدالتوں کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو سنائی جانے والی سزائیں حد سے زیادہ اور غیرمنصفانہ ہیں۔ ان مقدمات میں پیش کیے گئے شواہد کے معیار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں، اور اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملزمان کو مناسب قانونی عمل سے محروم رکھا گیا۔ ان مقدمات میں ملزمان کے وکلا کا پختہ یقین ہے کہ اگر ان فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جائے تو یہ سزائیں برقرار نہیں رہیں گی۔ ان حالات میں، ای سی پی کو چاہیے تھا کہ وہ احتیاط سے کام لیتا۔ اسے چاہیے تھا کہ متاثرہ قانون سازوں کو اپیل کرنے کا وقت دیتا۔ حیرت کی بات ہے کہ جب کوئی خاص نتیجہ مطلوب ہو تو تکنیکی نکات فوراً لاگو ہو جاتے ہیں، مگر عام حالات میں یہی قوانین اور ضوابط بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ یہی ہماری جمہوریت کی کہانی رہی ہے، کئی سال بلکہ دہائیوں سے۔ بالآخر، دیگر عوامل غالب آ جاتے ہیں، اور ایسی سزاؤں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ یہ ہر سیاسی دور کا مستقل حصہ رہا ہے۔ پھر بھی، یہ دہرانا ضروری ہے کہ ای سی پی کی بنیادی ذمہ داری عوامی مینڈیٹ کا تحفظ ہے۔ اس ذمہ داری کے حوالے سے اس کی کئی ناکامیاں جیسا کہ پچھلے عام انتخابات کی ناقص کارکردگی اور اس کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات سے نمٹنے میں نااہلی اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنے نقصانات کو کم سے کم کرے۔ عوامی مینڈیٹ کوئی معمولی چیز نہیں جس کے ساتھ کھیل کھیلا جائے؛ افسوس، ای سی پی بار بار اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔
اس طرح کے فیصلوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے سیاسی حکمت عملی کی بجائے طاقت کے انداز میں ہی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے،اور فریق مخالف کو منظر سے غائب کرکے ہی چین سے حکومت کی جانی چاہئے۔جب ان کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ ملا کر،بات چیت اور انھیں ساتھ جوڑ کر ان کو مسائل کے حل میں شریک کرنا ہوگا تو وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے کیونکہ وہ طاقت کو ہی اپنی بڑی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ قومی مسائل زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔اس حکمت عملی کی وجہ سے لوگوں کا نظام پر اعتماد کمزور ہورہا ہے، حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے مگر اس کے باوجو د ہمارے حکمراں نظام کی غلطیاں درست کرنے کے لیے تیار نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہماری ریاست سیاست اور جمہوریت سمیت سیاسی حکمت عملیوں کی اہمیت سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اس غیر سیاسی سوچ کی وجہ سے سیاسی و جمہوری اسپیس بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔جب حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے بن جاتے ہیں جو اپنے مخالفین کے لیے بھی ریاست کے نظام کے اندر اندھی طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرتے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی کلچر پرتشدد اور انتہا پسند رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے اور سب کو لگتا ہے ہمیں بھی ہر سطح پر طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ہی کی مدد سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: تحریک انصاف مقدمات میں رہنماؤں کو کی جانب سے قید کی سزا ان فیصلوں فیصل آباد کرنا ہوگا کے مقدمات فیصلوں کے پی ٹی آئی کی بنیاد عدالت نے جاتے ہیں کے ساتھ نہیں کہ کیا گیا کیا جا کے لیے رہا ہے رہی ہے اس بات ہیں اس ہیں کہ
پڑھیں:
این اے ون چترال؛ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو ضمنی انتخاب سے روک دیا
پشاور:پشاور ہائیکورٹ نے نااہلی کے خلاف درخواست پر الیکشن کمیشن کو این اے ون چترال پر ضمنی الیکشن سے روک دیا۔
جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال نے چترال این اے 1 سے سابق ممبر قومی اسمبلی عبدالطیف کی نااہلی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ این اے ون چترال کی سیٹ درخواست پر فیصلے تک فل نہ کیا جائے۔
دوران سماعت، وکیل درخواست گزار معظم بٹ ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ درخواست گزار این اے 1 چترال سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے، اسپیکر قومی اسمبلی نے بغیر کسی نوٹس الیکشن کمیشن کو نااہلی کے لیے ریفرنس بھیجا جس میں کہا ہے کہ انسداد دہشتگردی عدالت نے درخواست گزار کو 10 سال سزا سنائی ہے، ان کو نااہل قرار دیا جائے۔
معظم بٹ ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہمیں نوٹس دیا اور بغیر سنے، بغیر کسی پراسس کے درخواست گزار کو نااہل کیا، الیکشن کمیشن نے چترال این اے 1 کی سیٹ کو خالی قرار دیا ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو ریفرنس جاتا ہے تو 90 دنوں میں انھوں نے اس پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت نے درخواست گزار کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا اور ہم نے سزا کے خلاف اپیل بھی دائر کی ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو این اے ون چترال کی سیٹ پر ضمنی الیکشن سے روکتے ہوئے سماعت 20 اگست تک ملتوی کر دی۔