Express News:
2025-08-10@23:20:51 GMT

کپڑوں کا بینک

اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT

اپنے ملک کی برائیاں تو ہر دم سننے کو ملتی ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم اس کام سے ایک منفی لذت کشید کرتے ہیں۔ یہ بات تو بالکل درست ہے کہ مادر وطن میں خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ عرض کرنے میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اگر اچھائیاں تلاش کرنے کی سعی کی جائے تو وہ بھی ان گنت ہیں۔ سماج کے اکثر لوگ بہترین ہیں۔ ان کی اچھائی ہر منفی نکتہ پر غالب ہے۔

اس کا عموماً ذکر نہیں ہوتا۔ ایک اور سنجیدہ بات بھی ہے۔ لوگوں کی واضح اکثریت ‘ اپنی اپنی سطح پر کچھ نہ کچھ بہتر کام کرنے کی تڑپ ضرور رکھتی ہے۔ اس میں عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں ۔ دوسروں کی کیا بات کروں ۔ بذات خود‘ طویل عرصہ‘ اس تذبذب میں مبتلا رہا کہ کون سا ایسا راستہ اختیار کروں‘ جس سے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے میں مدد ملے۔ ذاتی طور پر خاموش طبع انسان ہوں۔ طبیعت کے برعکس بہت سے لوگوں سے مشورہ کیا۔

اچھی باتیں بھی سننے کو ملیں۔ مگر‘ اکثر لوگ‘ دوسروں کی مدد‘ ذاتی شان و شوکت کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کسی کی نیت پر شبہ نہیں کر رہا۔ذاتی یقین ہے کہ نیکی یا اچھے کام کاڈھنڈھوراا نہیں پیٹنا چاہیے۔ کسی پسے ہوئے مرد یا خاتون کی دل سے مدد کر رہے ہیں۔ تو اسے سوشل میڈیا کی زینت نہ بننے دیں۔ کوئی ایسی تصویر نہ بنوائیں، جس سے چہرے پر محض ایک وہیل چیئر دینے پر مسرت کے جذبات ہوں ‘ اور جس معذور کو یہ سہولت مہیا کی جا رہی ہے، اس کا سر جھکا ہوا نظر آئے۔ دراصل‘ لوگوں میں آسانیاں پیدا کرنا‘ بذات خود ایک انعام ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے آپ کو تمانیت اور عزت کی تھپکی ہے۔ جس کی لذت کا اندازہ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔

چار برس پہلے کی بات ہے۔ چند پرانے دوستوں کے ساتھ باہر کھانے کا پروگرام بنا۔ لاہور کے گلبرگ میں ان گنت ریستوران ہیں۔ ہم سات آٹھ دوست تھے۔ بوفے میں چالیس پچاس کھانے آویزاںتھے۔ لذت دہن کمال تھی ۔ بل تقریباً پچاس ہزار روپے آیا۔ میزبان کے لیے‘ یہ رقم بڑی معمولی سی تھی۔ کیونکہ وہ صاحب ثروت انسان ہیں۔

بہر حال میں سوچ میں پڑ گیا۔ اتنے پیسوں میں تو متعدد‘ مستحق انسانوں کو دو چار ہفتے کھانا مہیا کیا جا سکتا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ میرے یہ تمام دوست کاروبار سے منسلک ہیں۔ اور دولت میں کھیل رہے ہیں۔ اس کھانے کے چند ہفتے کے بعد ‘ تمام دوستوں کو مدعو کیا۔ وقت مقررہ پر جب سارے آ گئے۔ تو انھیں‘ ڈیفنس لاہور کے نزدیک ایک گاؤں کے تندور پر لے گیا۔ ڈیسپوزیبل پلیٹیں پہلے لے چکا تھا۔ پانی کی بوتلیں بھی موجود تھیں۔ اس تندور پر مزدور‘ راج مستری اور اسی سطح کے پچیس تیس لوگ اطمنان سے کھانا کھا رہے تھے۔

ہم سارے چارپائی پر بیٹھ گئے۔ بڑے سکون سے سادہ سا کھانا کھا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ آٹھ بندوں کے کھانے کابل صرف سترہ سو روپیہ آیا۔ دال اتنی لذیذ تھی کہ معلوم پڑتاتھا کہ شاید اس سے پہلے‘ دال نہیں بلکہ کچھ اور ہی کھاتے رہے ہیں۔ یقین فرمائیے۔ کسی بھی دوست نے برا نہیں منایا۔ اب تو یہ ریت سی بن گئی ہے کہ جب بھی ہم تمام دوستوں نے ملنا ہو‘ گپیں لگانی ہوں تو ہم کسی ڈرائیور ہوٹل یا تندور پر جا کر کھانا کھاتے ہیں۔ اس روٹین کو تقریباً چار برس ہو چکے ہیں۔

 سب کچھ عرض کرنے کا ایک مقصد ہے۔ ہم میں سے اکثریت ‘ حد درجہ مصنوعی زندگی گزار رہے ہیں۔ زندگی کو سادگی کی طرف لے کر آئیں۔ تصنع سے نفرت فرمائیے۔ مقابلہ بازی سے مکمل پرہیز کیجیے۔ یقین فرمائیے۔ آپ کی زندگی سکون میں آ جائے گی۔ اب ذرا آگے چلیے۔ دوسرے لوگوں کے لیے آسانیاں کس طرح پیدا کی جائیں۔ ذہن میں رہے کہ اس اچھے کام کا انحصار آپ کے صاحب ثروت ہونے میں نہیں ہے۔بلکہ آپ کی ذہنی سوچ پر ہے۔ دولت‘ قدرت کا ایک انعام ضرور ہے۔ مگر یہ حاصل ِزندگی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ ہاں یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ اگر آپ اپنے مال و دولت کو لوگوں کے مسائل حل کرنے پر صرف کریں ۔ تو اس شخص کی نسبت زیادہ پھیلاؤ سے کام کر سکتے ہیں۔

جس کے وسائل محدود ہیں۔ پر یہ پھر خدائی فیصلہ ہے۔ کہ اگر ایک شخص ‘ حد درجہ کم وسائل میں بھی ‘ لوگوں کے لیے کچھ بہتر کرتا ہے تو اس کا اجر‘ کتنا کثیر ہو گا؟ س کو صرف اور صرف خدا کی مرضی پر چھوڑ دیجیے۔ انسانوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کے لیے آپ کو وسائل سے زیادہ ‘ پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔ شاید آپ کو میری اس بات پر بالکل یقین نہ آئے۔ مگر سچ یہی ہے۔ اپنے گھر میں ذاتی کپڑوں پر نظر دوڑائیے۔ اندازہ ہو گا کہ بہت سے ایسے لباس ہیں۔ جو آپ کی نظر سے اوجھل ہیں۔ اسے عرصے سے استعمال ہی نہیں کر رہے۔ ان تمام کپڑوں کو جمع کیجیے۔

انھیں دھلوائیے‘ لفافے میں پیک کیجیے ۔ باہر جایئے۔ آپ کی دانست میں کوئی بھی ایسا شخص نظر آئے۔ جو مستحق ہو‘ اسے کپڑوں کا ایک جوڑادے دیجیے۔ کسی صلہ کی توقع مت کریں۔ اجنبی شخص کے چہرے پر جو وقتی مسکراہٹ نمودار ہو گی۔ وہی آپ کا زاد راہ ہے۔ یہ بہت آسان کام ہے۔ اس کے لیے اضافی وسائل بھی درکار نہیں ہیں۔ خواتین کو نئے کپڑے بنانے کا فطری شوق ہے۔ یہ جبلت ‘انھیں قدرت نے ودیعت کی ہے۔ اکثر خواتین ‘ فرامو ش کر جاتی ہیں۔ کہ ان کی الماری میں کتنے پرانے سوٹ موجود ہیں جو عرصے سے انھوں نے زیب تن نہیں کیے۔ گمان ہے۔

کہ پچاس سے ساٹھ فیصد ملبوسات ایسے نکل آئیں گے۔ جنھیں کافی مدت سے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ بلکہ معلوم ہی نہیں کہ یہ بھی موجود ہیں۔ فیصلہ فرمایئے ۔ جو ملبوسات ‘ آپ کی ضرورت سے زیادہ ہیں ‘ جنھیں فراموش کیا جا چکا ہے۔ انھیں جمع کیجیے۔ صاف کیجیے ۔ اور پھر کسی بھی مستحق خاتون کو تحفتاً دے دیجیے۔ اس بہترین عطیہ سے جو سکون آپ کو خدا کی طرف سے نصیب ہو گا، اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ امیر‘ متوسط ‘ بلکہ ہر سطح کے مرد اور خواتین‘ یہ سادہ سا کام کر سکتی ہیں۔ یہ کئی معاشرتی اور معاشی مشکلات کا حل بھی ہے۔ ذاتی بات بھی عرض کرتا چلوں۔ کیونکہ یہ نہ ہو کہ آپ کے ذہن میں آئے کہ کیا میں بھی یہ کر رہا ہوں یا صرف اور صرف لفاظی ہے۔

سرکاری اور نجی سطح پر‘ ان گنت ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔شرٹس‘ جوتے‘ پرفیوم اور استعمال کی دیگر اشیاء غیر ممالک سے خریدتا تھا۔ ٹائیاں جمع کرنے کا شوق بھی تھا۔ دس برس پہلے‘ ذہن میں ایک نایاب فکر نمودار ہوئی۔ جو پختہ درپختہ ہوتی چلی گئی۔ مکمل طور پر سادگی کی طرف آ گیا۔ قیمتی لباس پہننے ختم کر ڈالے۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ بیش قیمت ترین ملبوسات ‘ جوتے اور ٹائیاں‘ ان لوگوں اور نوجوانوں میں تقسیم کر دیں جن کو انھیں‘ مجھ سے زیادہ ضرورت تھی۔

اب دو چار کرتے شلوار ہیں۔ تین چار عام سے کوٹ پینٹ ہیں۔ ضرورتیں محدود سے محدود تر کر دی ہیں۔یہ نہیں کہ اجلے کپڑے زیب تن نہیں کرتا۔ صاف ستھرے لباس استعمال کرتا ہوں۔ آج ذہنی طور پر حد درجہ آسودہ اور مطمئن ہوں۔ یہ ذاتی تجربہ اگر سہل نہ ہوتا ۔ تو شاید میں سادہ زندگی کی طرف کبھی مائل ہی نہ ہو پاتا۔اس معمولی سے ذاتی تجربہ نے کم از کم میری زندگی کو بہتری کی طرف تبدیل کردیا۔

اب اسی نکتے کو یکسر دوسری طرح دکھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ پورے ملک کے لوگوں سے مخاطب ہوں۔ بچے‘ بوڑھے ‘ نوجوان‘ بچیاں ‘ گھریلو خواتین‘ ورکنگ وومن‘ سب سے گزارش کررہا ہوں۔ ذاتی سطح پر تو آپ فالتو لباس تقسیم ضرور کیجیے۔ مگر اس کو ایک نظام سے مربوط فرما دیجیے۔ جس شہر‘ قصبہ‘ دیہات میں قیام پذیر ہیں۔ رشتہ داروں‘ دوستوں‘ سہیلیوں کو جمع کیجیے۔ بتایئے کہ آپ کو پرانے کپڑوں کی ضرورت ہے۔ مدعا بیان کیجیے کہ مقصد صرف اور صرف حاجت مند لوگوں کو صاف ستھرا لباس مہیا کرنا ہے۔ اس کوشش کو آپ کوئی نام بھی دے دیجیے۔ ’’کلاتھ بینک‘‘ کپڑوں کا بینک یا کوئی بھی دوسرا نام۔کسی بھی نام میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ اس بینک کو محلہ کی سطح سے شروع کیجیے۔

ہو سکتا ہے کہ چند لوگ‘ آپ کا مذاق اڑائیں۔ انھیں ٹھٹھہ لگانے دیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدا پر پختہ یقین فرمائیے۔ معمولی سا نظر آنے والا کام‘ پورے ملک کے سفید پوش لوگوں کو تن ڈھانپنے کا باعزت ذریعہ بن جائے گا۔ اور ہاں‘ کوشش کیجیے ۔ کہ کپڑوں کو تقسیم کرتے وقت کوئی تصویر نہ بنائیں۔ اسے سوشل میڈیا کی زینت نہ بننے دیں۔ یہ کام خدا کی راہ میں کرنا ہی صائب ہے۔ بے خوف ہو جایئے۔

قدرت ‘ آپ کو ‘ اس کوشش میں ایسے تھامے گی‘ کہ ششدر رہ جائیں گے۔اس اس انہونی جگہ سے خدا‘ وسائل اور عظم عطا فرمائیں گے جن کے متعلق آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ویسے تو یہ کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں نکمی‘ نکھٹو اور بے درد حکومتوں سے کسی قسم کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے آج ہی پختہ ادارہ فرمائیے۔ لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کی کوشش تو کیجیے۔ پھر دیکھیے ‘ رب العزت کی ذات آپ کے لیے کون کون سے دروازے کھولتی ہے۔ یقین فرمائیے کہ قدرت کی فیاضی کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یقین فرمائیے میں آسانیاں رہے ہیں نہیں کر کی طرف کے لیے

پڑھیں:

جو پارٹی چھوڑ کر گیا، اس کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، خالد مقبول

چیئرمین متحدہ قومی موومنٹ خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے جو اس بار پارٹی چھوڑ کر گیا، اس کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا اور جو جماعت میں اپنے لیے کام کر رہا ہے، وہ اپنا قبلہ درست کرے۔

اورنگی ٹاؤن میں ایم کیو ایم پاکستان کے تحت جشنِ آزادی کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں پارٹی چیئرمین خالد مقبول صدیقی، ایم کیو ایم رہنما امین الحق، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ 

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ماہ مئی میں پاک افواج نے بھارت کا ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر ختم کر دیا اور دنیا اب بھارت کو مختلف نظر سے دیکھ رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ 2018 میں الیکشن ہم جیتے لیکن نتیجہ کسی اور کے نام آیا، سندھو دیش کے خواب کو ہم ہی خاک میں ملا سکتے ہیں، اداروں سے مطالبہ ہے کہ سندھ میں ایمانداری سے مردم شماری کرائی جائے تاکہ مزید صوبوں کی بات ہم نہیں کوئی اور کرے۔

چیئرمین متحدہ نے اپنی جماعت کے لوگوں کو آگاہ کیا کہ اس بار جو پارٹی چھوڑ کر گیا اس کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • جو پارٹی چھوڑ کر گیا، اس کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، خالد مقبول
  • جرمن چانسلر کا غزہ میں فوجی امداد نہ دینے کا اعلان
  • ملک میں آئین اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں ، انتقامی کارروائیاں عروج پر ہیں ، علی امین گنڈاپور
  • کوئی فرق نہیں!
  • وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو آبادکاری میں عالمی توجہ کی ضرورت
  • کوئی نیلسن منڈیلا نہیں
  • یہ دہشت گردی نہیں ہے
  • میری کہانی: غزہ کے کھنڈروں میں آس و یاس کی داستان
  • بحریہ ٹاؤن پشاور: کیا 60 ہزار لوگوں کے پیسے ڈوبنے کا خدشہ ہے؟