بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا مقابلہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام شہروں کی ترقی کا جدید راستہ ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک کا کیا ہی ذکرکیا جائے، پڑوسی ملک بھارت میں نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے نظام نے شہروں کو ترقی کی طرف راغب کیا ہے۔ جدید چین میں مقامی حکومتوں کے نظام کے ذریعے تمام چھوٹے بڑے شہر یورپی ممالک کی طرح جدید شہروں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔
بقول مارکسٹ دانشور ڈاکٹر تیمور، چین کی حکومت نے اس جدید نظام کے ذریعے کل آبادی کے 90 فیصد لوگوں کو گھر مہیا کردیے ہیں مگر آزادی کے 76 سال بعد نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام ایک خواب لگتا ہے۔ اس ملک کے چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں پہلی دفعہ نچلی سطح تک اختیارات کا جدید نظام معتارف کرایا تھا۔ اس نظام کے تحت بڑے شہروں میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ قائم ہوئی تھیں اور ٹاؤن اور یونین کونسلزکو بااختیارکرکے ترقی کا ایک نیا ماڈل تیار کیا گیا تھا۔ اس ماڈل کے تحت تعلیم اور صحت کے شعبہ مختصر طور پر سٹی ڈسٹرکٹ حکومتوں کے پاس آگئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کا ادارہ استعماری دورکی یادگار ہے۔
اس نظام میں ضلع انتظامیہ کے اختیارات سٹی ناظم کو منتقل ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے نظریہ دان جنرل تنویر نقوی کے تیار کردہ نظام میں محکمہ پولیس کو منتخب نمایندوں کی نگرانی میں دینے کا طریقہ کار وضح کیا گیا تھا۔ یہ نظام مکمل طور پر نافذ نہ ہوسکا تو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا اور 1973ء کا آئین مکمل طور پر نافذ ہوا۔
جنرل تنویر نقوی کے نظام میں کچھ بنیادی خامیاں ظاہر ہوئیں مگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ نے اس جدید نظام کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے لیے خطرہ محسوس کیا، یوں پورے ملک میں مقررہ وقت پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہیں ہوئے۔ بلدیاتی اداروں کو ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جانے لگا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صرف صوبہ سندھ میں بلدیاتی نظام کے انتخابات پر توجہ دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی منشاء کے خلاف بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے احکامات جاری کیے گئے۔ یہ انتخابات کئی دفعہ ملتوی ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے بالآخر ایک کمزور بلدیاتی قانون نافذ کیا جس کی بناء پر کراچی شہر میں کوڑے کے پہاڑ بن گئے۔ ہر سڑک پر سیوریج کا پانی نظر آنے لگا۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی نایاب ہوا۔ بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہوئی اور ایک بار پھر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی نے دھرنے دیے۔ اس وقت کے صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا کہ بلدیاتی قانون میں خامیاں ہیں، یوں ایک نیا قانون تیار ہوا۔
میئر کے اختیارات بڑھ گئے اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کارپوریشن کا رسمی سربراہ میئر کراچی کو بنایا گیا۔ اسی طرح شہر میں 25 ٹاؤن بنائے گئے مگر ٹاؤن اور یونین کونسل کو اختیارات دینے کے معاملات کو اہمیت نہ ملی۔ بہرحال کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ ایم کیو ایم نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ شہر کے 25ٹاؤنز میں سے جماعت اسلامی کے پاس 9 ٹاؤن آئے جب کہ باقی ٹاؤنز پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پاس آئے۔ سندھ کی حکومت نے صوبائی مالیاتی کمیشن قائم نہیں کیا جو کہ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت ضروری ہے۔
بہرحال اب کراچی کے میئر، پیپلز پارٹی کے ٹاؤنز، چیئرمین اور جماعت اسلامی کے ٹاؤنز کی کارکردگی کا مقابلہ ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے گزشتہ دنوں اپنے 9 ٹاؤنز کی کارکردگی اور بلدیہ کراچی کے ایوان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی کارکردگی کے بارے میں ایک مجلس منعقد کی۔ اس طویل مجلس میں ٹاؤن چیئرمین نے کہا کہ گزشتہ 2 برسوں کے دوران 71پارک بحال کیے گئے ہیں۔
اسی طرح 92 اسکولوں کی حالت بہتر کی گئی ہے۔ ان چیئرمین حضرات کا کہنا تھا کہ اسکولوں کی حالت بہتر ہونے سے انرولمنٹ کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اور تقریباً 60ہزار داخلے بڑھ گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفرکا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے واضح پالیسی اختیارکی ہے۔ ان کے زیرِنگرانی ٹاؤنز میں کوئی اسکول کسی این جی او کے سپرد نہیں کیا جائے گا، جس این جی او کے ماضی میں اسکول سپرد کیے گئے تھے ان کے معاہدوں کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف ٹاؤنز میں ماڈل محکمے تعمیر کیے گئے ہیں۔
اسی طرح ایک لاکھ اسٹریٹ لائٹ مختلف شاہراہوں پر نصب کی گئی ہیں۔ ٹاؤنز چیئرمینز نے کہا کہ واٹر کارپوریشن کا چیئرمین میئر کراچی ہے مگر پانی فراہم کرنے والا یہ ادارہ بلدیہ کراچی اور ٹاؤنز کی نگرانی میں نہیں ہے اس کے باوجود جماعت اسلامی کے 9 ٹاؤنز میں اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت 86 ہزار ایسے گھروں کو پانی فراہم کیا گیا جہاں کبھی پانی نہیں آتا تھا۔ اسی طرح ان ٹاؤنز میں سیوریج کے پانی کی نکاسی کے نظام کو بھی بہتر بنایا گیا اور بعض ٹاؤنز میں بارش کے پانی کے محفوظ کرنے کے لیے جدید طریقوں کے مطابق ایک ماڈل نظام بنایا گیا ہے۔
کچھ ٹاؤنز میں ماڈل محلے بنائے گئے۔ دیگر ٹاؤنز بھی یہ ماڈل اپنا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر منعم ظفر نے اپنی طویل خطاب میں اس نکتہ پر بار بار زور دیا کہ جن 9 ٹاؤنز میں جماعت اسلامی کے منتخب چیئرمین ہیں وہاں کئی یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کا تعلق پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے ہے مگر ان یونین کونسلوں کو بھی وہی فنڈز اور سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جو دیگر ٹاؤنزکو دی گئیں۔ ان چیئرمین حضرات نے بار بار یہ دعویٰ کیا کہ ٹاؤن اور یونین کونسلوں کے عملے کی تنخواہوں اور پنشن کے بقایا جات انھیں ورثے میں ملے تھے مگر ایک شفاف نظام کی بناء پر ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کو باقاعدہ بنایا گیا ہے۔
ان چیئرمین حضرات کا ایک بڑا شکوہ یہ تھا کہ سندھ کی حکومت کوڑا اٹھانے کے لیے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کارپوریشن قائم کی ہے۔ اس کارپوریشن کو مکمل طور پر مخصوص علاقوں کی بیوروکریسی کے حوالہ کیا گیا ہے اور اب کارپوریشن کا ٹاؤن اور یونین کونسل سے رابطہ کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ یونین کونسل کے چیئرمین اور علاقہ کونسلر کو یہ علم نہیں کہ ان کے علاقے میں صفائی کے کام کے لیے کتنے خاکروب دستیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محلے کی سڑکوں یا مرکزی شاہراہوں پر ہر طرف کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
(راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ جمشید ٹاؤن کی چیئرمین شپ اب پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور پی ای سی ایچ ایس کی یونین کونسل جماعت اسلامی کے پاس ہے مگر کونسلر سے صفائی کے ناقص نظام کی شکایت کی گئی تو انھوں نے کہا کہ چیئرمین جمشید ٹاؤن نے تمام خاکروبوں کا تبادلہ کہیں اورکردیا ہے)۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک علاقہ کا کونسلر اور یونین کونسل کا چیئرمین بااختیار نہیں ہوگا صفائی اور سیوریج کا نظام بہتر نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ کوڑے اٹھانے والی کارپوریشن کے سالانہ اخراجات کروڑوں اور اربوں روپوں تک پہنچ گئے ہیں مگر صفائی کا نظام ناقص ہے۔ اس مجلس میں اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کراچی کے شہریوں نے گزشتہ برسوں کے دوران ایک ارب 62 کروڑ روپے ٹنکروں سے پانی کی خریداری پر خرچ ہوئے۔
بلدیہ کراچی میں قائد حزب اختلاف سیف الدین ایڈووکیٹ نے اپنے دو سالہ تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلدیہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ سالانہ ترقیاتی بجٹ کا 80فیصد حصہ کسی نہ کسی صورت کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ پھر اس مجلس میں یہ بھی ذکر آیا کہ شہر کی آبادی تقریباً 3کروڑ کے قریب ہے مگر اس آبادی کی ضرورت کے مطابق کراچی شہر کا ماسٹر پلان تیار نہیں کیا گیا ہے۔ جب تک شہری سہولتوں کے مطابق نیا ماسٹر پلان تیار نہیں ہوگا ترقی کا عمل تیز نہیں ہوگا۔
اس مجلس میں ناجائز تعمیرات کا بھی ذکر ہوا۔ شہر میں ناقص تعمیرات اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے انسانی المیہ کی براہِ راست ذمے داری حکومتِ سندھ پر عائد کی گئی۔ اس مجلس میں بعض صحافیوں نے ٹاونز چیئرمین کی کارکردگی پر سخت تنقید کی۔ ان صحافیوں کا کہنا تھا کہ جن ٹاؤنز کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کے پاس ہے ان کے چیئرمین کے دفاتر میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کے ٹاؤنز چیئرمین تو صحافیوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ بجٹ دستاویزات تک صحافیوں کو فراہم نہیں کی جاتیں۔ جماعت اسلامی کے امیر منعم ظفر نے کہا کہ آیندہ سال ایسا نہیں ہوگا۔ اس مجلس میں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر جاوید بلوانی نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آنا ہوگا۔ چیمبر کے صدر تاجروں کے اس وفد میں شامل تھے جس وفد نے سپہ سالار سے ملاقات کی تھی۔ جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین نے اپنی 2 سالہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کردی۔
اب پیپلز پارٹی کے ٹاؤن چیئرمینز کو اپنی 2 سالہ کارکردگی عوام کے سامنے لانی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس بلدیاتی نظام میں ٹاؤنز اور یونین کونسلوں کو بااختیار ہونا چاہیے اور سندھ کی حکومت کو کراچی چیمبر آف کامرس کے صدرکی تقریرکے مضمرات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹاؤن اور یونین کونسل جماعت اسلامی کے بلدیاتی اداروں پیپلز پارٹی کے یونین کونسلوں بلدیاتی نظام کی کارکردگی بلدیہ کراچی نہیں ہوگا ٹاؤنز میں بنایا گیا نے کہا کہ ٹاؤنز کی کراچی کے کی حکومت کے ٹاؤن کے نظام کیے گئے کا کہنا کیا گیا گئے ہیں نہیں کی نظام کے ہے مگر گیا ہے کی گئی کے تحت کے پاس کے لیے
پڑھیں:
ڈیجیٹل یوتھ ہب نوجوانوں کومصنوعی ذہانت پر مبنی وسائل تک ذاتی رسائی فراہم کرے گا، چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام سے یونیسف کی نمائندہ کی ملاقات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 ستمبر2025ء) چئیرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود احمد خاں نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل یوتھ ہب نوجوانوں کومصنوعی ذہانت پر مبنی وسائل تک ذاتی رسائی فراہم کرے گا، حکومت پاکستان تعلیمی نظام میں اصلاحات کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔بدھ کو وزیراعظم یوتھ پروگرام سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خاں سے وزیراعظم آفس میں یونیسف کی نمائندہ مس پینیلے آئرنسائیڈ نے ملاقات کی۔ملاقات میں پاکستان میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے، تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے اور رضاکارانہ کام کو فروغ دینے کے لیے اہم منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے دوران مس آئرنسائیڈ نے ڈیجیٹل یوتھ ہب، پاکستان کے تعلیمی نظام اورقومی رضا کارکورپ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔(جاری ہے)
یونیسف کی نمائندہ مس آئرنسائیڈ نے وزیراعظم یوتھ پروگرام کے ڈیجیٹل یوتھ ہب اور قومی رضا کار کورپ کی حمایت کرتے ہوئے ان میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔
انہوں نے پاکستان کے تعلیمی نظام میں اہم اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود احمد خاں نے کہا کہ وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت ڈیجیٹل یوتھ ہب نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت پر مبنی وسائل تک ذاتی رسائی فراہم کرے گا، ڈیجیٹل یوتھ ہب پاکستان کے نوجوانوں کے لیے ایک اہم موقع ثابت ہوگا۔ انہو ں نے کہا کہ حکومت پاکستان تعلیمی نظام میں اصلاحات کے لیے اقدامات کر رہی ہے،نیا تعلیمی نظام نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجز کے لیے تیار کرے گا۔رانا مشہود احمد خاں نے کہا کہ قومی رضا کار کورپ کے ذریعے 20 لاکھ رضاکاروں کو تربیت دی جائے گی، قومی رضاکار کور پ کا مقصد نوجوانوں کو مثبت سماجی تبدیلی لانے کے لیے بااختیار بنانا ہے۔