Islam Times:
2025-08-18@02:14:38 GMT

جانثارِ مکتب

اشاعت کی تاریخ: 18th, August 2025 GMT

جانثارِ مکتب

اسلام ٹائمز: اسی بیرک میں میری ملاقات نثار علی زیدی المعروف نثار شاہ جی سے ہوئی۔ ایک دلیر اور بہادر جوان جس سے پہلی ہی ملاقات میں احساس ہوگیا تھا کہ قوم و مذہب کا درد رکھنے والا یہ جوان آگے چل کر بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیل میں ہونے والی یہ دوستی پھر طویل ساتھ کا سبب بن گئی۔ رہائی کے بعد پھر ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہے۔ میں قم پڑھنے چلا گیا مگر رابطہ برقرار رہا۔ اسی دوران شاہ جی نے کراچی کے جوانوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ پہلے پاسبان اسلام کی ذمہ داریاں سنبھالیں، پھر پیام ولایت فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور پھر پیام ولایت اسکاؤٹس کو سامنے لائے۔ تحریر: مولانا سید حسن ظفر نقوی

ہماری پہلی ملاقات حیدرآباد سنٹرل جیل میں ہوئی تھی۔ کراچی سینٹرل جیل میں کوڑے کھانے کے بعد ہمیں کراچی سے حیدرآباد منتقل کیا گیا تھا۔ یہ بات ہے اپریل 1983ء کی۔ 1982ء کے آخر میں مسجد سکینہ گودھراں کیمپ کراچی سے شروع ہونے والے المناک واقعات جن میں لیاقت آباد کی امام بارگاہوں سمیت تقریباً مومنین کے چار سو گھر اور دکانیں جلائی اور لوٹی گئی تھیں۔ اسی تسلسل میں غالباً 15 اپریل 1983ء کو قومی رہنمائوں نے مارٹن کی مسجد و امام بارگاہ سے احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پھر ایک رات پہلے یہ کال واپس لے لی گئی لیکن مومنین کی اکثریت لا علم رہی اور لوگ بڑی تعداد میں مارٹن روڈ پہنچ گئے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کا دور تھا۔ مسجد و امام بارگاہ کے مرکزی دروازے پر تالا ڈال کر وہاں فوجی جوان، ملیشیا اور پولیس تعیینات کردی گئی تھی لیکن مومنین تالا توڑ کر مسجد میں داخل ہوگئے۔

نماز کے بعد فورسز نے مسجد میں گھس کر بدترین تشدد کرتے ہوئے تقریباً تین سو کے قریب مومنین کو گرفتار کرلیا اور شہر کے مختلف تھانوں میں بند کردیا، میں دیگر تیس چالیس مومنین کے ساتھ کلفٹن تھانے میں بند تھا۔ پھر دو دن بعد ہمیں فوجی بیرکس میں منتقل کردیا گیا۔ وہاں سمری ملٹری کورٹ کے تحت برائے نام مقدمہ چلایا گیا، لسٹیں تیار کی گئیں، آدھے چھوڑ دیئے گئے اور آدھوں کو دس دس کوڑوں اور ایک ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ میں سزا پانے والوں میں تھا وہاں سے ہمیں سنٹرل جیل کراچی منتقل کر دیا گیا، چار چار آدمیوں کی کھولی میں دس دس اور بارہ بارہ افراد کو ٹھونس دیا گیا۔ دوسرے دن صبح ہوتے ہی کوڑے برسنا شروع ہوئے اور اسی زخمی حالت میں کراچی جیل سے حیدرآباد جیل بھیج دیا گیا۔

حیدرآباد جیل میں ساٹھ افراد کی بیرک میں سو سے زیادہ قیدیوں کو بھر دیا گیا۔ اسی بیرک میں میری ملاقات نثار علی زیدی المعروف نثار شاہ جی سے ہوئی۔ ایک دلیر اور بہادر جوان جس سے پہلی ہی ملاقات میں احساس ہوگیا تھا کہ قوم و مذہب کا درد رکھنے والا یہ جوان آگے چل کر بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیل میں ہونے والی یہ دوستی پھر طویل ساتھ کا سبب بن گئی۔ رہائی کے بعد پھر ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہے۔ میں قم پڑھنے چلا گیا مگر رابطہ برقرار رہا۔ اسی دوران شاہ جی نے کراچی کے جوانوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ پہلے پاسبان اسلام کی ذمہ داریاں سنبھالیں، پھر پیام ولایت فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور پھر پیام ولایت اسکاؤٹس کو سامنے لائے۔ اسکاؤٹس کی سخت تربیت کی اور خاص طور پر سیکیورٹی کے انتظامات کا بیڑا اٹھایا یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا کہ ایام عزا اور دوسرے ایام میں جلسے جلوسوں کی سیکیورٹی خصوصاً علماء اور خطبا کو بہترین سیکیورٹی فراہم کرنے کے فرائض انجام دیئے۔

واضح رہے کہ ان تمام مشاغل کو انقلاب اسلامی اور ولایت فقیہ پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ انجام دیا۔ انقلاب اسلامی سے یہی وابستگی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں خار بن کر چبھ رہی تھی، اسی لئے اس مرد مومن اور مرد مجاہد کو بار بار قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس قید و بند کے دوران بدترین تشدد اور شکنجوں کو بھی برداشت کرنا پڑا لیکن اس مرد جری نے ہمت نہیں ہاری لیکن بہرحال عمر کے بھی تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ آخری بار جب گرفتار کیا گیا غالباً ڈھائی تین  سال قبل تو چھ مہینے اتنا بدترین تشدد ہوا کہ رہائی کے بعد چلنے پھرنے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی

۔ مسلسل علاج کے دوران کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص ہوئی۔ لیکن یہ دلیر انسان لڑتا رہا۔ کئی آپریشن ہوئے۔ معمولی سی صحتیابی بھی ہوتی تھی تو پھر وہی فعالیت ہوتی تھی۔ بستر پر لیٹے ہونے کے باوجود قومی اور تنظیمی ذمہ داریاں ادا کی جارہی تھیں۔ جوان اس مرد مجاہد کے عزم و ہمت سے جذبہ اور حوصلہ لے رہے تھے۔ پیام ولایت صرف کراچی نہیں بلکہ سندھ کی سطح پر فعال ترین تنظیموں میں شامل تھی اور ہے۔ ایام عزا ہیں اور میں کراچی سے باہر ہوں۔ جب 18 صفر کو مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ شاہ جی کینسر سے لڑتے لڑتے اس جہان فانی کو وداع کر کے اپنے سید و سردار، سالار شہیدان امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری کے لئے روانہ ہوگئے ہیں۔ میں اس لئے بھی اس مجاہد کو شہید سمجھتا ہوں کہ یہ بدترین تشدد کے نتیجے میں ایسے حالات کا شکار ہوا کہ اسے پھر صحت میسر نہ آ سکی۔

میں کراچی میں نہیں لیکن شاہ جی ہمیشہ سے میرے ساتھ تھے اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ ایک انقلابی شخصیت جس نے کئی ہزار جوانوں کو انقلاب کے راستے سے آشنا کیا اور انہیں آگاہی دی۔ ایک ایسا ہر دل عزیز انسان جو تنظیمی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر قومی خدمات انجام دیتا تھا۔ اسی لئے سب اس محبت کرتے تھے وہ سب کے دلوں میں رہتا تھا۔ آج اس کی جدائی میں ہر آنکھ اشکبار ہے اور میرا تو وہ ہانڈی وال تھا۔ وہ اپنا عہدو پیمان پورا کرکے چلا گیا۔ باقی اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اچھا شاہ جی جاؤ خدا حافظ اب تم شہداء کی محفل میں ہو۔ حق شفاعت میسر ہو تو ہم گناہگاروں کا خیال کر لینا۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں کراچی جیل میں دیا گیا شاہ جی کے بعد

پڑھیں:

اس نے بچوں کی ذبح شدہ لاشیں گود میں رکھ کر ویڈیو کال کی‘: کراچی میں ماں کے ہاتھوں قتل بچوں کے والد کا بیان آگیا


کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں 14 اگست کو پیش آئے ایک دل دہلا دینے والا واقعے نے نیا موڑ لے لیا ہے۔ اس دن 37 سالہ طلاق یافتہ خاتون ادیبہ خالد نے مبینہ طور پر اپنے دو کمسن بچوں کو ذبح کر کے قتل کر دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزمہ نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے ضرار اور چار سالہ بیٹی سامعہ کو کچن کے چاقو سے واش روم میں قتل کیا اور بعد ازاں لاشوں کو کمرے میں لا کر اپنی گود میں لے کر بیٹھ گئی۔
ملزمہ کے سابق شوہر غفران خالد نے دعویٰ کیا کہ بچے والدہ کے پاس رہنے گئے تھے اور 14 اگست کی دوپہر تقریباً ڈھائی بجے ادیبہ نے اسے فون کر کے کہا، ’کیا تمہیں پتا چلا کہ میں نے کیا کیا ہے؟‘ شوہر کے ناں کہنے پر ادیبہ نے ویڈیو کال کی اور دونوں بچوں کی لاشیں دکھائیں۔ غفران خالد نے فوری طور پر مددگار 15 کو اطلاع دی لیکن جب پولیس پہنچی تو بچے قتل ہو چکے تھے۔
ڈی آئی جی ساوتھ سید اسد رضا کے مطابق بچوں کی لاشیں ڈی ایچ اے کے خیابانِ مجاہد کی 10ویں اسٹریٹ پر واقع ایک گھر سے برآمد ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ علیحدگی اور بچوں کی حوالگی کے تنازع کے باعث پیش آیا۔ والدین کی گزشتہ سال طلاق ہو چکی تھی اور عدالت نے بچوں کی حوالگی والد کو دی تھی تاہم ماں کو ملاقات کی اجازت تھی۔ بدھ کی رات بچے اپنی والدہ کے ساتھ ڈی ایچ اے کے گھر میں تھے جہاں یہ افسوس ناک واردات ہوئی۔
پولیس نے خاتون کو گرفتار کر لیا ہے اور واردات میں استعمال ہونے والا چاقو برآمد کر لیا ہے۔
سابق شوہر کے مطابق ملزمہ ذہنی مسائل کا شکار تھی۔ ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملزمہ اور غفران خالد کی ملاقات 2012 میں کراچی میں ہوئی تھی جس کے بعد شادی ہوئی۔
ادیبہ چار بہن بھائیوں میں سے ایک تھی اور اس کے والدین بھی علیحدگی کا شکار تھے۔ اس کی تعلیم مکمل نہ ہو سکی اور وہ کبھی کبھار چھوٹے موٹے کام کرتی تھی تاہم کوئی مستقل ملازمت نہیں تھی۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ ملزمہ نے اعترافی بیان میں کہا، ’قتل کے لیے کوئی منطقی یا معقول وجہ نہیں تھی‘، اور وہ اپنا دفاع نہیں کرنا چاہتی۔
ملزمہ نے پولیس کو دیے گئے بیان میںکہا کہ قتل سے قبل صبح کے وقت اس نے اپنے بچوں کو نانی کے ساتھ ناشتہ کرتے دیکھا، بعد ازاں اس نے انہیں ذبح کر دیا۔

ملزمہ نے دعویٰ کیا کہ بچے اسے کہہ رہے تھے کہ ’انہیں کہیں بھیج دو جہاں وہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ کریں، جیسی ماں کر رہی ہے۔‘ تاہم جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا بچے والد کے کسی ناپسندیدہ رویے کا شکار تھے تو اس نے وضاحت نہیں کی۔

پولیس کے مطابق ملزمہ ذہنی مسائل کے علاج کے لیے دوائیں لے رہی تھی اور اس نے اپنی معالج خاتون ماہرِ نفسیات کا نام بھی بتایا۔ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ واردات کے وقت وہ ممکنہ طور پر نشہ آور ادویات کے زیرِ اثر تھی۔

پولیس نے خاتون کے خلاف سابق شوہر کی مدعیت میں تھانہ درخشاں میں مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ مقتول بہن بھائی کو ڈیفنس فیز 8 کے قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • کراچی، ناتھا خان پل پر پھر گڑھا پڑ گیا
  • کراچی، سائٹ میں ٹرک کی ٹکر سے خاتون جاں بحق
  • کراچی: پانی کی موٹر سے کرنٹ لگ کر ایک شخص جاں بحق
  • کراچی: پرانا گولیمار میں فائرنگ، ایک شخص ہلاک، ایک زخمی
  • کراچی: بھینس کالونی میں ٹرک کی ٹکر سے 8 سالہ بچی جاں بحق
  • کراچی میں 7 بچوں کے باپ کی بستر میں لپٹی تشدد زدہ لاش قبرستان سے برآمد
  • اس نے بچوں کی ذبح شدہ لاشیں گود میں رکھ کر ویڈیو کال کی‘: کراچی میں ماں کے ہاتھوں قتل بچوں کے والد کا بیان آگیا
  • کراچی‘ ڈیفنس میں بچوں کا قتل، ماں کیخلاف مقدمہ درج
  • کراچی: ڈیفنس میں بچوں کا قتل، ماں کیخلاف مقدمہ درج