مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی حکومتوں کا موازنہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف اکثر و بیشتر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پی ٹی آئی کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کے دورِ حکومت میں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈرون حملے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران میں ہی 2015 میں بند ہو گئے تھے۔
اس مناسبت سے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ 2013 میں جب مسلم لیگ ن کو اقتدار ملا تو پاکستان کن بحرانوں سے دو چار تھا اور 2018 میں جب پی ٹی آئی کو حکومت ملی تو صورتِ حال کیا تھی۔
2013میں جب مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان مختلف بحرانوں کا شکار تھا۔ جن میں توانائی کا شدید بحران، معیشت کی نازک حالت، بدترین دہشت گردی، ڈرون حملے، غیر ملکی کھیلوں کی بندش، یومِ پاکستان پریڈ کا التوا اور کراچی میں روزانہ ٹارگٹ کلنگ یہ سب اس دور کی تلخ حقیقتیں تھیں۔
2013 میں ملک بھر میں بجلی کی روزانہ 12 سے 16 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ معمول ہوا کرتی تھی، صنعتی پیداوار مفلوج تھی، جبکہ گھریلو صارفین اور چھوٹے کاروبار ابتری کا شکار تھے۔ قدرتی گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے تھے، جس سے گھریلو، صنعتی اور کمرشل صارفین سب متاثر تھے۔
ملک کے طول و عرض میں خودکش حملے ہوا کرتے تھے، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کی آماجگاہیں تھیں۔ پاکستانی حکومت کی رِٹ کو چیلنج کیا جاتا تھا۔ شہری علاقوں میں آئے دن کے خود کش حملوں کی وجہ سے خوف اور بے یقینی کا عالم تھا۔ ڈرون حملے پاکستانی سر زمین پر غیر ملکی مداخلت کی علامت تھے۔ 23 مارچ کی پریڈ 2008 سے بند تھی۔
2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان بین الاقوامی کھیلوں سے کٹ چکا تھا۔ کسی کھیل کی کوئی ٹیم پاکستان آنے پر آمادہ نہ تھی۔ کھیلوں کے میدان ویران تھے اور پاکستان کھیلوں کے عالمی نقشے سے غائب ہو رہا تھا۔
کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور گینگ وارز جاری تھیں۔ ایک ایسا شہر جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے مفلوج ہو چکا تھا۔ سیاسی و لسانی تصادم نے شہر کو خون میں نہلا دیا تھا۔
نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے حالات کو بہتر بنانے کے لیے واضح وژن اور موثر پالیسیوں پر عمل کیا۔ مسلم لیگ ن نے سی پیک کا آغاز کیا، جو 3 فیزز پر مشتمل منصوبہ تھا:
پہلا مرحلہ (2015–2020):Early Harvest Projects
بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر ) پر توجہ
پانی، شمسی توانائی اور کوئلے سے بجلی کے منصوبے
سڑکیں، موٹرویز، اور گوادر پورٹ کی بحالی
ابتدائی انڈسٹریل زونز کی منصوبہ بندی
دوسرا مرحلہ (2021–2025):صنعت کاری اور توسیع
خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کا قیام
صنعتی ترقی، ٹرانسپورٹ لنکس میں توسیع
گوادر فری زون کی ترقی
زراعت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں شراکت
تیسرا مرحلہ (2026–2030):پائیدار ترقی اور علاقائی انضمام
پصاف توانائی، ماحول دوست منصوبے، ماحولیاتی تحفظ
علاقائی اشتراک
پاکستان کو وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، اور چین سے تجارتی لحاظ سے جوڑنا
ڈیجیٹل اور سمارٹ انفراسٹرکچر:
فائبر آپٹک نیٹ ورک، ڈیجیٹل اکنامی، ٹیکنالوجی زونز
ہیومن ڈویلپمنٹ اور تعلیم:
تکنیکی تربیت، اعلیٰ تعلیم، روزگار کے مواقع
گوادر کو مکمل بین الاقوامی تجارتی مرکز بنانا
گہرے سمندر کی بندرگاہ، ایئرپورٹ، ریفائنریز، لاجسٹک ہب
مسلم لیگ ن نے اپنے دور حکومت میں پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کیا،
توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے بھکی، بلوکی، اور حویلی بہادر شاہ جیسے جدید ترین RLNG پاور پلانٹس قائم کیے گئے۔
ساہیوال کول پاور پلانٹ اور قائداعظم سولر پارک جیسے منصوبے مکمل کیے گئے، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبہ جو ایک دہائی سے تاخیر کا شکار تھا مکمل ہوا۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے گئے پاک فوج کے ساتھ مل کر آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو توڑا گیا۔
وزیرستان سمیت سابق فاٹا میں ریاست کی رِٹ بحال ہوئی 2015 میں پاکستان میں آخری ڈرون حملہ ہوا، اس کے بعد سے ڈرون حملے بند ہو گئے، جو مسلم لیگ ن کی کامیاب سفارت کاری اور سیکیورٹی پالیسی کا نتیجہ تھے۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کی پالیسیوں اور اقدامات کی بدولت 2015 میں یومِ پاکستان کی پریڈ دوبارہ بحال ہوئی، اسی سال زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا جو عالمی کرکٹ کی واپسی کی نوید تھا۔
پاکستان سپر لیگ (PSL) کا آغاز ہوا اور چند سالوں میں اس کے فائنلز لاہور اور کراچی میں ہونے لگے۔
نیلم جہلم کے علاوہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ، لواری ٹنل، اور کچھی کنال جیسے تاخیر شدہ منصوبے مکمل کیے گئے، جنہوں نے قومی وسائل کے ضیاع کو روکا۔
جب 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اسے ایسا پاکستان ملا جس میں بجلی بحران پر قابو پا لیا گیا تھا۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی تھی، دہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا تھا، ڈرون حملے بند ہو چکے تھے، عالمی کرکٹ واپس آ چکی تھی، کراچی میں امن بحال ہو چکا تھا۔
سی پیک کے انفراسٹرکچر اور بجلی کے بڑے منصوبے مکمل ہو چکے تھے،
سی پیک کا دوسرا مرحلہ پی ٹی آئی کے دور میں آگے بڑھنا تھا اور 9 خصوصی اقتصادی زونز سے قائم کئے جانے تھے، لیکن بدقسمتی سے کسی ایک اقتصادی زون پر کوئی کام نہیں ہوا اور سی پیک عملاً معطل رہا۔
اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن نے ایک بحران زدہ پاکستان کو سنوارا اور جب اقتدار چھوڑا تو ایک بہتر پُرامن اور مستحکم ملک چھوڑ کر گئی۔
تحریک انصاف کو ن لیگ کے دور کی پالیسیوں، منصوبوں، اور سیکیورٹی کامیابیوں کو آگے بڑھانا چاہیے تھا، لیکن وہ مخالفین سے انتقام میں مصروف ہوگئی۔
پاکستان میں دہشت گردی کی موجودہ لہر کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت کے آخر میں کیے گئے اُن فیصلوں کا بڑا حصہ ہے، جن کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے عوض سو سے زائد دہشت گردوں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کیا گیا اور سینکڑوں جنگجوؤں کو افغانستان سے لا کر پاکستان میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی اور یہ غیر دانشمندانہ اقدامات آج سیکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج اور قوم کے لیے شدید خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی مسلم لیگ ن مسلم لیگ ن نے مسلم لیگ ن کی تحریک انصاف کراچی میں ڈرون حملے پی ٹی آئی کیے گئے چکا تھا اور سی کے دور کے لیے سی پیک
پڑھیں:
خیبر پختونخوا، بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کی بجائے انتخابات کرانے کا فیصلہ
پشاور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 اگست ۔2025 )خیبرپختونخوا حکومت نے بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کی بجاے نئے بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم نئے بلدیاتی انتخابات دیگر صوبوں سے مشروط کیے گئے ہیں دوسری جانب بلدیاتی نمائندوں کی تنظیم لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے بھی مقررہ وقت میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے.(جاری ہے)
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات 2 مرحلوں میں کرائے گئے تھے پہلے مرحلے کے انتخابات 19 دسمبر 2021 کو ہوئے تھے لیکن بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل 31 مارچ 2022 کو ہوئی جبکہ دوسرے مرحلے کے انتخابات پہاڑی علاقوں میں جون 2022 کو ہوئے اس طرح میدانی علاقوں میں بلدیاتی حکومتیں 31 مارچ 2026 اور پہاڑی علاقوں میں جون 2026 کو تحلیل ہوجائیں گی. صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کے مطابق بلدیاتی حکومتوں کی مدت میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے اگر پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے تو صوبائی حکومت بھی بلدیاتی انتخابات کرائے گی ابھی تک پنجاب میں بلدیاتی ادارے فعال نہیں ہیں. دوسری جانب لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے بلدیاتی انتخابات بروقت نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ایسوسی ایشن کے چیئرمین حمایت اللہ مایار نے کہا ہے کہ آئین کے مطابق جس تاریخ کو بلدیاتی نمائندوں نے حلف اٹھایا ہے اسی روز بلدیاتی حکومتوں کی مدت شروع ہوجاتی ہے اگر بلدیاتی حکومتیں تحلیل ہونے کے بعد بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاتے تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا. لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر انتظار خلیل کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے گئے، نہ ہی انہیں قانون کے مطابق کام کرنے دیا گیا ہے، حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کی مدت میں توسیع کی جائے اس حوالے سے وزیراعلی خیبرپختونخوا سے مذاکرات بھی جاری ہیں.