مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سیاسی و سلامتی بحرانوں میں اضافے پر شروع ہونیوالی غاصب اسرائیلی آبادکاروں کی "الٹی ہجرت" کی عظیم لہر نے حتی اسرائیلی پارلیمنٹ (Knesset) کو بھی پریشان کر کے رکھدیا ہے جسکے مطابق سال 2020 کے بعد سے مقبوضہ فلسطین چھوڑنے والے 53 فیصد اسرائیلی "واپس نہیں لوٹے"! اسلام ٹائمز۔ غاصب اسرائیلی رژیم کے عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت نے صیہونی پارلیمنٹ - کنیسٹ (Knesset) کی ایک رپورٹ سے نقل کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت تقریباً 10 لاکھ غیر قانونی صیہونی آبادکار کہ جنہیں "اسرائیلی شہری" کہا جاتا ہے، مقبوضہ فلسطین سے باہر نکل چکے ہیں.

. ایسے اعداد و شمار کہ جنہوں نے غاصب اسرائیلی معاشرے کی سیاسی و سماجی بنیادوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ صیہونی رپورٹ کے مطابق صیہونی رژیم کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ سال 2020 سے بیرون ملک ہجرت کرنے والے اسرائیلیوں میں سے 53 فیصد ابھی تک اسرائیل واپس نہیں لوٹے۔ یدیعوت احرونوت کے مطابق اس رجحان نے کنیسٹ کی "امیگریشن کمیٹی" کو اس شدید کمی کی وجوہات و نتائج کا جائزہ لینے کے لئے ایک خصوصی اجلاس منعقد کرنے پر بھی مجبور کیا ہے۔

صیہونی اخبار نے جنگ غزہ کے بعد غاصب صیہونی آبادکاروں کی مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے باہر نقل مکانی میں شدت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیلی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں حالیہ جنگ کے بعد مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے قابض صیہونیوں کی نقل مکانی کا رجحان شدت اختیار کر گیا ہے جس کے باعث بالخصوص پڑھے لکھے و ماہر افراد کی "الٹی ہجرت" اور جعلی صیہونی رژیم سے "صیہونی کریم" کے فرار میں کئی گنا کا اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ - کنیسٹ کے رکن گیلعاد کریف نے بھی، اس رجحان کے نتائج کے بارے سختی کے ساتھ خبردار کرتے ہوئے؛ "ریورس مائیگریشن" کا مقابلہ کرنے اور ملک کے انسانی سرمائے کو محفوظ رکھنے کے لئے حکومتی کابینہ کے ذریعے جامع منصوبہ تیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔    رپورٹ کے مطابق اس بارے غاصب اسرائیلی حکام نے بھی خبردار کیا ہے کہ اس رجحان کے یونہی جاری رہنے سے نہ صرف مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر قابض یہودی آبادی کی "اکثریت" خطرے میں پڑ سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اسرائیل کی اقتصادی پوزیشن بھی کمزور ہو سکتی ہے۔ صیہونی پارلیمنٹ (Knesset) کی رپورٹ میں مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے قابض صیہونیوں کی نقل مکانی کی بنیادی وجوہات کے طور پر دو اہم عوامل کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی گئی ہے کہ ان عوامل میں نیتن یاہو اور حکومتی کابینہ کا ہاتھ ہے:

1- عدالت کے خلاف حکومتی بغاوت: ان اقدامات کا سلسلہ کہ جو نیتن یاہو کابینہ نے اصلاحات کے بہانے سے اسرائیلی عدالتی نظام کے ڈھانچے میں تبدیلی لانے کے لئے اٹھایا ہے۔ ایسی اصلاحات کہ جنہیں ناقدین، عدلیہ کی آزادی کو کمزور بنانے اور اقتدار کو حکومت کے ہاتھوں میں مرکوز کر دینے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کا بنیادی مقصد بیرونی خطرات کا مقابلہ نہیں بلکہ اندرونی عدالتی رکاوٹوں کو دور کرنا اور جمہوری اداروں پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

2- علاقائی جنگوں کا تسلسل کہ جو غاصب صیہونی آبادکاروں کے درمیان شدید عدم تحفظ و عدم استحکام کا باعث ہے۔ اسرائیل کے شماریاتی مرکز نے بھی قبل ازیں اعلان کیا تھا کہ جنگ غزہ کے دوران اور سال 2024 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے "الٹی ہجرت" میں اضافہ ہوا ہے جبکہ مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ کر جانے والے افراد کی تعداد، اس رژیم کی سرحدوں میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد سے تجاوز کر چکی ہے۔

واضح رہے کہ امسال 82 ہزار سے زائد غیر قانونی صیہونی آباد کار اسرائیل کو چھوڑ چکے ہیں جبکہ صرف 24 ہزار کے قریب واپس پلٹے ہیں۔ علاوہ ازیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی امیگریشن بھی کم ہو کر 32 ہزار تک آ پہنچی ہے کہ جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں 15 ہزار نفر کم ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مقبوضہ فلسطینی علاقوں غاصب اسرائیلی الٹی ہجرت کرتے ہوئے کے مطابق کیا ہے

پڑھیں:

اسرائیلی حملے میں غزہ میں 68 فلسطینی شہید، خان یونس میں امداد کے منتظر افراد کو نشانہ بنایا گیا

غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کے دوران منگل کے روز کم از کم 68 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں اکثریت ان افراد کی تھی جو امداد حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسل نے بتایا کہ خان یونس کے قریب امدادی مرکز کے باہر 30 افراد کو اسرائیلی فائرنگ سے نشانہ بنایا گیا، جو بھوک اور افلاس سے بچنے کے لیے امداد کے منتظر تھے۔

ترجمان کے مطابق مزید 20 افراد شمالی غزہ میں زکیم بارڈر کراسنگ کے قریب اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوئے، جب کہ 100 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔ زکیم کراسنگ وہی جگہ ہے جہاں حالیہ ہفتوں میں کچھ امدادی ٹرک داخل ہوئے تھے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان کے فوجیوں نے جنوبی غزہ کے مورگ کاریڈور میں "متوجہ ہونے والے لوگوں کی جانب صرف وارننگ شاٹس فائر کیے تھے"، اور ان کے پاس "جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں"۔

اس واقعے سے غزہ میں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کے درمیان انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔
 

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کیخلاف تجارتی پابندیوں کا سلووینیا کیجانب سے باقاعدہ آغاز
  • نیتن یاہو کی اہلیہ و بیٹے کیجانب سے اسرائیلی آرمی چیف پر ایک مرتبہ پھر شدید تنقید
  • عرب و یہودی مظاہرین کا غزہ کی سرحد پر بھرپور احتجاج
  • اسرائیل نے بیت المقدس کے مفتی اعظم پر پابندی لگادی
  • صیہونی سیاستدان کیجانب سے اسرائیلی معیشت کو مفلوج کردینے کی کال
  • غزہ پٹی میں امدادی ٹرک الٹنے سے 20 فلسطینی ہلاک، سول ڈیفنس
  • اسرائیلی حملے میں غزہ میں 68 فلسطینی شہید، خان یونس میں امداد کے منتظر افراد کو نشانہ بنایا گیا
  • غزہ کے مقبوضہ فلسطین سے الحاق کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، مصر کی وارننگ
  • نوجوان امریکیوں نے خود کو اسرائیل سے دور کر لیا ہے, سابق صیہونی وزیراعظم