ماضی بھول کر دل صاف کرکے آگے بڑھنا چاہیے: اسحاق ڈار کا 1971 سے متعلق سوال پر جواب
اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT
نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 1971 سے متعلق تنازع ایک طے شدہ باب ہے اور اب دونوں ممالک کو مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے 6 معاہدوں پر دستخط
دورہ بنگلہ دیش کے موقع پر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے وضاحت کی کہ یہ معاملہ پہلی مرتبہ 1974 میں ہی طے پایا تھا اور اس کی دستاویزات آج بھی پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے پاس موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعد ازاں پرویز مشرف کے دورہ ڈھاکا کے موقع پر بھی اس موضوع پر تفصیل سے بات کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھائیوں کے درمیان اختلافات ختم ہوجائیں تو اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ دل صاف کرلیا جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ مسئلہ دو مرتبہ حل ہوچکا ہے، اب ہمیں ماضی پر نہیں بلکہ ایک روشن مستقبل پر توجہ دینی چاہیے اور عوام کی بہتری کے لیے مل کر آگے بڑھنا چاہیے۔
واضح رہے کہ اسحاق ڈار بنگلادیش کے تاریخی دورے پر ہیں، جو کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا 13 سال بعد پہلا دورہ ہے۔ وہ بنگلہ دیشی حکومت کی دعوت پر ڈھاکا پہنچے جہاں ان کی اہم ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
نائب وزیراعظم نے اپنے قیام کے دوران بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس، مشیر خارجہ محمد توحید حیسن اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں میں تجارت، سرمایہ کاری اور مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر انہوں نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان، بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے بنگلہ دیشی طلبہ کو 500 اسکالر شپس دینے کا اعلان کردیا
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 6 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر بھی دستخط کرلیے گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار پاکستان بنگلہ دیش تعلقات وزیر خارجہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسحاق ڈار پاکستان بنگلہ دیش تعلقات بنگلہ دیش کے اسحاق ڈار
پڑھیں:
افغانستان سے دراندازی بندہونی چاہیے،وزیردفاع۔بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، پاک فوج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد /ایبٹ آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن/صباح نیوز)وزیردفاع نے کہا کہ افغانستان سے دراندازی بندہونی چاہیے۔ جبکہ پاک فوج نے کہ بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا۔ دفترخارجہ نے کہا کہ طالبان نے دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو افغان سرزمین پر تسلیم کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابقوزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ کابل کی طالبان رجیم دہشت گردوں کی پشت پناہی بند کر دے، پاکستان میں امن کی ضمانت کابل کو دینا ہوگی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے واضح کیا کہ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے ہو، پاکستان میں دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے‘ افغانستان کی سرزمین سے دراندازی مکمل بند ہونی چاہیے کیونکہ دہشت گردی پر پاکستان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔وزیر دفاع نے کہا کہ ثالث ہمارے مفادات کی مکمل دیکھ بھال کریں گے اور دہشت گردی کی روک کے بغیر 2 ہمسایوں کے تعلقات میں بہتری کی گنجائش نہیں‘ خیبر پختونخوا کی حکومت آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہو رہی ہے، پی ٹی آئی کے لوگ اپنے سیاسی مفادات کی بات کرتے ہیں لیکن یہ ملک نیازی لا کے تحت نہیں چل سکتا۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سابق فاٹا کے لوگ سمجھتے ہیں وفاقی حکومت مخلص ہے جہاں ضرورت ہو ہم طاقت کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں، ہم نے اس مٹی کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔اِدھر ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ایک بار پھر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج دفاع وطن کے لیے پرعزم ہے، کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا۔ایبٹ آباد میں مختلف جامعات کے اساتذہ اور طلبہ سے نشست کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے خصوصی گفتگو کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حالیہ پاک افغان کشیدگی، ملکی سیکورٹی صورتحال اور معرکہ حق سمیت اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے گفتگو کے دوران واضح کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی اور فتنہ الخوارج کے خلاف موثر اقدامات کیے ہیں۔اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے شہدا اور غازیان کو زبردست خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کیا گیا۔وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی ڈاکٹر اکرام اللہ خان نے کہا کہ پاک فوج ہمیشہ محاذِ اول پر ہوتی ہے اور ہم اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔پاکستان نے کہا ہے کہ مذاکرات میں افغان طالبان حکومت نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے اور افغان حکام نے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے‘پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا۔ توقع ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ حساس نوعیت کے مذاکرات پر ہر منٹ پر تبصرہ ممکن نہیں، وزارت خارجہ کو محتاط رہنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق استعمال کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں تمام متعلقہ اداروں کے نمائندے شامل تھے، مذاکرات میں تمام اہم امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی، 6 نومبر کے اگلے دور میں مذاکرات کی جامع تفصیلات سامنے آئیں گی اور مذاکرات میں مثبت پیش رفت جاری ہے، یہ نہایت حساس اور پیچیدہ مذاکرات ہیں جن میں صبر اور بردباری کی ضرورت ہے۔ طاہر اندرابی کا کہنا تھا کہ سرحد کی بندش کا فیصلہ سیکورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے، سیکورٹی جائزے کے مطابق سرحد فی الحال بند رہے گی اور مزید اطلاع تک سرحد بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رہے گا‘ افغان سرزمین پردہشت گرد عناصر کی موجودگی پاکستان کے سیکورٹی خدشات کوتقویت دیتی ہے۔