کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا احتساب شروع ہو گیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اگست 2025ء) حال ہی میں پاکستان کے انسداد بدعنوانی کے ادارے 'نیب‘ نے ملک کے بڑے ہاؤسنگ منصوبوں کے مالک ہیں ملک ریاض کے ایک ایک قریبی رشتہ دار کی کچھ جائیدادیں نیلام کی ہیں۔ یہ نیلامی اس لیے کی گئی کیونکہ ملک ریاض اور ان کے رشتہ دار 190 ملین پاؤنڈز کے کیس میں پلی بارگین معاہدے کی رقم ادا کرنے میں ناکام رہے۔
اب تک گروپ کی دو جائیدادیں نیلام ہو چکی ہیں جبکہ مزید نیلامی کے لیے تیار ہیں۔ نیب میں ملک ریاض اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کے خلاف مقدمہ بھی درج ہے، جس کے مطابق وہ کراچی، راولپنڈی اور جنگلات کی زمینوں پر قبضے میں ملوث رہے۔
بحریہ ٹاؤن کے خلاف نیب ریفرنس، کرپشن کے خلاف جنگ یا ایک اور سیاسی محاذ
القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ قانونی تقاضے پورے کرتا ہے؟
زمینوں پر قبضے کے کیس میں پیش نہ ہونے پر جنوری میں احتساب عدالت نے ملک ریاض کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
(جاری ہے)
وہ اس وقت متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور حکومتِ پاکستان نے ان کی حوالگی کے لیے یو اے ای حکومت سے رابطے کا اعلان کیا تھا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض، عمران خانکے شریک ملزم ہیں، جس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ملک ریاض سے زمین تحفے میں لینے اور 190 ملین پاؤنڈز کے مالی معاملے میں سہولت دینے پر بالترتیب 14 اور 10 سال قید کی سزا ملی۔
یہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی، حالانکہ اسے حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع ہونا چاہیے تھا۔اسی طرح، زمین پر قبضے کے ایک کیس میں ملک ریاض نے سپریم کورٹ سے معاہدہ کیا کہ وہ کراچی کے ضلع ملیر میں بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں موجود زمین کے عوض 460 ارب روپے ادا کریں گے۔ عدالت نے 2019ء میں یہ معاہدہ منظور کیا اور رقم کے لیے الگ اکاؤنٹ کھولا گیا، مگر بعد میں انہوں نے رقم ادا نہیں کی۔
کیا دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف بھی آپریشن ہو رہا ہے؟ان تمام کارروائیوں کے دوران یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سیکٹر کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کوئی وسیع آپریشن شروع ہو چکا ہے یا یہ کارروائی صرف بحریہ ٹاؤن تک محدود ہے؟
معروف وکیل اور نیب کے سابق اسپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کی جائیدادوں کی نیلامی نیب کے قوانین کے حساب سے قانونی ہے کیونکہ انہوں نے ایک معاہدہ کیا تھا جس پر بعد میں عمل نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایک الگ سوال ہے کہ کیا حکام کی یہ کارروائی تمام مالی بے ضابطگیوں میں ملوث اسکیموں کے خلاف بلا امتیاز ہو رہی ہے یا صرف ملک ریاض کے خلاف۔‘‘یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ڈی ایچ اے ویلی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور بحریہ ٹاؤن کا مشترکہ منصوبہ تھا، جس کے زیادہ تر متاثرین آج تک پلاٹوں کے منتظر ہیں۔ نیب نے اس معاملے پر 2018ء میں انکوائری شروع کی، مگر نتیجہ تاحال سامنے نہیں آیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے 2021ء میں ڈی ایچ اے کو لینڈ گریبنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اس نے ہائیکورٹ کی زمین پر بھی قبضہ کیا ہے۔پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے کراچی-حیدرآباد (ایم-نائن) موٹروے کے ساتھ 785 کنال سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، جن میں بحریہ ٹاؤن کی 491 اور ڈی ایچ اے سٹی کی 294 کنال زمین شامل ہے۔
بظاہر صرف ملک ریاض کے خلاف کارروائی کی ایک وجہ ان کا القادر ٹرسٹ کیس میں شریک ملزم ہونا بھی بتائی جاتی ہے۔ بریگیڈیئر حارث نواز، سابق نگران وزیرِ داخلہ سندھ، کا کہنا ہے کہ دیگر ہاؤسنگ منصوبوں میں کرپشن ہو تو ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں، مگر موجودہ کارروائی ایک خاص کیس ہے کیونکہ وہ عمران خان کے ساتھ شریک ملزم ہیں۔ ان کے بقول، ’’ملک ریاض کو القادر ٹرسٹ کیس میں پیش ہونا چاہیے تھا۔
‘‘ پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں کس طرح کی بے ضابطگیاں ہیں؟پاکستان میں یہ عام تصور ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اپنے وعدے پورے نہیں کرتیں۔ ہزارہا لوگ ایسی سوسائٹیوں سے متاثر ہیں جو عوام کو مالی نقصان پہنچا رہی ہیں، کچھ غیر موجود پلاٹ بیچ کر اور کئی وہ پلاٹ بیچ کر جن کی ترقیاتی کام مکمل نہیں کیے گئے۔ یہ مسئلہ صرف نجی سوسائٹیوں تک محدود نہیں بلکہ سرکاری اسکیمیں بھی غیر ضروری تاخیر کا شکار ہیں۔
اسلام آباد کے کئی سی ڈی اے سیکٹرز سالہا سال سے مکمل نہیں ہوئے اور پلاٹ مالکان کئی دہائیوں سے قبضے کے منتظر ہیں۔ ان میں ای-12، سی-14، سی-15 اور آئی-12 شامل ہیں، جبکہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن بھی کچھ اسکیمیں ترقی دینے میں ناکام رہی ہے، حالانکہ انہیں 10 سال سے زیادہ عرصہ پہلے فروخت کیا جا چکا ہے، جیسے اسلام آباد کے مضافات میں گرین انکلیو منصوبہ۔
کئی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز ایسی ہیں جنہیں سی ڈی اے کے مطابق غیر قانونی قرار دیا گیا ہے لیکن وہ اب بھی کام کر رہی ہیں۔ سی ڈی اے نے حال ہی میں 99 سوسائٹیز کی ایک فہرست جاری کی ہے جنہیں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، اور یہ فہرست سی ڈی اے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ غوری ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن بھی اس فہرست میں شامل ہیں، اس کے باوجود ان میں تعمیراتی کام جاری ہے اور لوگ ان سوسائٹیز میں مکانات بھی بنا رہے ہیں۔
ریئل اسٹیٹ کے بزنس سے تعلق رکھنے والے اور کمیونٹی کے ایک نمائندہ سردار طاہر محمود کہتے ہیں، ''صرف لسٹ جاری کرنا اداروں کا کام نہیں بلکہ وہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کو پنپنے کیوں دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کا نقصان کر سکیں۔‘‘
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہاؤسنگ سوسائٹیز القادر ٹرسٹ کیس پاکستان میں ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن ڈی ایچ اے سی ڈی اے کے خلاف کیس میں
پڑھیں:
پی آئی اے کو برطانیہ کے لیے آپریٹنگ پرمٹ مل گیا، پروازیں کب شروع ہوں گی؟
پاکستان ہائی کمیشن لندن نے اعلان کیا ہے کہ قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کو برطانیہ میں پروازوں کے لیے آپریٹنگ پرمٹ مل گیا ہے جس کے بعد رواں ماہ پروازوں کا آغاز کیا جائے گا۔
ہائی کمیشن کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے سول ایوی ایشن اتھارٹی یوکے کا شکریہ ادا کیا ہے جس نے فارن ایئرکرافٹ آپریٹنگ پرمٹ جاری کیا، جو پاکستان اور برطانیہ کے درمیان کمرشل پروازوں کے لیے آخری دستاویز تھا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی ہائی کمشنر کا پی آئی اے کے ساتھ یادگار سفر، تجربہ کیسا رہا؟
بیان کے مطابق پی آئی اے کو پہلے ہی تھرڈ کنٹری آپریٹر (ٹی سی او) کی منظوری مل چکی ہے اور پہلے مرحلے میں مانچسٹر کے لیے پروازیں شروع کی جائیں گی جس کے بعد برمنگھم اور لندن کے لیے بھی آپریشن بحال ہوگا۔
The Wait Is Over!
PIA resuming flights to the United Kingdom this month
The Pakistan High Commission in London @PakistaninUK is immensely pleased to announce the resumption of Pakistan International Airlines @Official_PIA flights between Pakistan and the United Kingdom this… pic.twitter.com/Ad3IhIw2jd
— Pakistan High Commission London (@PakistaninUK) October 3, 2025
یاد رہے کہ جولائی میں برطانیہ نے پاکستان کو ایئر سیفٹی لسٹ سے نکالا تھا جس کے بعد پاکستانی ایئر لائنز کو برطانیہ میں پروازوں کی اجازت کے لیے درخواست دینے کا موقع ملا۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب برطانیہ کے ڈیپارٹمنٹ فار ٹرانسپورٹ نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا ایوی ایشن سیکیورٹی معائنہ مکمل کر کے انتظامات کو عالمی معیار کے مطابق قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کے لیے پی آئی اے پروازوں کا دوبارہ آغاز اہم سنگِ میل ہے، وزیراعظم کا پابندی کے خاتمے کا خیرمقدم
پی آئی اے پر جون 2020 میں یورپی یونین، برطانیہ اور امریکا میں پروازوں پر پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ فیصلہ کراچی کے ماڈل کالونی میں ایئربس اے۔320 کے حادثے کے بعد کیا گیا تھا جس میں تقریباً 100 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس حادثے کے بعد 262 پائلٹس کو مشتبہ لائسنسز کے باعث گراؤنڈ کیا گیا تھا۔
یورپ میں پی آئی اے پر عائد پابندی نومبر 2024 میں ختم کر دی گئی تھی، جبکہ اب برطانیہ میں پروازوں کی بحالی پاکستان کی فضائی صنعت کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آپریٹنگ پرمٹ برطانیہ پاکستان پی آئی اے