بے بی شارک ڈوڈو؛ آخر کس کی ملکیت ہے؟ عدالت کا بڑا فیصلہ آگیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
جنوبی کوریا کی سپریم کورٹ نے بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں طور پر مقبول گانے ’بے بی شارک‘ کا برسوں پرانا کاپی رائٹ کیس کا فیصلہ سنادیا۔
اس نغمے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسے یوٹیوب پر سب سے زیادہ سنے جانے والا گانا بھی کہا جاسکتا ہے جس کے ویوز اربوں ہیں۔
امریکی گیت نگار جوناتھن رائٹ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے 2019ء میں یہ گیت تخلیق کیا تھا اس لیے کاپی رائٹ ان کا ہے۔ جس کے بعد ایک قانونی جنگ چھڑ گئی تھی۔
دوسری جانب کاپی رائٹ رکھنے والی پنگ فانگ نے اس نغمے کارٹون ورژن 2015ء اور 2016ء میں ریلیز ہوا جو دنیا بھر میں بچوں کا ترانہ بن گیا۔
یہاں تک کہ اس پر بے بی شارک ڈانس چیلنج بھی دنیا بھر میں مشہور ہو گیا اور یہ 30 ملین ڈالر سے زیادہ کا بزنس بھی کرگیا تھا۔
تاحال یہ نغمہ تروتازہ ہے اس کی مقبولیت جوں کی توں برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ نسلوں کا گیت بن گیا اور اب بھی روزانہ لاکھوں بار سنا جاتا ہے۔
کاپی رائٹ کیس عدالت میں برسوں چلتا رہا اور آج تمام تر دلائل اور شواہد کی روشنی میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں امریکی گیت نگار کے نغمے کے تخلیق کار ہونے کے دعویٰ کو مسترد کردیا۔
عدالت نے کہا کہ بے بی شارک ایک پرانا لوک گیت ہے جس کے مختلف ورژنز پہلے سے ہی موجود تھے۔
جنوبی کوریا کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نہ صرف کمپنی پنگ فانگ بلکہ گانے کے مداحوں نے بھی سکون کا سانس لیا۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کاپی رائٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ: ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ذومعنی ریمارکس
فیصل آباد کی ایک ٹرائل کورٹ کی جانب سے پولیس افسر کے خلاف دی گئی آبزرویشنز کے معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کمرۂ عدالت ہلکے پھلکے مکالموں سے گونج اٹھا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ اور ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈکوارٹر ملک جمیل ظفر کے درمیان دلچسپ تبادلۂ خیال پر عدالت میں قہقہے لگے۔
سماعت کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈکوارٹر کے ہمراہ موجود وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ میں ایک فوجداری مقدمہ زیرِ سماعت تھا، جہاں عدالت نے گواہوں کی حاضری یقینی بنانے کا حکم جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کو وراثت سے محروم کرنا اسلام کے خلاف ہے، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
ان کے مطابق اُس وقت درخواست گزار ایس پی کے عہدے پر تعینات تھے اور ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان کے خلاف آبزرویشنز دی تھیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ صرف لوگوں کو جیل میں ڈالنا کافی نہیں، عدالتوں میں گواہوں کو پیش بھی کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج خود جا کر گواہ نہیں لا سکتے۔
اسی دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے مسکراتے ہوئے شاہ خاور سے دریافت کیا کہ یہ جو آپ کے ساتھ پولیس آفیسر کھڑے ہیں، کیا یہی ڈی آئی جی ہیں۔
مزید پڑھیں:
جواب میں شاہ خاور نے بتایا کہ جی مائی لارڈ، یہی ہیں۔
جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ یہ دیکھیں یہ یہاں کھڑے ہمیں ڈرا رہے ہیں۔
انہوں نے ڈی آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔
ان ریمارکس پر کمرۂ عدالت میں ایک بار پھر قہقہے گونج اٹھے۔
مزید پڑھیں:جسٹس منصور شاہ جج نہیں رہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
بعد ازاں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے چیمبر میں فیصلہ سناتے ہوئے ان آبزرویشنز کو برقرار رکھا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیل بحال کردی۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہائیکورٹ نے انہیں سنے بغیر فیصلہ دیا۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ لاہور ہائیکورٹ معاملے کو میرٹس پر 2 ماہ کے اندر سن کر فیصلہ کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد پولیس ٹرائل کورٹ جسٹس ہاشم کاکڑ ڈی آئی جی سپریم کورٹ لاہور ہائیکورٹ