Express News:
2025-09-17@21:42:24 GMT

سیکھ لو تو آسان ہے

اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT

ایک صاحب کو کسی نے نئی گاڑی بطور ِ تحفہ پیش کی، انہوں نے اسے نعمت سمجھتے ہوئے قبول کیا۔ جب وہ اپنی گاڑی گھر لے کر آئے تو عزیز رشتے داروں نے تعریف کی اور دوستوں نے اسی بہانے جناب سے خوب مٹھائیاں کھائیں۔ سب خوش ہورہے تھے اور اس گاڑی کو دیکھ کر مسکرا بھی رہے تھے۔

کبھی اس کے شیشوں کی تعریف کرتے تو کبھی اس کی بناوٹ کی تعریف کرتے، تو کبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ جاتے اور اس کے کمفرٹ کو چیک کرتے۔ اس پورے ماحول کو دیکھ کر و ہ صاحب اپنے تئیں خوش ہورہے تھے کیوںکہ وہ گاڑی اب انہیں کی تھی اور انہیں کے نام سے جانی جارہی تھی۔ چند سال میں کچھ ایسا ہوا کہ وہی گاڑی جس کی تعریف کرتے لوگ تھکتے نہیں تھے اب وہ کچرے کا ڈھیر ہوچکی تھی۔

نہ وہ چلنے کے قابل تھی، نہ بیٹھنے کے۔ نہ اس کی سیٹیں صحیح تھیں اور نہ اس کی بناوٹ قابل تحسین رہی تھی۔ سب کو تعجب ہوا کہ یہ گاڑی تو بہت اچھی تھی، اس کا انجن تو بالکل صحیح تھا، اس کے پہیے تو بالکل نئے تھے۔ اب ایسا کیا ہوا کہ یہ گاڑی اتنی خستہ حالت کو پہنچ گئی۔ دریافت کرنے پر علم میں یوں اضافہ ہوا کہ جو صاحب اس گاڑی کے مالک تھے اور جن کے نام سے یہ منسوب کی جاتی تھی، انہیں گاڑی چلانی ہی نہیں آتی تھی، جس کے سبب پے درپے حادثات پیش آتے رہے اور اب یہ گاڑی اپنی اصل شکل وصورت سے نکل کر بیمار اور خستہ حال ہوگئی ہے۔

بلاشبہہ اگر دیکھا جائے تو اس معاشرے کے نومولود بچے بھی اسی گاڑی کی طرح ہیں کہ جو اللّہ کی ایک نعمت ہیں، وہ اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے بہت پیارے ہوتے ہیں مگر غیر تربیتی یافتہ والدین اور ان کے رویے ان نونہانوں کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔ والدین کے غیر اخلاقی کردار اور معاملات بچوں کو نفسیاتی طور پر خستہ حال کردیتے ہیں۔

ناکامی کا خوف، تنگی کا احساس، پڑھائی میں مشکلات، تعلقات کی خرابی اور نہ جانے کیسے بے شمار مسائل ان کو گھیر لیتے ہیں۔ بچے جس طرح اپنے والدین کو کرتے دیکھتے ہیں خود بھی اسی طرح کرتے ہیں، وہ اپنی فطرت میں بہت پاکیزہ ہوتے ہیں پھر اگر ماحول پاکیزہ ہوتو وہ صفا ء قلب پر باقی رہتے ہیں اور اگر ماحول نامناسب ہوتو وہ نفس کے بندے ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بچوں کی تربیت کے لیے پہلے ان کے والدین کی تربیت ضروری ہے۔ اگر والدین تربیت یافتہ ہوں گے تو بچے خود بخود تہذیب یافتہ ہوجائیں گے۔

 تربیت اولاد یا تربیت والدین؟

ہمارے معاشرے میں تربیت کا لفظ ابھی تک اجنبیت کا شکار ہے۔ دیگر شعبہ جات جو کمرشل ازم کا حصہ ہیں وہاں پھر بھی تربیتی پروگرام کرائے جاتے ہیں مگر تربیت رشتہ ازدواج اور امور خانہ داری یا تربیت اولاد وغیرہ اب بھی انحطاط پذیر ہیں، حالاںکہ ہماری قوم کو دیگر اقوام سے زیادہ اس تربیت کی ضرورت ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ تربیتِ اولاد سے پہلے تربیتِ والدین اس لیے ضروری ہے کہ بچے اپنے والدین کا عکس ہوتے ہیں اور بچے وہ کام کرتے ہیں جو اپنے والدین کو کرتے دیکھتے ہیں۔ اگر والدین آپس میں پیارمحبت کا رویہ رکھتے ہیں تو بچہ ان سے سیکھ رہا ہوتا ہے، وہ آپس میں غصہ کرتے ہیں تو بچہ ان سے سیکھ رہا ہوتا ہے، وہ کسی کو طعنے دے رہے ہوتے ہیں تو بچہ سیکھتا ہے اور وہ خوش اخلاق ہوتے ہیں تو بچہ بھی اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے۔

سو میرے پاس جو والدین اپنے بچوں کے رویے کے حوالے سے آتے ہیں میرا سب کو پہلا مشورہ یہی ہوتا ہے کہ ڈھونڈیں یہ رویہ بچے سے پہلے آپ کے ارد گرد کہیں موجود تھا جس کا عکس بچے کے اندر نظر آرہا ہے۔ زیادہ تر وہ رویہ کسی قریبی رشتے دار جیسے والد، والدہ، چچا، ماموں وغیرہ میں نظر آجاتا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ اگر والدین اپنے بچوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے آپ کو بہترین بنانا ہوگا۔

تربیت اولاد کے لیے والدین کو یہ چیزیں سیکھنا چاہییں:

بچوں کو بغیر کسی شرط کے محبت دینا

اکثر گھروں میں والدین بچوں کو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر تمہارے نمبرز اچھے آئے تو تمہیں فلاں کام کرنے کی اجازت ہوگی، اگر تمہارے گریڈ اچھے ہوئے تو تم لائق اور قابل سمجھے جاؤ گے وگرنہ نہیں۔ ایسے ہی چند دن قبل میرے پاس ایک والد صاحب اپنے بیٹے کا کیس لے کر آئے اور بات چیت کے دوران والد صاحب فرمانے لگے کہ اگر میرا بیٹا فلاں بندے سے ملا جس سے میری لڑائی ہے تو بس میرا رشتہ اس سے ختم ہوجائے گا اور میں کبھی اس سے بات نہیں کروں گا۔

میں نے عرض کیا کہ جناب آپ کی تمام باتیں بجا ہیں مگر اس طرح بچے کو خود سے دور کرنا اور اپنی محبت اور بات چیت کو موقوف کرنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے، کیوںکہ بچوں سے محبت بلاشرط ہونی چاہیے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو تم سے رشتہ توڑے تم اس سے رشتہ جوڑو۔ لہٰذا یہ غیرمناسب بات ہے کہ بچوں سے محبت اور پیار کو کسی شرط کے ساتھ جوڑا جائے۔ اسی لیے اگر والدین اپنی محبت کو بلاشرط رکھیں تو یہ ان کے لیے بہت بہتر طریقہ تربیت ہوگا۔

 جذبات کو اہمیت دینا اور ہم دردی رکھنا

جو شخص بچوں سے جذباتی طور پر تعلق جوڑ لیتا ہے بچے اس کا کہنا بھی سنتے ہیں اور اس کی بات کو اہمیت بھی دیتے ہیں۔ بچوں سے جذباتی لگاؤ کے لیے ان کی ہر بات کو دھیان سے سننا اور توجہ دینا ضروری ہے۔ ان کے احساسات کو بغیر کسی چون وچرا کے قبول کرنا، ان کے دل میں آپ کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے۔ والدین کا طریقہ گفتگو اتنا زبردست ہونا چاہیے کہ دو طرفہ رابطہ قائم ہوجائے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اچھی بات چیت کے ذریعے انہیں اپنا گرویدہ بناسکیں۔

ہر بچے کی فطرت کو سمجھنا

بچوں کی فطرت کو جان کر ان کے مزاج اور عادات کے مطابق ان سے گفتگو کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔ بعض بچے فطرتاً اپنے کاموں کو وقت پر کرنا پسند کرتے ہیں اور بعض اپنے کاموں کو تاخیر سے کرنا پسند کرتے ہیں۔ بعض اپنے فیصلوں کو چاہت کی بنیاد پر کرتے ہیں اور بعض اپنے فیصلوں کو فائدے اور نقصان کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

اسی طرح مختلف ترجیحات کے حامل بچے مختلف معاملات زندگی کی طرف رغبت رکھتے ہیں، جنہیں ایک سمجھ دار انسان ہی صحیح طور سے استعمال کرسکتا ہے۔ میری گزارش ہے تمام والدین سے کہ اپنے اندر اتنی قابلیت ضرور پیدا کریں کہ آپ ایم بی ٹی آئی ٹول یا اس کے علاوہ اور دیگر طریقوں کا استعمال کرکے بچوں کی شخصیت کو پہچان سکیں اور اس کے مطابق ان کی تربیت کر سکیں۔

جذباتی ذہانت کا مظاہرہ کرنا

دنیا میں ترقی وہی لوگ کرتے ہیں جو جذباتی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔ جذباتی ذہانت کیا ہے؟ یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے انسان خودآگاہی حاصل کرتا ہے، اپنے جذبات کو پہچانتا ہے، ان کو کنٹرول کرتا ہے، دوسروں کے جذبات کو سمجھتا ہے۔ خاص طور سے رشتوں کو بہتر بناتا ہے اور آپس میں محبت قائم رکھتا ہے۔

جذباتی ذہانت سے انسان میں ایک اور صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ مشکل حالات میں بہتر فیصلے کرتا ہے اور مشکلات کے ساتھ بھی جینا سیکھ لیتا ہے۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں میں جذباتی ذہانت پیدا ہو تو انہیں چاہیے کہ وہ خود جذباتی ذہانت کا مظاہرہ کریں تاکہ بچے غیرمحسوس طریقے سے اس خصوصیت کو اپنالیں۔

نظم و ضبط کے ساتھ نرمی

بچوں کے لیے اصول بنانا بہت اچھی بات ہے مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کون سا بچہ اصولوں کو پسند کرتا ہے اور کون ہے جس کے لیے ان اصولوں پر چلنا مشکل ہورہا ہے۔ بچوں کو اصولوں پر ضرور چلائیں مگر اتنی سختی نہ کریں کہ وہ بغاوت پر اتر آئیں۔ اگر بچوں کو تنبیہ کرنا ہو تو، ان کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔

ہمارے معاشرے میں بچوں کو ہر غلطی پر سزا دی جاتی ہے اور اسے فخر کا سبب سمجھا جاتا ہے مگر تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جب ہم سزاؤں کے بجائے، نتائج کی طرف بچوں کی توجہ دلاتے ہیں تو یہ ان کو نصیحت کرنے کا زیادہ بہتر طریقہ ہوسکتا ہے اور جب والدین خود اصولوں کی پاس داری کرتے ہیں، تو بچے خودبہ خود بااصول ہوجاتے ہیں۔

یوں تو بہت چیزیں ہیں جو آج والدین کو اپنے بچوں کی اچھی تربیت کے لیے سیکھنی چاہییں، مگر یہاں ہم نے چند ہی بیان کی ہیں تاکہ والدین کو اندازہ ہوسکے کہ ہمارا ہر عمل، ہمارا ہر لفظ اور ہماری عادات و اطوار، ہمارے بچوں کے تحت الشعور پر نقوش بنا رہی ہیں۔ اگر والدین اپنی تربیت کرلیں تو بچوں کی تربیت کا مرحلہ آسان ہوسکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جذباتی ذہانت اگر والدین ا ہیں تو بچہ والدین کو ہوتے ہیں ضروری ہے کی تربیت کرتے ہیں ہوتا ہے کرتا ہے بچوں سے وہ اپنی ہیں اور بچوں کو بچوں کی بات کو نہیں ا ہیں کہ اور اس ہے اور ہوا کہ

پڑھیں:

تربت، نجی سیکیورٹی کمپنی کی کیش وین لوٹ لی گئی، لیویز حکام

بلوچستان کے ضلع تربیت کے علاقے دشت میں نجی سیکیورٹی کی کیش وین لوٹ لی گئی۔

لیویز حکام کے مطابق ڈاکو کیش وین سے کروڑوں روپے لوٹ کر فرار ہوگئے ہیں۔

لیویز حکام کے مطابق نجی سیکیورٹی کمپنی کی گاڑی 2 بینکوں کا کیش لے کر تربیت سے گوادر جارہی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹرکوسرکاری گاڑی میں سواریاں بٹھانا مہنگا پڑ گیا
  • محمد یوسف کا شاہد آفریدی کیخلاف عرفان پٹھان کی غیرشائسہ زبان پر ردعمل، اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کردی
  • تربت، نجی سیکیورٹی کمپنی کی کیش وین لوٹ لی گئی، لیویز حکام
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی
  • کم عمربچوں کے فیس بک اورٹک ٹاک استعمال پرپابندی کی درخواست پر پی ٹی اے سمیت دیگرسے جواب طلب
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کی درخواست پر سماعت
  • بچے کی پیدائش پر اسکی شناخت نہ کروانا بچے کے ساتھ حق تلفی ہے، ترجمان نادرا
  • کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کی درخواست پر جواب طلب
  • والدین بیٹیوں کو کینسر سے بچاؤ کی ویکسین ضرور لگوائیں: آصفہ بھٹو 
  • ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!