یورپی یونین کی سطح پر ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے سلووینیا حکومت نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تیار شدہ اشیاء کی درآمد و ملکی سرزمین کے ذریعے انکے ٹرانزت سمیت قابض اسرائیلی رژیم کیساتھ ہتھیاروں کی خرید و فروخت یا منتقلی پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اسلام ٹائمز۔ سلووینیا حکومت نے یورپی یونین میں ایک منفرد قدم اٹھاتے ہوئے غاصب اسرائیلی رژیم میں بنائی گئی اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ فیصلہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے میں یورپی یونین کی "ناکامی" کے جواب میں لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق سلووینیا حکومت نے متعلقہ وزارتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کے زیر کنٹرول علاقوں میں تیار کی گئی مصنوعات کی سلووینیا کی سرزمین کے ذریعے برآمدات کو روکنے کے امکان کا مکمل جائزہ لیں اور اسرائیلی رژیم کے ساتھ اسلحے و فوجی ساز و سامان کی خرید و فروخت، منتقلی یا ملکی سرزمین سے ان کے ٹرانزٹ پر بھی مکمل پابندی عائد کریں۔

اس حوالے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں غیر قانونی صیہونی بستیوں کی تعمیر، فلسطینی شہریوں کی جبری نقل مکانی اور فلسطینی گھروں کی مسماری کی شدید مذمت کرتے ہوئے سلووینیا کے وزیر اعظم رابرٹ گولوب نے ان اقدامات کو انسانی حقوق و بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور خبردار کرتے ہوئے کہا کہ قابض صیہونی رژیم کی غیر انسانی پالیسیوں سے فلسطینی شہریوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یہ صیہونی اقدامات بین الاقوامی نظام کی بنیادوں کو تیزی کے ساتھ کمزور بنا رہے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں سلووینیا حکومت نے بھی غزہ میں انسانی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے تاکید کی کہ اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد کی منظم روک تھام کے باعث اس پورے علاقے کے مکین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں!

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی اداروں میں اختلافات کی شدت بڑھنے لگی

اسرائیلی اخبار معاریو نے سیاسی اور فوجی سربراہان کے درمیان اختلافات کے باعث بحران کی شدت بڑھ جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال حماس سے مذاکرات نیتن یاہو کی کچن کیبنٹ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور فوجی سربراہان کو ان سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ اسلام ٹائمز۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے صیہونی اخبار "معاریو" نے فاش کیا ہے کہ غزہ جنگ کے 667 دن بعد صیہونی رژیم کے سیاسی اور فوجی سربراہان کے درمیان اندرونی بحران ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے اور اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایسے اشارے بھی موصول ہو رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے چیف آف جوائنٹ اسٹاف ایال ضمیر کو جنگ جاری رکھنے کی مخالفت کرنے پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جان بوجھ کر دباو کا شکار کر رہا ہے۔ مزید برآں، ایال ضمیر کو  اگلے مرحلے کے لیے فوج کے منصوبے سیکورٹی کابینہ کے سامنے پیش کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ اس اخبار کے عسکری رپورٹر اور تجزیہ کار ایوی اشکنازی کے مطابق ضمیر کئی دنوں سے غزہ میں فوج کی آئندہ حکمت عملی اور منصوبے پیش کرنے کے لیے کابینہ اجلاس کے انعقاد کی درخواست کر رہا ہے لیکن نیتن یاہو نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے فوج کو جنگ کے دوران غیر یقینی کی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔ معاریو کے مطابق یہ صورتحال غزہ جنگ اور اس کے جاری رہنے کے حوالے سے فوج اور سیاسی اداروں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلاف کی عکاسی کرتی ہے۔
 
ایک طرف ایال ضمیر کی سربراہی میں صیہونی فوج اس وقت غزہ میں جاری آپریشن "گیڈون کی رتھیں" کو مکمل اور تکمیل یافتہ خیال کرتی ہے اور اس نے اعلان کیا ہے کہ گیند اب سیاسی حکام کے کورٹ میں ہے اور انہیں حماس کے ساتھ مذاکرات میں جنگ کے اہداف کو آگے بڑھانا ہوگا۔ اشکنازی نے ایک سینئر سیکورٹی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: "ہم نہیں جانتے کہ سیاسی حکام کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے صورتحال کی مکمل تصویر پیش کی اور واضح کیا کہ ہم نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے اور اب ان کی باری ہے۔" اس سیکیورٹی اہلکار نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی اور عسکری ادارے صرف یہ جانتے ہیں کہ نیتن یاہو اب حماس کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک جامع معاہدے کے لیے تیار ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ مذاکرات میں کیا ہو رہا ہے۔ اس نے مزید کہا: "ماضی میں ہم حماس کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات سے پوری طرح واقف رہتے تھے لیکن اب یہ مسئلہ صرف دو لوگوں یعنی نیتن یاہو اور رون ڈرمر (اسرائیل کے اسٹریٹجک امور کے وزیر) کے درمیان چلایا جاتا ہے اور ہم صرف انفارمیشن چینلز کے ذریعے دوسری طرف ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ہوتے ہیں۔"
 
اخبار معاریو کے فوجی رپورٹر نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ فوج کا ماحول، اعلیٰ سیاسی عہدیداروں کی طرف سے جنگ کے انتظام کے طریقے سے گہری مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک سینئر ذریعے کے مطابق فوج کی قیادت کو کابینہ کے سامنے کوئی منصوبہ پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ نہیں جانتے کہ نیتن یاہو یا وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کیا چاہتے ہیں اور آپریشن کہاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی ذریعے نے اخبار کو بتایا: "اس وقت صرف ایک چیز واضح ہے کہ نیتن یاہو پر وزیر خزانہ (بزالل اسموتریچ)، وزیر دفاع (یسرائیل کاٹز)، وزیر شہری امور (اوریت استروک) اور قومی سلامتی کے وزیر (اتمار بن غفیر) کا اثرورسوخ ہے، جو غزہ کی پوری پٹی پر قبضے کا کھلے عام مطالبہ کرتے ہیں اور وہاں پر یہودی بستیوں کی تعمیر چاہتے ہیں۔ باقی وزیروں کا موقف ہمارے لیے واضح نہیں ہے۔" اشکنازی کے مطابق حساس مسائل کو مسلسل نیتن یاہو اور ڈرمر پر مشتمل ایک چھوٹے دائرے تک محدود رکھنا، فوج اور حکومت کے درمیان اعتماد کے بحران کو بڑھا رہا ہے جو جنگ چلانے یا اپنے بیان کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں صیہونی رژیم کی صلاحیتوں پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ فوجی رپورٹر سمجھتا ہے کہ واضح وژن کی کمی نے اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے بڑھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی دباؤ اور فوج کی صفوں میں شدید کمی کے درمیان ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلیوں کا عظیم فرار؛ غاصب صیہونیوں کی "الٹی ہجرت" پر کنیسٹ بھی پریشان
  • نیتن یاہو کی اہلیہ و بیٹے کیجانب سے اسرائیلی آرمی چیف پر ایک مرتبہ پھر شدید تنقید
  • اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملے جاری، فٹبالر سمیت مزید 150 فلسطینی شہید
  • اسرائیل نے بیت المقدس کے مفتی اعظم پر پابندی لگادی
  • صیہونی سیاستدان کیجانب سے اسرائیلی معیشت کو مفلوج کردینے کی کال
  • سلامتی کونسل فلسطینیوں کی ناقابل تصور تکالیف ختم کرانے کیلئے اقدامات کرے.پاکستان کا مطالبہ
  • نوجوان امریکیوں نے خود کو اسرائیل سے دور کر لیا ہے, سابق صیہونی وزیراعظم
  • اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملے، امداد کے منتظر 36 افراد سمیت مزید 74 فلسطینی شہید
  • صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی اداروں میں اختلافات کی شدت بڑھنے لگی