یوکرین جنگ بندی معاہدہ سہ فریقی سربراہی اجلاس میں طے پائے گا، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) روسی اور امریکی صدور کی یہ ملاقات الاسکا میں سرد جنگ کے دور کے ایک فضائی اڈے پر ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد ان کی ولادیمیر پوٹن کے ساتھ یہ ان کی پہلی آمنے سامنے ملاقات ہے۔ یہ اس وقت ہو رہی ہے جب یوکرین اور یورپ میں یہ خدشات پائے جا رہے ہیں کہ ٹرمپ کہیں کییف کو قربان نہ کر دیں۔
ٹرمپ، جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ وہ روس کی یوکرین پر جنگ کو 24 گھنٹے میں ختم کر سکتے ہیں، نے جمعرات کو کہا کہ ساڑھے تین سال سے جاری یہ تنازعہ ان کے خیال سے کہیں زیادہ مشکل نکلا۔
انہوں نے کہا کہ اگر پوٹن کے ساتھ ان کی بات چیت کامیاب رہی تو یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی، جو جمعہ کی ملاقات میں مدعو نہیں ہیں، کے ساتھ آئندہ سہ فریقی سربراہی اجلاس کا انعقاد پوٹن سے ملاقات سے بھی زیادہ اہم ہو گا۔
(جاری ہے)
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین پر کسی معاہدے کے لیے تیار ہوں گے۔ کریملن نے خبردار کیا ہے کہ الاسکا سربراہی اجلاس سے کسی بڑے نتیجے کی توقع نہ رکھی جائے۔
دوسری ملاقات زیادہ اہم ہوگی، ٹرمپامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ختم کرنے سے متعلق کوئی بھی معاہدہ ان کی پوٹن سے الاسکا میں ملاقات کے بعد ہی طے ہو سکے گا۔
سربراہی اجلاس سے ایک دن قبل، فاکس نیوز ریڈیو کو دیے گئے انٹرویو میں، امریکی صدر نے کہا کہ دوسری ملاقات میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی بھی شریک ہوں گے۔
ٹرمپ نے کہا، ’’دوسری ملاقات بہت ہی اہم ہونے والی ہے کیونکہ اسی میں معاہدہ طے ہو گا۔‘‘
یورپی رہنما پوٹن کے ساتھ دوسری ملاقات میں شریک ہو سکتے ہیں، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ یورپی رہنماؤں کو ممکنہ دوسری ملاقات میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ مدعو کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کہا، ’’ہم پوٹن، زیلنسکی اور اپنے ساتھ ایک ملاقات کریں گے، اور شاید کچھ یورپی رہنماؤں کو بھی ساتھ لائیں یا شاید نہ لائیں۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پوٹن کو نایاب معدنیات تک رسائی یا یورپ میں نیٹو افواج کی تعداد میں کمی جیسی رعایتیں دے سکتے ہیں تو ٹرمپ کے پاس اس کا کوئی خاص جواب نہیں تھا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی پوٹن سے الاسکا میں ملاقات کا اصل مقصد دوسری سربراہی ملاقات کے لیے زمین ہموار کرنا ہے۔
کریملن نے بھی توقعات کو محدود رکھتے ہوئے کسی واضح نتیجے کے بارے میں پیشگوئی سے گریز کیا ہے۔
پوٹن۔ٹرمپ سربراہی اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ کی توقع نہ رکھیں، کریملنکریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کو کہا کہ سابقہ خبروں کے برعکس، روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والے سربراہی اجلاس کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کا منصوبہ نہیں ہے۔
پیسکوف نے روسی خبر رساں ایجنسی انٹرفیکس کو بتایا،’’نہیں، کسی چیز کی توقع نہ رکھیں، کچھ بھی تیار نہیں کیا گیا، اور یہ امکان نہیں ہے کہ کوئی دستاویز جاری ہو۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا منصوبہ ہے، اور پوٹن اس ملاقات میں طے پانے والے کسی بھی معاہدے یا انتظامات کی وضاحت خود کریں گے۔
پیسکوف نے کہا کہ الاسکا اجلاس بہت کم نوٹس پر طے کیا گیا تھا۔
انہوں نے اس کے نتائج کے بارے میں پہلے سے پیشگوئی کرنے سے خبردار کیا۔بعد میں روسی سرکاری ٹی وی پر بات کرتے ہوئے، پیسکوف نے ٹرمپ کو مشکل معاملات کے لیے ’’انتہائی غیر روایتی انداز‘‘ رکھنے والا شخص قرار دیا، جو ان کے مطابق ماسکو اور ذاتی طور پر پوٹن کے لیے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے نقطۂ نظر کو ’’اگلے مراحل‘‘ میں مدنظر رکھا جانا چاہیے۔
پوٹن کے پاس جنگ بندی پر متفق ہونے کا 'موقع‘ ہے، جرمن چانسلرفریڈرش میرس نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے پاس یوکرین میں جنگ ختم کرنے کا ’’موقع‘‘ ہے جب وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے الاسکا میں ملاقات کر رہے ہیں۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ امن معاہدہ یوکرینی شمولیت کے ساتھ ہی طے پانا چاہیے۔
میرس نے سوشل میڈیا پر کہا، ’’ہدف ایک ایسا سربراہی اجلاس ہونا چاہیے جس میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی بھی شریک ہوں اور جہاں ’جنگ بندی پر اتفاق‘ کیا جائے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ ’’اب امن کی طرف ایک بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں‘‘ جبکہ ماسکو کی یوکرین پر حملے کو تین سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے روسی صدر ولادیمیر پوٹن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سربراہی اجلاس دوسری ملاقات ملاقات میں الاسکا میں پیسکوف نے نے کہا کہ انہوں نے سکتے ہیں کے ساتھ پوٹن کے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
یوکرین کو زمین سے متعلق کسی بھی امن معاہدے میں شامل ہونا چاہیے،صدرٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین کو زمین سے متعلق کسی بھی ممکنہ جنگ بندی یا امن معاہدے کا براہِ راست حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کی سرزمین پر صرف یوکرینی قیادت کو بات کرنے کا حق ہے، کوئی بیرونی طاقت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔
یہ بیان صدر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے جمعہ کو الاسکا میں ہونے والی ممکنہ ملاقات سے قبل دیا۔ اس سے پہلے ٹرمپ کی یورپی اتحادیوں کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ ہوئی جس میں برطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون، جرمن چانسلر فریڈرک میرٹز، نیٹو چیف اور دیگر یورپی رہنما شامل تھے۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی۔
یورپی تحفظات اور خدشات
یورپی رہنماؤں اور زیلنسکی کا مقصد واضح تھا: ٹرمپ کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ پیوٹن کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہ کریں جو یوکرین کی خودمختاری یا یورپی سیکیورٹی مفادات کو نقصان پہنچائے۔
انہیں خدشہ ہے کہ اگر زمین کے تبادلے کی بنیاد پر کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو روس کو یوکرین کے پانچویں حصے پر مستقل کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے، جو ماسکو کی 11 سالہ جارحیت کو “انعام” دینے کے مترادف ہوگا۔
ٹرمپ کا مؤقف اور ممکنہ اگلا قدم
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس جنگ نے ہزاروں جانیں لی ہیں اور لاکھوں افراد کو بے گھر کیا ہے، اگر اس کا خاتمہ چاہتے ہیں تو دونوں فریقین کو کچھ نہ کچھ دینا ہوگا۔
انہوں نے زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقات کو 10 میں سے 10قرار دیا اور کہا کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو وہ جلد پیوٹن اور زیلنسکی کے ساتھ ایک اور ملاقات کے خواہاں ہوں گے۔ تاہم ساتھ ہی خبردار بھی کیااگر مجھے وہ جواب نہیں ملا جس کی توقع ہے تو دوسری ملاقات نہیں ہوگی، اور اگر پیوٹن جنگ کے خاتمے پر تیار نہ ہوئے تو نتائج بہت سنگین ہوں گے۔
یورپی حمایت اور یوکرین کا مؤقف
برطانوی وزیراعظم کے دفتر نے زور دیا کہ کسی بھی امن معاہدے میں یوکرین کو قابلِ بھروسا سیکیورٹی ضمانتیں دی جانی چاہئیں۔
فرانسیسی صدر میکرون نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ یوکرینی زمین پر صرف زیلنسکی بات چیت کر سکتے ہیں۔
جرمن چانسلر میرٹز نے کہا کہ روس کے زیر قبضہ علاقوں کو قانونی حیثیت دینا ناقابلِ قبول ہے۔ جنگ بندی ضرور ہونی چاہیے، مگر یوکرین کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔زیلنسکی نے پیوٹن، ٹرمپ اور خود پر مشتمل ایک سہ فریقی ملاقات کی تجویز بھی دی ہے تاکہ کوئی حقیقی اور متوازن امن فارمولہ تلاش کیا جا سکے۔