سندھ طاس معاہدہ 24 کروڑ عوام کی زندگیوں سے جڑا، یکطرفہ معطل نہیں کیا جا سکتا، اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ کا برٹش پاکستان لائرز فورم سے خطاب میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے آبی تحفظ اور ماحولیاتی استحکام کے لیے نہایت اہم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی زندگیوں کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے، یہ معاہدہ یکطرفہ معطل نہیں کیا جا سکتا۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے برٹش پاکستان لائرز فورم سے خطاب میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے آبی تحفظ اور ماحولیاتی استحکام کے لیے نہایت اہم ہے۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں ورلڈ بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا اور اسے یکطرفہ طور پر نہ معطل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی التواء میں ڈالا جا سکتا ہے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے 80 فیصد پانیوں کو ریگولیٹ کرتا ہے اور براہ راست پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی زندگیوں کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پانی جیسے اہم معاملے پر کسی بھی قسم کی یکطرفہ کارروائی کو عالمی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: معاہدہ پاکستان کے اسحاق ڈار نے یہ معاہدہ جا سکتا کیا جا
پڑھیں:
پاکستان کی بقاء مزید صوبوں اور متناسب نمائندگی کے نظام میں ہے، خرم نواز گنڈاپور
پی اے ٹی کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا نام نہاد جمہوری نظام کی اس متعفن لاش کو بلا جنازہ دفن کر دیا جائے، 25 کروڑ عوام کا پیسہ لاہور سمیت بڑے شہروں کو دلہن بنانے پر خرچ ہوتا ہے، سول آمریت اور بیوروکریسی کی فرعونیت سے نجات کیلئے نئے صوبے ناگزیر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ پاکستان کی بقاء مزید انتظامی صوبوں کی تشکیل اور متناسب نمائندگی کے نظام میں ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں بلدیاتی اداروں کو زہر قاتل سمجھا جاتا ہے؟ وقت آ گیا نام نہاد استحصالی اور کرپشن میں لتھڑے ہوئے اس جمہوری نظام کی متعفن لاش کو بلا جنازہ دفن کر دیا جائے، 25 کروڑ عوام کا پیسہ لاہور سمیت چند بڑے شہروں کو دلہن بنانے پر خرچ ہوتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی ملک و قوم کے پچاس ارب ڈالر برباد کر دے یا قوم کی جیبوں میں سے پلک جھپکتے تین سو ارب نکال لے کوئی پوچھنے والا نہیں، چیک اینڈ بیلنس کا نظام تو بادشاہتوں میں بھی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم غیر آباد اور بیابان علاقوں میں سینکڑوں ایکٹر اراضی رہائش کیلئے خرید کر پھر اسے قومی پیسے سے جنت نظیر بنا لیتا ہے، جبکہ باقی ماندہ ملک زمانہ غار کی تصویر بنا رہتا ہے، اسے ریاست یا جمہوریت نہیں کہتے۔ انہوں نے کہاکہ نئے صوبے بنا کر این ایف سی ایوارڈ کے تحت انہیں براہ راست مالیاتی شیئر ٹرانسفر کرنے سے ترقی کا رکا ہوا سفر مساوی طور پر شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ عوام 78سال سے اس نظام کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں، مگر ان کے حصے میں فاقوں، ناکوں اور ڈاکوں کے سوا کچھ نہیں آیا، ڈاکٹر طاہرالقادری نے 15سال قبل نئے صوبے بنانے کا ایک قابل عمل ورکنگ پیپر قوم کے سامنے رکھا تھا جو آج ماضی کی نسبت زیادہ قابل عمل ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس نظام کے سیاہ و سفید کے مالک غریب عوام کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے اس لوٹ کھسوٹ کے نظام کو ختم کر کے ایک نیا نظام دیں، جس میں پاکستان کا ہر شہری باعزت اور محفوظ ہو اور ہر شہری کے بچے معیاری تعلیم حاصل کر سکیں اور صلاحیت کے مطابق برسر روزگار آ سکیں، ایک ایسا نظام جس میں پائی پائی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ ہو۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اپنی غلطیوں سے خود ہی سیکھتی ہیں باہر سے کوئی نہیں آتا، ہمارے تمام ذمہ داروں کو اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے روشن مستقبل کیلئے غیر معمولی فیصلے کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے۔