آج 4 اگست ہے۔ پاپا کی سالگرہ کا دن۔۔۔
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
تحریر: روشین عاقب
کسی بیٹی کے لیے اپنے جان سے عزیز والد کی جدائی سہنا اور پھر اس کرب و صدمے کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا ایک ایسا کٹھن مرحلہ ہے جسے بیان کرنے کے لیے کسی بھی زبان میں کوئی مکمل لغت موجود نہیں۔ وہ دکھ جو روح کی گہرائیوں میں سرایت کر جائے، اسے کاغذ پر اتارنا ممکن نہیں۔
پاپا کی ذات ایک انجمن تھی۔ اتنے پہلو، اتنے رنگ کہ اگر ہر پہلو پر الگ سے لکھا جائے تو دفتر درکار ہوں۔ وہ ایک بے مثل انسان، صاحبِ طرز تخلیق کار، بہترین دوست اور بے پناہ محبت کرنے والے باپ اور شوہر تھے۔ بچپن میں ہمیں شاید اس نسبت کا احساس نہ تھا مگر جیسے جیسے شعور کی آنکھ کھلی، یہ احساس راسخ ہوتا گیا کہ ہم ایک غیرمعمولی انسان کی اولاد ہیں وہ جو انسانیت کا کامل نمونہ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ’’بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے‘‘ امجد اسلام امجد حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے
اگر ان کی تخلیقات کی بات کی جائے تو نظم، نثر، کالم، ڈراما، سفرنامہ، تنقید۔ ادب کی ہر صنف میں ان کا کام گویا موتیوں میں تولنے لائق ہے۔ ان کی تحریریں سچائی اور بے ساختگی کا ایسا آئینہ تھیں کہ پڑھنے والا خود کو ان میں موجود پاتا۔
اور یہی سچائی اور صاف گوئی ان کی ہر تحریر میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ان کے ڈرامے اٹھائیے، کردارنگاری کا مطالعہ کیجیے، ہر کردار زمینی ہے، ہمارے آس پاس کا ۔۔۔ ہماری ہی باتیں کرتا ہے ہمارے ہی مسائل بیان کرتا ہے ہماری ہی زبان بولتا ہے ہم ان سب کرداروں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہم خود ہیں۔
شاعری میں ان کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔ خواب، بارش، سمندر، وقت اور محبت جیسے استعارے ان کے قلم سے ایک نئی جہت پاتے۔ ان کی نظم ’محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے‘ ایک ابدی خوشبو کی طرح دل میں اترتی ہے، اور ’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘ جیسی نظمیں تلخ حقیقتوں کو اس انداز میں بیان کرتی ہیں کہ قاری تادیر سوچتا رہ جائے۔
مگر کسی بھی شخصیت کی اصل عظمت اس کی تخلیقات سے زیادہ اس کے کردار میں ہوتی ہے۔ اور اگر یہ میزان ہو، تو پاپا اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے ان سے بڑھ کر شفاف دل، درگزر کرنے والا اور خالص انسان کوئی نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’اپنی نیکی کبھی یاد نہیں رکھنی اور دوسرے کی کبھی بھولنی نہیں‘۔
اور یہ محض زبان سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ خود مجسم مثال تھے۔
مزید پڑھیے: محبتوں کے شاعر امجد اسلام امجد ہمیں چھوڑ گئے
اگر کوئی ان سے زیادتی بھی کر جاتا تو وہ نہ صرف اسے معاف کر دیتے بلکہ معاف کرتے ہی فوراً بھول جاتے تھے۔ دوبارہ ذکر آتا تو اس شخص کی طرف سے وکیل بن کر اس کا دفاع کرتے۔ ان کے لیے سب سے مشکل کام کسی کو تکلیف میں دیکھنا تھا۔ وہ تو دوسروں کا دکھ بانٹتے کے عادی تھے۔ کوئی بھی دنیاوی نقصان ان کے لیے کبھی صدمہ نہ بنا۔ ان کا اپنا مصرع تھا:
’وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا‘
اور یہ فقط ایک مصرعہ نہیں بلکہ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ تھا۔
انہوں نے زندگی بھر ہماری آسائش کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ بہن بھائیوں، رشتہ داروں، دوستوں، سب کے لیے وہ ایک سایہ دار شجر تھے۔ اگر کسی نے ان کے سامنے اپنی پریشانی ظاہر کر دی تو وہ خود بھول جائے تو بھول جائے لیکن پاپا سکون سے نہ بیٹھتے جب تک اسے حل نہ کر لیں۔
وہ شوہر کیسے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دنیا سے جانے کے بعد میری ماما ایک برس بھی جی نہیں پائیں۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائیں کہ ساری دنیا سے زیادہ ان سے محبت کرنے والا، ہر مشکل میں ان کی ڈھال بن جانے والا اور ان کی ایک مسکراہٹ کے صدقے ہونے والا شخص انہیں کیسے چھوڑ گیا۔ اسی بے یقینی میں وہ بھی رخصت ہو گئیں۔ میں سوچتی ہوں پاپا نے بھی یہ ایک سال ماما کے بغیر نہ جانے کیسے گزارا ہوگا تب ہی تو انہیں فوراً بلوا لیا۔۔۔
مزید پڑھیں: معروف شاعر امجد اسلام امجد مرحوم کی اہلیہ بیگم فردوس امجد چل بسیں
پاپا نے پوری زندگی کسی کو تکلیف نہیں دی۔ انہیں عادت ہی نہیں تھی کہ کوئی ان کے لیے بھی کچھ کرے۔ وہی سب کی فکر کیا کرتے تھے اسی لیے جاتے ہوئے بھی چپکے سے نیند میں چلے گئے۔
وہ صرف ہمارے والد ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسی روشنی تھے جو اب بھی دل کے نہاں خانوں میں جلتی رہتی ہے اور ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہوتی۔
(امجد اسلام امجد کی صاحبزادی روشین عاقب کی خصوصی تحریر جس کو ایکسپریس نے چھاپا)
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وی نیوز کا آفیشل ویب ڈیسک اکاؤنٹ
امجد اسلام امجد بیگم فردوس روشین عاقب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امجد اسلام امجد بیگم فردوس امجد اسلام امجد ہی نہیں کے لیے
پڑھیں:
اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصداضافہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 ستمبر ۔2025 )اگست میں سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح 3 فیصد تک بڑھنے کے بعد پاکستان میں ستمبر کے دوران ہیڈ لائن افراطِ زر میں نمایاں اضافہ متوقع ہے، جو حالیہ سیلاب کے باعث خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں 6.5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے یہ بات بروکریج ہاﺅس ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اپنی رپورٹ میں بتائی ہے. رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) ستمبر 2025 میں 6.5 سے 7 فیصد سالانہ رہنے کی توقع ہے، جو اگست 2025 میں 3 فیصد اور ستمبر 2024 میں 6.93 فیصد تھا ماہانہ بنیاد پر ستمبر کے لیے مہنگائی کا تخمینہ 3.1 فیصد ہے، جو گزشتہ 26 ماہ میں سب سے زیادہ اضافہ ہوگا.(جاری ہے)
رپورٹ میں کہا گیا کہ سالانہ افراطِ زر کی شرح 11 ماہ کی بلند ترین سطح پر ہوگی جبکہ خوراک کی قیمتوں میں متوقع 8.75 فیصد اضافہ اب تک کا سب سے زیادہ ماہانہ اضافہ ہو سکتا ہے ٹاپ لائن کے مطابق خوراک کی مہنگائی میں یہ اضافہ ملک میں جاری شدید سیلاب کے سپلائی سائیڈ اثرات کا نتیجہ ہے حالیہ بارشوں اور طوفانی مون سون نے خاص طور پر پنجاب کے گنجان آباد علاقوں کو شدید متاثر کیا ہے گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 11 فیصد پر برقرار رکھا اور حالیہ سیلاب کو قلیل مدتی معاشی منظرنامے کے لیے خطرہ قرار دیا.
اہم اشیائے خور و نوش میں نمایاں اضافہ یہ رہا جن میںٹماٹر (122 فیصد)، گندم (49 فیصد)، آٹا (39 فیصد) اور پیاز (35 فیصد) آلو 5.4 فیصد، چاول 4.3 فیصد، مرغی 4.1 فیصد، انڈے 3.5 فیصد اور چینی کی قیمتیں2.7 فیصد بڑھیں پھلوں کی قیمتیں تقریباً مستحکم رہیں جبکہ سبزیوں کی قیمتوں میں تقریباً 10 فیصد کمی ہوئی. رپورٹ کے مطابق بجلی کے نرخوں میں کمی کے باعث رہائش، پانی، بجلی اور گیس کی کیٹیگری میںمحض 0.24 فیصد کمی متوقع ہے تاہم ایل پی جی کی 2.75 فیصد مہنگائی نے اس کمی کو جزوی طور پر زائل کردیا ٹاپ لائن کا کہنا ہے کہ ستمبر کے لیے 6.5–7 فیصد افراطِ زر کے تخمینے کے ساتھ حقیقی شرح سود 400–450 بیسس پوائنٹس تک پہنچ جائے گی، جو پاکستان کی تاریخی اوسط (200–300 بیسس پوائنٹس) سے کہیں زیادہ ہے مزید یہ کہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں اچانک تبدیلی مستقبل میں مہنگائی کے رجحان کو تبدیل کر سکتی ہے.