پرنس ہیری اور لیڈی ڈیانا کے ذوق میں کیا فرق تھا؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
برطانوی شہزادے ہیری اور ان کی والدہ لیڈی ڈیانا اگرچہ ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے لیکن کھانے کے معاملے میں ان کے ذوق بالکل مختلف تھے۔
سابق شاہی شیف ڈیرن میک گریڈی کے مطابق لیڈی ڈیانا کو جھینگے بہت پسند تھے، خاص طور پر لوبسٹر تھرمیڈور لیکن وہ دوستوں کے ساتھ باہر کھانے پر کبھی اسے آرڈر نہیں کرتیں کیونکہ اسے مہنگا سمجھتی تھیں۔ اس کے بجائے وہ کینسنگٹن پیلس میں ہفتے میں کم از کم ایک بار اپنے لیے یہ ڈش بنواتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی شاہی خاندان کی باہمی رنجشیں برقرار: پرنس ہیری بڑے بھائی شہزادہ ولیم کو منانے میں ناکام رہے
میک گریڈی کے مطابق جب شہزادہ ولیم اور ہیری گھر پر ہوتے تو مینو تبدیل ہوجاتا۔ شاہی باورچی خانے میں بی بی کیو بے بی بیک رِبز مکئی کے ساتھ اور میٹھے میں کیلا فلیں یا آئس کریم پیش کی جاتی۔
انہوں نے کہا کہ لوبسٹر ایک ایسا کھانا ہے جسے کچھ لوگ بے حد پسند کرتے ہیں جبکہ بعض اسے ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں، غذائیت کے ماہر شارلٹ فیور گرین کے مطابق یہ ایک وقت میں عام اور سستا کھانا سمجھا جاتا تھا لیکن اب مہنگے ترین پکوانوں میں شمار ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اپنی شادی پر بادشاہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کے چپکے چپکے آنسو بہانے کا عقدہ کھل گیا
ان کا کہنا ہے کہ جھینگے کا ذائقہ ہر کسی کو پسند نہیں آتا، کچھ لوگ اسے خوش ذائقہ اور نرم سمجھتے ہیں جبکہ دیگر اسے ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا پکوان قرار دیتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آئس کریم برطانیہ ذوق شہزادہ ہیری کھانا کیلا کینسنگٹن پیلس لابسٹر لیڈی ڈیانا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانیہ شہزادہ ہیری کھانا کیلا لابسٹر لیڈی ڈیانا لیڈی ڈیانا
پڑھیں:
آزادی کا اعلان 15 اگست کو ہوا لیکن پاکستان میں یوم آزادی 14 اگست کو کیوں منایا جاتا ہے؟
اسلام آباد(ویب ڈیسک )پاکستان کی تاریخ میں ایک دلچسپ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ جب برصغیر کی آزادی کا سرکاری اعلان 15 اگست 1947 کو ہوا تھا تو پاکستان میں یومِ آزادی ایک دن پہلے، یعنی 14 اگست کو کیوں منایا جاتا ہے؟
سینئر صحافی حامد میر نے اس حوالے سے تاریخی ریکارڈ اور مستند شواہد کی بنیاد پر وضاحت دی ہے۔ ان کے مطابق *انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ 1947* میں صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایک ہی دن، یعنی 15 اگست کو وجود میں آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پہلے جاری ہونے والے ڈاک ٹکٹ پر بھی “یومِ آزادی: 15 اگست” درج تھا۔
لیکن یہ تاریخ بعد میں تبدیل ہو گئی۔ جون 1948 میں وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی سربراہی میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست کو منایا جائے گا۔ اس تبدیلی کے پیچھے کئی وجوہات تھیں۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ 1947 میں اقتدار کی منتقلی (Transfer of Power) کراچی میں 14 اگست کو ہو گئی تھی، جبکہ بھارت میں یہی عمل 15 اگست کو مکمل ہوا۔
مزید یہ کہ اس وقت پاکستان کا وقت بھارت سے آدھا گھنٹہ پیچھے تھا۔ اس لیے جب دہلی میں 15 اگست کی رات بارہ بجے آزادی کا اعلان ہوا، پاکستان میں گھڑیاں ساڑھے گیارہ بجا رہی تھیں — یعنی پاکستان میں اس وقت ابھی 14 اگست تھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان عملی طور پر 14 اگست کو ہی آزاد ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ نے بھی اپنی کتاب میں لکھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارت کا یومِ آزادی 15 اگست اس لیے رکھا کیونکہ یہ دن جاپان کی دوسری جنگِ عظیم میں ہتھیار ڈالنے کی یاد سے جڑا تھا۔ جسونت سنگھ کے مطابق اس تاریخ کا بھارت کی آزادی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا، اور یہ فیصلہ خود ماؤنٹ بیٹن کے لیے زیادہ معنی رکھتا تھا۔
آج بھی بھارت اپنا یومِ آزادی 15 اگست کو مناتا ہے، لیکن پاکستان 14 اگست کو، کیونکہ ہماری تاریخ اور گھڑی دونوں اس دن کی گواہی دیتی ہیں۔
Post Views: 6