مہنگی کھاد کا راز فاش: کسانوں پر 7 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کا ذمہ دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, August 2025 GMT
کھاد کی قیمتوں میں اچانک اضافے کا راز آخرکار سامنے آ گیا اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے محنت کش کسانوں کو، جن پر 7 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا۔
آڈٹ حکام کی جاری کردہ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کھاد مہنگی ہونے کی بڑی وجہ گیس کی قیمتوں کا غیر منظور شدہ تعین تھا۔ سال 2023-24 کے دوران فرٹیلائزر پلانٹس کو مقامی گیس 1050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے ریٹ پر دی گئی، جو نہ تو ای سی سی (اقتصادی رابطہ کمیٹی) اور نہ ہی اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) سے منظور شدہ تھا۔
دستاویزات کے مطابق، ڈی جی گیس (پٹرولیم ڈویژن) نے اوگرا کے مقررہ نرخوں سے ہٹ کر از خود زیادہ قیمت مقرر کی، جس کے نتیجے میں 50 کلو یوریا کھاد کی فی بوری قیمت میں 837 روپے کا اضافہ ہوا — یعنی بوری 2440 روپے سے بڑھ کر 3277 روپے تک پہنچ گئی۔
فرٹیلائزر پلانٹس نے امونیا اور یوریا کی پیداوار پر مجموعی طور پر 7 ارب 88 کروڑ روپے اضافی خرچ کیے، اور اس بڑھتی ہوئی لاگت کا سارا بوجھ براہِ راست کسانوں پر ڈال دیا۔ کسانوں نے مجموعی طور پر 98 لاکھ 30 ہزار بوریاں خریدیں، جن پر انہیں 7 ارب 21 کروڑ روپے اضافی ادا کرنا پڑے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق، ای سی سی نے 15 مارچ 2023 کو کھاد کارخانوں کو گیس فراہم کرنے کی اجازت دی تھی مگر واضح طور پر کہا تھا کہ اس پر کوئی سبسڈی نہیں دی جائے گی۔ اس کے باوجود، ڈی جی گیس نے دو کھاد کمپنیوں کو یکطرفہ طور پر 1050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کا ریٹ دے دیا اور تقریباً 11 ماہ تک ای سی سی کو اندھیرے میں رکھا۔
مزید حیران کن بات یہ ہے کہ جب آخرکار ان نرخوں کی منظوری لی گئی، تب بھی ای سی سی کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اوگرا پہلے سے اپنے ریٹس جاری کر چکی ہے۔
آڈٹ حکام نے اس سنگین معاملے پر مکمل تحقیقات کی سفارش کی ہے تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے اور کسانوں کو درپیش مالی دباؤ کا ازالہ کیا جا سکے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سندھ کے کسانوں کا جرمن کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ کے سیلاب متاثرہ کسانوں نے کہا ہے کہ وہ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں زمینیں، فصلیں اور روزگار کھو بیٹھے، اور اب وہ جرمنی کی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی مقدمہ دائر کرنے جا رہے ہیں۔
کسانوں کی جانب سے جرمن توانائی کمپنی آر ڈبلیو ای (RWE) اور ہائیڈلبرگ سیمنٹ کمپنی کو باضابطہ قانونی نوٹس بھجوا دیا گیا ہے۔ نوٹس میں خبردار کیا گیا کہ اگر کسانوں کے نقصان کی قیمت ادا نہ کی گئی تو دسمبر میں جرمن عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ کسانوں کا مؤقف ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور کاربن اخراج میں بڑا حصہ ڈالنے والی بڑی کمپنیاں ہی اس تباہی کی ذمہ دار ہیں، اس لیے انہیں نقصان کی ادائیگی بھی کرنی چاہیے۔
کسانوں نے کہا کہ وہ خود ماحولیات کی بربادی میں سب سے کم حصہ دار ہیں لیکن نقصان سب سے زیادہ انہیں اٹھانا پڑا ہے۔ چاول اور گندم کی فصلیں ضائع ہوئیں، زمینیں برباد ہوئیں، اور تخمینے کے مطابق صرف سندھ کے ان متاثرہ کسانوں کو 10 لاکھ یورو سے زائد کا نقصان ہوا ہے جس کا ازالہ وہ ان کمپنیاں سے چاہتے ہیں۔ ادھر جرمن کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ملنے والے قانونی نوٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق عالمی کلائمیٹ رسک انڈیکس نے 2022 میں پاکستان کو دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی آفات سے متاثر ملک قرار دیا تھا۔ اس سال کی بارشوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا، 1،700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے اور اقتصادی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ سندھ اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، بعض اضلاع تقریباً ایک سال تک پانی میں ڈوبے رہے۔