اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور "بچوں پر جنگ" کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔

ایجنسی کے مطابق غزہ پٹی میں معائنہ کیے جانے والے زیادہ تر بچے کمزور، لاغر اور موت کے خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ انہیں فوری طبی امداد اور علاج نہیں مل رہا۔

یونیسف (UNICEF) کے اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 50 ہزار سے زائد بچے یا تو جاں بحق ہوچکے ہیں یا زخمی ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو مزید بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ بچوں کے خلاف اس جنگ کو فوری طور پر بند کیا جائے اور ان کے لیے خوراک، ادویات اور ضروری سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پلاسٹک آلودگی پر اقوام متحدہ کے مذاکرات کا بے نتیجہ اختتام

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے زیر انتظام جنیوا میں پلاسٹک آلودگی سے نمٹنے کے لیے 185 ممالک کے درمیان جاری 11 روزہ مذاکرات کسی معاہدے کے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ اختلاف اس بات پر رہا کہ معاہدہ پلاسٹک کی پیداوار میں کمی اور خطرناک کیمیکلز پر قانونی پابندیوں پر مرکوز ہو یا ری سائیکلنگ، دوبارہ استعمال اور بہتر ڈیزائن پر۔

تیل و گیس پیدا کرنے والے ممالک اور پلاسٹک انڈسٹری نے پیداوار پر حد بندی کی مخالفت کی، جب کہ یورپی یونین اور اس کے اتحادی ممالک نے پیداوار میں کمی اور زہریلے اجزاء کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ 40 کروڑ ٹن سالانہ عالمی پلاسٹک پیداوار 2040 تک 70 فیصد بڑھنے کا خدشہ ہے، جبکہ صرف 9 فیصد پلاسٹک ری سائیکل ہوتا ہے اور 22 فیصد براہِ راست زمین یا سمندروں میں آلودگی کا باعث بنتا ہے۔

(جاری ہے)

ناروے کے مذاکرات کار نے آج بروز جمعہ کی صبح تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد کہا، ’’جنیوا کے اجلاس میں پلاسٹک آلودگی ختم کرنے کا معاہدہ نہیں ہو سکا۔‘‘ ان مذاکرات میں شریک کیوبا کے نمائندے نے کہا، ''ہم نے ایک تاریخی موقع گنوا دیا، لیکن ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور فوری عمل کرنا ہو گا۔ زمین اور موجودہ و آنے والی نسلوں کو اس معاہدے کی ضرورت ہے۔

‘‘ پلاسٹک آلودگی پر ممالک کے درمیان اختلاف کس بات پر؟

تیل و گیس پیدا کرنے والے بڑے ممالک اور پلاسٹک کی صنعت نے پلاسٹک کی پیداوار پر پابندیوں کی مخالفت کی۔ اس کے بجائے وہ ایک ایسے معاہدے کے حامی تھے جو فضلہ کے بہتر انتظام اور دوبارہ استعمال پر زور دے۔

کویت نے کہا، ’’ہمارے مؤقف کو شامل نہیں کیا گیا۔

طے شدہ دائرہ کار کے بغیر یہ عمل درست سمت میں نہیں چل سکتا اور ناکام ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہے۔‘‘

چین کے وفد نے پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کو ایک میراتھن سے تشبیہ دی اور کہا کہ جمعہ کے ناکام مذاکرات ایک عارضی رکاوٹ ہیں اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک نیا نقطہ آغاز ہیں۔

یورپی یونین، برطانیہ، کینیڈا اور افریقہ و لاطینی امریکہ کے کئی ممالک پر مشتمل "ہائی ایمبیشن کولیشن" چاہتی تھی کہ معاہدہ پلاسٹک کی پیداوار میں کمی اور پلاسٹک میں استعمال ہونے والے زہریلے کیمیکلز کے خاتمے کو لازمی قرار دے۔

یورپی کمشنر جیسیکا روزوال نے کہا کہ یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک کی اس اجلاس سے زیادہ توقعات تھیں، اور اگرچہ مسودہ ان کے مطالبات پر پورا نہیں اترتا، یہ آئندہ مذاکرات کے لیے ایک اچھی بنیاد ہے۔

انہوں نے کہا، ’’زمین صرف ہماری نہیں ہے۔ ہم آنے والوں کے لیے امانت دار ہیں۔ آئیے اس فرض کو پورا کریں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین ایک ''مضبوط، پابند معاہدے کے لیے دباؤ جاری رکھے گی جو عوامی صحت کو محفوظ بنائے اور ماحول کا تحفظ کرے۔

‘‘ آگے کیا ہو گا؟

کسی بھی تجویز کو معاہدے میں شامل کرنے کے لیے تمام ممالک کی متفقہ رضامندی ضروری ہے۔ بھارت، سعودی عرب، ایران، کویت، ویتنام اور دیگر ممالک نے کہا کہ کسی مؤثر معاہدے کے لیے اتفاق رائے ضروری ہے۔ لیکن کچھ ممالک چاہتے ہیں کہ فیصلے ووٹنگ کے ذریعے کیے جائیں۔

ماحولیات کے لیے سرگرم تنظیم گرین پیس کے وفد کے سربراہ گراہم فوربز نے کہا، ’’ہم دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

ہم ایک ہی کام دہراتے نہیں رہ سکتے اور مختلف نتیجے کی توقع نہیں رکھ سکتے۔‘‘

پلاؤ نے، جو 39 چھوٹے جزیرہ نما ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی کر رہا تھا، مذاکرات میں کی جانے والی کوشش پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’بار بار ناکافی پیشرفت کے ساتھ اپنے عوام کو مایوس کرنا قابل قبول نہیں۔‘‘

اسی نوعیت کے پلاسٹک آلودگی کے مذاکرات گزشتہ سال جنوبی کوریا میں بھی معاہدے کے بغیر ختم ہو گئے تھے۔

ہم کتنا پلاسٹک پیدا کرتے ہیں اور اس کا کیا ہوتا ہے؟

دنیا ہر سال 400 ملین ٹن سے زیادہ نیا پلاسٹک بناتی ہے، اور اگر پالیسی میں تبدیلی نہ ہوئی تو یہ 2040 تک تقریباً 70 فیصد بڑھ سکتا ہے۔

سالانہ پیدا ہونے والے پلاسٹک کا نصف سے زیادہ صرف ایک بار استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ پلاسٹک کے فضلے کا 15 فیصد جمع کیا جاتا ہے، لیکن صرف 9 فیصد ہی ری سائیکل ہوتا ہے۔

تقریباً 46 فیصد لینڈ فل میں چلا جاتا ہے، 17 فیصد کو جلا دیا جاتا ہے، اور 22 فیصد کا ناقص انتظام ہوتا ہے اور وہ زمین یا سمندر میں کوڑے کے طور پر ختم ہو جاتا ہے۔

ادارت: شکور رحیم

متعلقہ مضامین

  • انڈونیشیا میں 6 شدت کا خوفناک زلزلہ، متعدد افراد زخمی
  • غزہ: 24 گھنٹوں کے دوران مزید 70 فلسطینی شہید،خوراک کا بدترین بحران جاری
  • یوکرین جنگ: پوتن ٹرمپ ملاقات اور یو این کا تنازع کے منصفانہ حل پر زور
  • یوکرین: یو این اور شراکت داروں کا امدادی قافلہ جنگ زدہ کیرسون پہنچ گیا
  • میانمار میں قحط کا خطرہ، اقوام متحدہ نے بڑے بحران کی وارننگ دیدی
  • ہم گذشتہ 5 ماہ سے غزہ میں کوئی امداد نہیں پہنچا سکے، انروا
  • پلاسٹک آلودگی پر اقوام متحدہ کے مذاکرات کا بے نتیجہ اختتام
  • کراچی: فائرنگ سے باپ بیٹا جاں بحق، بچوں سمیت 5 افراد زخمی
  • غزہ: کم از کم 100 بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں، فلپ لازارینی