بلوچستان میں یوم آزادی پر قیدیوں کی سزاؤں میں 60 دن کمی
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے یوم آزادی کے موقع پر قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کی منظوری دے دی۔ بلوچستان کی تمام جیلوں اور عدالتی حراستی مراکز کے سزا یافتہ قیدیوں کی سزا میں 60 دن کی کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ یوم آزادی پر حکومت بلوچستان کا انسانی ہمدردی پر مبنی اہم اقدام، وزیر اعلیٰ بلوچستان نے یوم آزادی کے موقع پر قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کی منظوری دے دی۔ بلوچستان کی تمام جیلوں اور عدالتی حراستی مراکز کے سزا یافتہ قیدیوں کی سزا میں 60 دن کی کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق خصوصی رعایت تمام سزا یافتہ قیدیوں پر لاگو ہوگی تاہم اس کا اطلاق سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں پر نہیں ہوگا۔ اعلامیہ کے مطابق ملکی سلامتی کے خلاف جرائم، دہشت گردی، قتل، زیادتی، اغوا، ڈکیتی یا سنگین جرائم کے قیدی بھی اس رعایت کے حقدار نہیں ہوں گے۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق رواں سال پہلے ہی خصوصی معافی پانے والے قیدی بھی اس رعایت سے مستفید نہیں ہو سکیں گے۔ ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا کہ فیصلہ کا مقصد جشن آزادی کی خوشیوں میں قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو شامل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت قیدیوں کی اصلاح اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے سہولتیں فراہم کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قیدیوں کی سزا یوم آزادی
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں صحافی مسلسل پر خطر ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں، آر ایس ایف
اگست 2019ء کے بعد سے علاقے میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا ہے، مئی 2025ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ”صحافیوں کے حقوق اور صحافتی آزادی کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ” رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز“ (آر ایس ایف ) نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صحافی مسلسل دباﺅ، دھمکی اور پرخطر ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے مطابق ”آر ایس ایف“ نے اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والے خطوں میں سے ایک ہے، اگست 2019ء کے بعد سے علاقے میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا ہے، مئی 2025ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اس دوران میر گل نامی صحافی کو سوشل میڈیا پوسٹ پوسٹ پر گرفتار کیا گیا۔ آر ایس ایف نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوجی کارروائیوں جیسے حساس موضوعات کو کور کرنے والے صحافیوں کو نگرانی، گرفتاریوں اور انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔
2019ء کے بعد سے کم از کم 20 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں ”کشمیر والا“ کے ایڈیٹر فہد شاہ بھی شامل ہیں، فہد شاہ کو تقریبا دو برس قید رکھا گیا۔ ایک اور صحافی عرفان معراج کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت 2023ء میں گرفتار کیا گیا۔ آر ایس ایف کے سائوتھ ایشیا ڈیسک کی سربراہ Célia Mercier نے کہا جموں و کشمیر میں میڈیا کے پیشہ ور افراد مستقل دھمکیوں کے ماحول میں کام کر رہے ہیں، انہیں شدید پابندیوں اور مسلسل نفسیاتی دبائو کا سامنا ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ پریس کی آزادی کا احترام کرے۔ تنظیم نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ 2022ء میں کشمیر پریس کلب کی بندش نے مقامی رپورٹرز کو پیشہ ورانہ جگہ سے محروم کر دیا اور انہیں مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔
کشمیر میں انٹرنیٹ کی پابندیاں ایک مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، خدمات کو 2G تک محدود کر دیا گیا۔ فوجی کارروائیوں کے دوران انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جاتی ہے۔ آر ایس ایف نے پاسپورٹ کی منسوخی، پریس کارڈ کی فراہمی سے انکار اور بھارتی حکام کے دیگر ناروا اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو کو سفری دستاویزات کے باوجود 2022ء میں بیرون ملک جانے نہیں دیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت سے انکار نہ صرف صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ متنازعہ اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں لاکھوں لوگوں کو آزادانہ اور قابل اعتماد معلومات کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے۔