عظمی بخاری نے پی ٹی آئی کی 14اگست کی احتجاج کی کال کو افسوسناک قرار دیدیا WhatsAppFacebookTwitter 0 7 August, 2025 سب نیوز

لاہور (سب نیوز)وزیراطلاعات پنجاب عظمی بخاری نے پی ٹی آئی کی چودہ اگست کی احتجاج کی کال افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بار جشن آزادی پر کسی سیاسی جماعت کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ جب بھی پاکستان بہتری کی جانب گامزن ہوتا ہے تو فسادی گروپ سرگرم ہوجاتا ہے، فسادیوں کو ملکی ترقی اور سفارتی کامیابیوں سے جلن ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ کسی کو 14 اگست کو اپنے گندے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس بار جشن آزادی پر کسی سیاسی جماعت کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ عمران صاحب اس وقت سے جنرل عاصم منیر کے دشمن بنے جب سے انہوں نے بشری بی بی کی کرپشن کی نشاندہی کی تھی۔
تحریک انصاف کے احتجاج سے متعلق عظمی بخاری نے کہا کہ ہم تو پی ٹی آئی ورکرز کا انتظار کرتے رہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں لیکن ان کے لیڈر ان تو خود پولیس ویگنوں میں بیٹھتے رہے۔وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا تھا کہ 7 اگست سے پورا ہفتہ معرکہ حق یوم آزادی منائیں گے اور 14 اگست کا پلان یہ ہے کہ اس بار مختلف جشن آزادی ہوگا۔
دوسری جانب، صوبائی وزیر رامیشن سنگھ اروڑا کا کہنا تھاکہ وزیر اعلی پنجاب کا ویژن ہے کہ اقلیت سر کا تاج ہیں ان کا احساس کمتری ختم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے قومی پرچم میں اقلیت کے رنگ کے بغیر پاکستان کا جھنڈا مکمل نہیں اقلیتیں سرکاتاج ہیں اور وہ قوتیں جو کہتی ہیں اقلیت محفوظ نہیں تو بتا دینا چاہتے ہیں اقلیت محفوظ اور بہت خوش ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپارلیمنٹ کا حصہ رہیں گے، ضمنی الیکشن سے متعلق پہلے عمران خان سے بات کریں گے،بیرسٹر گوہر پارلیمنٹ کا حصہ رہیں گے، ضمنی الیکشن سے متعلق پہلے عمران خان سے بات کریں گے،بیرسٹر گوہر راولپنڈی واقعہ، جرگے کے سربراہ عصمت اللہ کا خاتون کو خود قتل کرنے کا انکشاف عوام ہو جائیں ہوشیار،سی ڈی اے نے کر دیا خبردار، 99ہاوسنگ سوسائیٹرز کو غیر قانونی قرار دیدیا گیا،مالکان کے نام ای سی ایل میں.

.. ضلعی انتظامیہ اور سی ڈی اے بلڈنگ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کا مشترکہ آپریشن،بلڈنگ کوڈ خلاف ورزی پرہاسٹل سٹی میں 30بلڈنگز سیل ملک ریاض کے گرد نیب کا گھیرا مزید تنگ بحریہ ٹاون کی جائیدادوں کی نیلامی کا عمل شروع،تین جائیدادیں 226کروڑ سے زائد میں نیلام کراچی ملک کا معاشی حب ہے، یہاں جدید عدالتی نظام کا قیام اہم ہے، چیف جسٹس TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی

پڑھیں:

ڈیم، ڈیم، ڈیماکریسی ( حصہ دوم)

یہ تو تاریخ سے صاف صاف ثابت ہے کہ دور چاہے کوئی بھی رہا ہے، ملک کی بھی کوئی تخصیص نہیں، قوم ونسل تک بھی نہیں، جہاں جہاں جب بھی کوئی ’’حکومت‘‘ ہوتی ہے وہ اس محدود اشرافیہ میں سے ہوتی ہے، اس خطے میں پہلی بار ’’آریا‘‘کے نام سے جو خانہ بدوش آئے وہ بھی اقلیت میں تھے، اس کے بعد ایرانی، عرب، ترک، مغل جو بھی آئے اقلیت میں تھے، انگریز بھی اقلیت تھے اوراب جو حاکم اشرافیہ ہے، وہ بھی اقلیت میں ہوتی ہے۔

اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ سامنے دو اور دو چار جیسی بات ہے کہ اس میں اگر چار امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹ بھی چار ہزار ہوں تو ان میں اگر کوئی ایک ہزار ایک ووٹ لے تو کامیاب ہوتا ہے جب کہ ایک کم تین ہزار ووٹ اس کے مخالف پڑے ہوتے ہیں وہ سب گئے باڑ میں، اور ایک ہزار ایک آئے اقتدار میں۔ یہ اقلیت کی حکومت ہوتی یا نہیں۔ آج تک جتنے بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں اور حکومت کرتے رہے ہیں، ان میں بہت کم حکومتوں کے کل ووٹوں میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے ہوں گے لیکن یہ وہی ایک ووٹ کی برتری کی حکومت اقلیت ہی کی حکومت ہوتی ہے، یہ جو ہمارے جدید تر بانی کے ’’طوطے‘‘ آئے ہیں اور مینڈیٹ، مین ڈیٹ کر رہے ہیں۔

ان میں کسی نے بھی کسی پچاسی فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے ہیں اور وہی سلسلہ چل رہا ہے کہ مخالف ووٹ تقسیم ہوئے اور بانی کی بے وقت ’’شہادت‘‘ بھی کام آئی، اگر اسے بے وقت شہید نہیں کیا گیا ہوتا اور وہ اپنی ٹرم پورا کرتا تو الیکشن میں لوگ اس پر تھو تھو کرتے کیوں کہ اس نے اوراس کی حکومت نے اور اس کی پارٹی نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔

خیر اندر کی گہری باتوں میں الجھے بغیر یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اس ملک میں ہمیشہ اقلیت ہی حکومت کرتی رہی ہے، ایک بار سوئے اتفاق سے اکثریت چونکہ ناپسندیدہ تھی اس لیے ملک ہی کو توڑ کر اقلیت کو حکومت دی گئی۔ یہ اقلیت کا اکثریت پر حکومت کرنے، اس کی کمائی کھانے اور غلام بنانے کا سلسلہ بہت پرانا ہے، یہ اس وقت سے ہے کہ جب کسی نامعلوم زمانے میں، کسی نامعلوم مقام پر اور کسی نامعلوم طریقے پر ’’ہم‘‘ اور ’’میں‘‘ یا جن وانس یا آدم وابلیس کا وہ واقعہ ہوا تھا جس میں ابلیس نے ’’میں‘‘ کا برتری کا دعویٰ کیا اور اس زمانے سے لے کرآج تک یہ دونوں یعنی ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ دونوں ایک دوسرے کے مقابل چلے آرہے ہیں، ان کاپورا ’’شجرہ‘‘ کچھ یوں ہے ۔

 گوشت خور… سبزی خور

جن… انس

شکاری… زرعی

جانورپال… کاشت کار

صحرائی… مدنی

خانہ بدوش… بستی والا

ڈاکو… لٹنے والا

محافظ… آدمیہ

حکمران… محکوم

اشراف… عوام

بہت کچھ بدلا، نام بدلے، مقام بدلے، ہتھیار بدلے، طریقے بدلے، عقیدے بدلے، نظرئیے بدلے لیکن طبقے وہ ہیں جن میں سے ایک کے سر ے پر خاکی آدم اور دوسرے سرے پر ناری ابلیس کھڑا ہے۔ ناری اور خاکی کے آپ کچھ بھی معنی نکالیں لیکن ایک معنی یہ ہیں اور یہی معنی ثابت شدہ بھی ہیں کہ گوشت خور شکاری کو جب پتھرکا ہتھیار تراشتے ہوئے ’’آگ‘‘ جیسی انقلابی قوت ملی تو اس وقت آج کی ’’ایٹمی قوت‘‘ تھی اور اس پر برتری کا دعویٰ بھی ویسا ہی تھا جیسے آج کے ایٹمی ممالک کو ہے، اس کے مقابل سبزی خوروں کے پاس کچھ بھی نہ تھا چنانچہ گوشت خور ناریوں نے غلہ خور خاکیوں کو کوہستانی باغوں سے نکالنا شروع کیا، وہ کیا کرتے؟ کہ نہ ان کے پاس کوئی ہتھیار تھا، نہ جارح مزاج تھے، نہ لڑائی کی خوبو رکھتے تھے۔

 اس لیے وہی کیا جو کمزور لوگ کرتے ہیں، ہجرت کر کے نیچے کے میدانی علاقوں میں زراعت کار یا دوسرے معنی میں خاکی زمین زادے بنے، ان کی محنت رنگ لائی اور زمین سے رزق نکال کر خوشحال ہوگئے، پیچھے سے ظالم سنگدل اور مسلح ناری بھی اتر آئے جو اب جانور پال صحرائی اور خانہ بدوش بن چکے تھے۔ پھر ایک طویل زمانہ یوں گزرا کہ یہ وحشی خانہ بدوش صحرائی، زرعی اور مدنی لیکن غیرمسلح اور امن پسند کو لوٹ لیتے تھے، مقابلے میں خاکیوں کے پاس نہ ہتھیار تھے، نہ جنگ جویانہ مزاج رکھتے تھے، زیادہ سے زیادہ دیواریں بنا سکتے تھے۔ یہ طویل زمانہ گزرا تو ذہنی ارتقاء بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا چنانچہ لٹیرے نے سوچا لوٹ کر واپس جانے کی کیا ضرورت ہے، ہتھیار لے کر ان کے سر پر کیوں نہ بیٹھا جائے چنانچہ اس نے اپنا نام بدل کر لٹیرے سے ’’محافظ‘‘ رکھ لیا اور گائے کو کھوہ کر کھانے کی بچائے چوہ کر کھانے لگا، یہی آج کی اشرافیہ ہے، حیرت انگیز طور پر اب بھی آتشی اور ناری پتھر تراشتے وقت جو آگ اسے ملی تھی وہ ہمیشہ اس کا ہتھیار رہی ہے۔

پتھر کے زمانے کے بعد، دھاتوں کے ہتھیار بھی آگ کی مدد سے تیار ہوتے تھے پھر ’’لغت‘‘ بھی آگ تھی، بارودی ہتھیار بھی آگ تھے اور آج کے ایٹمی ہتھیار بھی آگ ہیں اور یہ ہمیشہ اشرافیہ کے قبضے میں رہتی ہے، اصل حکومت اب بھی آتشیں ہتھیاروں کے زور پر کی جاتی ہے، یہ جمہوریت، آئین، قانون وغیرہ صرف باتیں ہیں۔ یوں کہیے کہ ’’رادھا‘‘ آج بھی ان کے آنگن میں نچائی جاتی ہے جن کے پاس نومن تیل ہوتا ہے اور یہ تیل پچاسی فیصد کنوؤں سے یا کولہوؤں سے نکالا گیا ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حوزہ ہائے علمیہ ایران کی جانب سے سوڈان کے افسوسناک واقعات کی سخت مذمت
  • سیلاب متاثرین میں 10 ارب روپے سے زاید تقسیم کر دیے، پنجاب حکومت
  • کاش ایسی عینک بن جائے جو اڈیالہ کے مجاوروں کو کے پی کی صورتحال دکھا سکے، عظمیٰ بخاری
  • مریم نواز سب سے زیادہ منصوبے شروع اور مکمل کرنے والی وزیرِاعلیٰ ہیں، عظمیٰ بخاری
  • مریم نواز سب سے زیادہ منصوبے شروع اور مکمل کرنیوالی وزیرِاعلیٰ، عظمیٰ بخاری
  • 50 لاکھ گھر اور 1 کروڑ نوکریوں والے سارے وعدے جھوٹے تھے: عظمیٰ بخاری
  • 26ویں آئینی ترمیم قبول کی نہ 27ویں کریں گے: حافظ نعیم
  • پنجاب میں شفاف منصوبے اور فلاحی اقدامات جاری ہیں، عظمیٰ بخاری
  • اپنی چھت اپنا گھر پراجیکٹ کے تحت روزانہ 290 گھر بن رہے ہیں:عظمیٰ بخاری
  • ڈیم، ڈیم، ڈیماکریسی ( حصہ دوم)