Express News:
2025-11-02@00:58:03 GMT

قانوناً حرام بستیوں کو حلال کرنے کا راستہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

فلسطین میں پہلی یورپی صیہونی آبادکار بستی اٹھارہ سو اسی کے عشرے میں بنی تھی۔تب یورپ سے آنے والے یہ مہمان کمزور تھے اس لیے زمین خریدتے تھے۔پھر یہ نظریہ ایجاد ہوا کہ ہمارا اس دنیا میں اپنا کوئی گھر نہیں لہٰذا فلسطین میں ہمیں اپنی ایک ریاست چاہیے۔یہ فرمائش بھی ستتر برس پہلے زور زبردستی سے پوری ہو گئی۔

آج صیہونی مشرقِ وسطی کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہیں اس لیے کسی قاعدے قانون کو خاطر میں لائے بغیر یہ نعرہ لگا کے قبضہ کر لیتے ہیں کہ تم یہاں سے جتنی جلد ممکن ہو خالی کردو ورنہ اسی خدا تک تم پہنچا دیے جاؤ گے جس نے ہمیں اس زمین کی ملکیت ساڑھے تین ہزار برس پہلے آسمانی صیحفوں میں دی ہے۔دیکھا جائے تو اس خطے میں سب سے بڑی غیر قانونی و غیر اخلاقی آبادکار خود ریاستِ اسرائیل ہے اور اب اس آبادکار مافیا کی قبضہ پالیسی انتہائی متشدد ہو گئی ہے۔

 مقبوضہ مغربی کنارے پر اٹھاون برس میں ڈھائی سو کے لگ بھگ چھوٹی بڑی جبری بستیاں دراصل وہ پھوڑے ہیں جنھوں نے مقبوضہ فلسطین کے جسدِ خاکی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔بالخصوص سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے ہدف یہ ہے کہ قبضہ گیر طوفانی مسموم ہوا سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی امید کا آخری شعلہ ہی بجھا دیا جائے۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد کے رابطہ دفتر کے مطابق اس وقت غربِ اردن کی فلسطینی بستیوں اور اراضی پر روزانہ اوسطاً چار مسلح حملے ہو رہے ہیں۔اگرچہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف انیس سو سڑسٹھ میں کیے گئے پورے اسرائیلی قبضہ کو ناجائز قرار دے چکی ہے۔ نیز جنیوا کنونشنز کے تحت کسی بھی مقبوضہ علاقے کی آبادی کے تناسب اور جغرافیائی ہئیت میں تبدیلی بین الاقوامی جرم ہے مگر اسرائیل کی دلیل یہ ہے کہ جو زمین خدا نے عطا کی اس پر دنیاوی قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔

بی بی سی کے ایک سینیر ایڈیٹر جیرمی بووین صحافتی زندگی کا یشتر حصہ مشرقِ وسطی میں گذار چکے ہیں۔انھوں نے حال ہی میں آنکھوں دیکھی کے لیے مقبوضہ علاقے میں چند دن گذارے اور آبادکاروں سے ملاقات کی۔جیرمی کے مطابق مغربی کنارے پر ایک مسلح جتھے ’’ ہل ٹاپ یوتھ ‘‘ کے سرخیل مائر سمچا کے بقول ’’ کل ( یعنی اکتوبر دو ہزار تئیس ) سے آج تک حالات بہت بدل گئے ہیں۔اب ہم اس خوف کے بغیر پورے علاقے میں جب اور جہاں چاہیں گھوم سکتے ہیں کہ کوئی ہم پر حملہ کر دے گا۔اگرچہ دوسری جانب ( فلسطینی ) تھوڑی بہت مزاحمت ضرور ہے مگر دشمن آہستہ آہستہ سمجھ چکا ہے کہ اب اس کا یہاں کوئی مستقبل نہیں۔چنانچہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا اس چھوٹے سے گروہ (فلسطینی ) کے درد میں اب تک کیوں مبتلا ہے ‘‘۔

مائر سمچا کا اعتماد یونہی نہیں ہے۔اس کے نسل کش نظریاتی گرو اقتدار میں ہیں اور ریاست فی الحال ان کی سیاسی مٹھی میں ہے۔چنانچہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اب ایسے آبادکاروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو محض اس لیے نہیں بس رہے کہ زمین سستی ہے بلکہ وہ اپنے تئیں ایک خدائی مشن پورا کر رہے ہیں۔

اس وقت مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں سات لاکھ آبادکار ہیں۔انیس سو سڑسٹھ سے اکیانوے تک جتنی یہودی بستیاں اس زمین پر تعمیر کی گئیں۔ان سے دوگنی گزشتہ چونتیس برس میں ابھر آئی ہیں۔اس پورے خطے کی شکل تیزی سے بدل رہی ہے۔فلسطینیوں کی زمینوں میں سے دورویہ باڑھ والی سڑکیں گذار کے انھیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔کئی آبادکار بستیاں قصبوں کا روپ دھار چکی ہیں۔

ان بستیوں کی تعمیر یا فلسطینوں کی املاک بلڈوز کرنے کے کام سے پیدا ہونے والا ملبہ فلسطینیوں کی بچھی کھچی زمینوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔زمین کا مالک خصوصی اجازت نامے کے بغیر اپنے ہی کھیت میں قدم نہیں رکھ سکتا۔اکثر یہ اجازت نامہ سال میں ایک بار تب جاری ہوتا ہے جب بوائی یا کٹائی کا موسم گذر جائے۔ بڑی بڑی شاہراہوں کے اطراف جو باغات یا کھیت ہیں ان میں فلسطینی کسانوں کو سیکیورٹی خدشات کے سبب داخلے کی قطعاً اجازت نہیں۔

گزشتہ ہفتے میں رملہ کے قریب المغیر گاؤں کی ملکیت زیتون کے تین ہزار درخت اسرائیلی فوج نے یہ کہہ کر کاٹ دیے کہ ان درختوں کی آڑ لے کر سامنے کی یہودی بستی پر حملہ ہو سکتا ہے۔

 اسرائیلی فوج اور پولیس کے سائے میں مسلح یہودی آبادکار جس بستی ، قصبے ، کھیت اور باغ میں جب چاہیں گھس سکتے ہیں ، سامان اور فصل لوٹ سکتے ہیں اور آگ بھی لگا سکتے ہیں۔کسی فلسطینی کسان کو قتل کر دیں تو گرفتاری کے بعد ہفتے بھر میں ضمانت ہو جاتی ہے۔تاہم کوئی فلسطینی پتھر اٹھالے تو اسے خصوصی قانون کے تحت چھ ماہ بنا فردِ جرم جیل میں رکھا جا سکتا ہے اور چھ ماہ کی اس مدت میں عدالتیں توسیع کا بھی اختیار رکھتی ہیں۔یعنی قانون کے انجیر پتے ( فگ لیف ) کی آڑ میں کوئی بھی فلسطینی بچہ ، مرد ، عورت ، ضعیف غیر معینہ مدت تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔

جون انیس سو سڑسٹھ میں جب صرف چھ دن کی لڑائی میں گولان ، مغربی کنارہ ، غزہ اور جزیرہ نما سینا اسرائیل کے ہاتھ آ گیا تو اسے خدائی اشارہ سمجھا گیا کہ یہ وہ زمین ہے جسے معجزاتی طور پر بنی اسرائیل کو دوبارہ لوٹا دیا گیا ہے۔

یہ عقیدہ اتنا راسخ ہوتا چلا گیا کہ جب نومبر انیس سو چھیانوے میں گولی کا شکار ہونے والے وزیرِ اعظم ایتزاک رابین کے قاتل یگال آمر سے اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی شن بیت نے پوچھ گچھ شروع کی تو یگال نے سوال و جواب سے پہلے وائن طلب کی تاکہ وہ یہودی امت کو راہ سے بھٹکا کے فلسطینیوں سے امن معاہدہ کر کے خدائی احکامات سے بغاوت کرنے والے ( ایتزاک رابین ) کی موت پر شکرانے کا جام بلند کر سکے۔

آج یگال آمر کی طرح سوچنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔انھیں یقین ہے کہ سات اکتوبر دو ہزار تئیس ، جون انیس سو سڑسٹھ کی فتح سے بھی بڑا معجزہ ہے۔خدا کہہ رہا ہے کہ اب جوڈیا سماریا ( غربِ اردن ) کی زمین مکمل خالی کروانے کا وقت ہے۔گزشتہ برس وزیرِ آبادکاری اوریت اسٹورک نے ہیبرون کے نزدیک ایک پہاڑی پر آبادکاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔’’ سات اکتوبر سے پہلے جو ٹریفک لائٹ زرد تھی ، اب سبز ہو چکی ہے ‘‘۔

کوئی بھی نئی بستی بسانے کا مجرب فارمولا کچھ یوں ہے۔چند مسلح آبادکار ایک بڑے قطعِ اراضی پر راتوں رات قابض ہو جاتے ہیں۔ان کا قبضہ اسرائیلی قانون کے مطابق بظاہر غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔چند دنوں بعد کوئی عدالت عارضی طور پر قبضہ گیروں کا حقِ ملکیت مشروط طور پر تسلیم کر لیتی ہے۔اس کے کچھ عرصے بعد محکمہ آبادکاری اس قبضے کو جائز قرار دے دیتا ہے۔یوں نئی بستی سرکاری مالی اعانت کی مستحق بن جاتی ہے۔یعنی اب یہاں بسنا حلال ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انیس سو سڑسٹھ سکتے ہیں ا بادکار ہیں ان

پڑھیں:

اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ / یروشلم(مانیٹرنگ ڈیسک/آن لائن) فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے جمعے کو مسلسل چوتھے روز غزہ کی پٹی پر حملے کیے، جس میں 3 افراد شہید ہوگئے یہ واقعہ جنگ بندی معاہدے کے لیے ایک اور امتحان ثابت ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیل نے شمالی غزہ کے علاقوں میں گولہ باری اور فائرنگ کی، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی پر قائم ہے۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق ایک اور فلسطینی شہری گزشتہ روز ہونے والے حملوں میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔ غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ حماس کی جانب سے اسرائیل کے 2 یرغمالیوں کی لاشیں حکام کے حوالے کرنے کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں تلاش کرنے اور انہیں ملبے سے نکالنے میں وقت لگے گا، جبکہ اسرائیل نے الزام عاید کیا ہے کہ حماس تاخیر کرکے جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔اسرائیلی فوج کی ایک اعلیٰ ترین قانونی افسر میجر جنرل یفات تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق تومر یروشلمی اسرائیلی فوج میں ملٹری ایڈووکیٹ جنرل کے طور پر تعینات تھیں اور ان کے خلاف قیدیوں پر فوجی اہلکاروں کے تشدد کی وڈیو لیک ہونے کے معاملے پر تحقیقات جاری تھیں۔ میجر جنرل یفات تومر یروشلمی انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا کہ میں تسلیم کرتی ہوں کہ میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے یہ مواد میڈیا کو جاری کرنے کی اجازت دی۔ میں اس فیصلے کی مکمل ذمہ داری لیتی ہوں۔ انہوں نے اپنے استعفے میں اعتراف کیا کہ انہوں نے خود ایک ایسی وڈیو میڈیا کو لیک کرنے کی منظوری دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی وزارت اطلاعات نے ایک بھارتی نیوز چینل کے ان غیر تصدیق شدہ یا سیاسی مقاصد پر مبنی دعووں کی تردید کی ہے کہ پاکستان غزہ میں 20 ہزار فوجی بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے اور یہ کہ پاکستان نے اپنے پاسپورٹ سے یہ شق ہٹا دی ہے کہ یہ ’اسرائیل کے لیے کارآمد نہیں‘۔ بھارتی نیوز آؤٹ لَیٹ ’ری پبلک ٹی وی‘ نے یہ الزامات لگائے تھے، جس میں فوجیوں کی تعداد کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ پاکستان اپنی افواج مغربی ممالک اور اسرائیل کی نگرانی میں غزہ بھیجنے کا ارادہ کر رہا ہے۔ لبنانی صدر جوزف عون نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ ملک کے جنوبی حصے میں اسرائیل کی کسی بھی مزید دراندازی کا سختی سے مقابلہ کرے۔ گزشتہ کئی روز سے اسرائیلی افواج لبنانی سرزمین پر حملے کر رہی ہیں اور گزشتہ سال نومبر میں نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی روزانہ خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے اپنے2 یرغمالیوں امی رام کوپر اور سحر بروخ کی باقیات کی شناخت کر لی ہے، جن کی لاشیں حماس کی جانب سے واپس کی گئیں۔ وزیرِاعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں افراد کے اہلِ خانہ کو اس وقت آگاہ کیا گیا جب قومی ادارہ برائے فرانزک میڈیسن نے شناختی عمل مکمل کرلیا۔

مانیٹرنگ ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • نئے پراپرٹی آرڈیننس کی منظوری سے مریم نواز نے قبضہ مافیا کا مستقل راستہ روک دیا ہے: عظمیٰ بخاری
  • لاہورمیں زیرِ زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے نیا منصوبہ شروع
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کا منصوبہ 
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی فوٹیج لیک کرنے پر اسرائیلی چیف ملٹری پراسیکیوٹر برطرف
  • قبضہ مافیا کا خاتمہ؛ پنجاب میں پراپرٹی آرڈیننس منظور، مقدمات کے فیصلے 90 دن میں ہوں گے
  • پنجاب میں قبضہ مافیا کا خاتمہ؛ زمینوں کے تنازعات کا نیا نظام نافذ
  • پاک افغان مذاکرات میں ایسی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جس سے زیادہ امیدیں وابستہ کی جائیں، خواجہ آصف
  • بحرانوں سے نجات کا راستہ  صرف قرآن و سنت میں: زبیر احمد ظہیر