Express News:
2025-11-03@02:02:06 GMT

بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا مقابلہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT

نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام شہروں کی ترقی کا جدید راستہ ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک کا کیا ہی ذکرکیا جائے، پڑوسی ملک بھارت میں نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے نظام نے شہروں کو ترقی کی طرف راغب کیا ہے۔ جدید چین میں مقامی حکومتوں کے نظام کے ذریعے تمام چھوٹے بڑے شہر یورپی ممالک کی طرح جدید شہروں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔

بقول مارکسٹ دانشور ڈاکٹر تیمور، چین کی حکومت نے اس جدید نظام کے ذریعے کل آبادی کے 90 فیصد لوگوں کو گھر مہیا کردیے ہیں مگر آزادی کے 76 سال بعد نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام ایک خواب لگتا ہے۔ اس ملک کے چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں پہلی دفعہ نچلی سطح تک اختیارات کا جدید نظام معتارف کرایا تھا۔ اس نظام کے تحت بڑے شہروں میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ قائم ہوئی تھیں اور ٹاؤن اور یونین کونسلزکو بااختیارکرکے ترقی کا ایک نیا ماڈل تیار کیا گیا تھا۔ اس ماڈل کے تحت تعلیم اور صحت کے شعبہ مختصر طور پر سٹی ڈسٹرکٹ حکومتوں کے پاس آگئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کا ادارہ استعماری دورکی یادگار ہے۔

اس نظام میں ضلع انتظامیہ کے اختیارات سٹی ناظم کو منتقل ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے نظریہ دان جنرل تنویر نقوی کے تیار کردہ نظام میں محکمہ پولیس کو منتخب نمایندوں کی نگرانی میں دینے کا طریقہ کار وضح کیا گیا تھا۔ یہ نظام مکمل طور پر نافذ نہ ہوسکا تو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا اور 1973ء کا آئین مکمل طور پر نافذ ہوا۔

جنرل تنویر نقوی کے نظام میں کچھ بنیادی خامیاں ظاہر ہوئیں مگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ نے اس جدید نظام کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے لیے خطرہ محسوس کیا، یوں پورے ملک میں مقررہ وقت پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہیں ہوئے۔ بلدیاتی اداروں کو ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جانے لگا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صرف صوبہ سندھ میں بلدیاتی نظام کے انتخابات پر توجہ دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی منشاء کے خلاف بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے احکامات جاری کیے گئے۔ یہ انتخابات کئی دفعہ ملتوی ہوئے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے بالآخر ایک کمزور بلدیاتی قانون نافذ کیا جس کی بناء پر کراچی شہر میں کوڑے کے پہاڑ بن گئے۔ ہر سڑک پر سیوریج کا پانی نظر آنے لگا۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی نایاب ہوا۔ بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہوئی اور ایک بار پھر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی نے دھرنے دیے۔ اس وقت کے صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا کہ بلدیاتی قانون میں خامیاں ہیں، یوں ایک نیا قانون تیار ہوا۔

میئر کے اختیارات بڑھ گئے اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کارپوریشن کا رسمی سربراہ میئر کراچی کو بنایا گیا۔ اسی طرح شہر میں 25 ٹاؤن بنائے گئے مگر ٹاؤن اور یونین کونسل کو اختیارات دینے کے معاملات کو اہمیت نہ ملی۔ بہرحال کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ ایم کیو ایم نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ شہر کے 25ٹاؤنز میں سے جماعت اسلامی کے پاس 9 ٹاؤن آئے جب کہ باقی ٹاؤنز پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پاس آئے۔ سندھ کی حکومت نے صوبائی مالیاتی کمیشن قائم نہیں کیا جو کہ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت ضروری ہے۔

 بہرحال اب کراچی کے میئر، پیپلز پارٹی کے ٹاؤنز، چیئرمین اور جماعت اسلامی کے ٹاؤنز کی کارکردگی کا مقابلہ ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے گزشتہ دنوں اپنے 9 ٹاؤنز کی کارکردگی اور بلدیہ کراچی کے ایوان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی کارکردگی کے بارے میں ایک مجلس منعقد کی۔ اس طویل مجلس میں ٹاؤن چیئرمین نے کہا کہ گزشتہ 2 برسوں کے دوران 71پارک بحال کیے گئے ہیں۔

اسی طرح 92 اسکولوں کی حالت بہتر کی گئی ہے۔ ان چیئرمین حضرات کا کہنا تھا کہ اسکولوں کی حالت بہتر ہونے سے انرولمنٹ کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اور تقریباً 60ہزار داخلے بڑھ گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفرکا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے واضح پالیسی اختیارکی ہے۔ ان کے زیرِنگرانی ٹاؤنز میں کوئی اسکول کسی این جی او کے سپرد نہیں کیا جائے گا، جس این جی او کے ماضی میں اسکول سپرد کیے گئے تھے ان کے معاہدوں کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف ٹاؤنز میں ماڈل محکمے تعمیر کیے گئے ہیں۔

اسی طرح ایک لاکھ اسٹریٹ لائٹ مختلف شاہراہوں پر نصب کی گئی ہیں۔ ٹاؤنز چیئرمینز نے کہا کہ واٹر کارپوریشن کا چیئرمین میئر کراچی ہے مگر پانی فراہم کرنے والا یہ ادارہ بلدیہ کراچی اور ٹاؤنز کی نگرانی میں نہیں ہے اس کے باوجود جماعت اسلامی کے 9 ٹاؤنز میں اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت 86 ہزار ایسے گھروں کو پانی فراہم کیا گیا جہاں کبھی پانی نہیں آتا تھا۔ اسی طرح ان ٹاؤنز میں سیوریج کے پانی کی نکاسی کے نظام کو بھی بہتر بنایا گیا اور بعض ٹاؤنز میں بارش کے پانی کے محفوظ کرنے کے لیے جدید طریقوں کے مطابق ایک ماڈل نظام بنایا گیا ہے۔

کچھ ٹاؤنز میں ماڈل محلے بنائے گئے۔ دیگر ٹاؤنز بھی یہ ماڈل اپنا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر منعم ظفر نے اپنی طویل خطاب میں اس نکتہ پر بار بار زور دیا کہ جن 9 ٹاؤنز میں جماعت اسلامی کے منتخب چیئرمین ہیں وہاں کئی یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کا تعلق پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے ہے مگر ان یونین کونسلوں کو بھی وہی فنڈز اور سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جو دیگر ٹاؤنزکو دی گئیں۔ ان چیئرمین حضرات نے بار بار یہ دعویٰ کیا کہ ٹاؤن اور یونین کونسلوں کے عملے کی تنخواہوں اور پنشن کے بقایا جات انھیں ورثے میں ملے تھے مگر ایک شفاف نظام کی بناء پر ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کو باقاعدہ بنایا گیا ہے۔

ان چیئرمین حضرات کا ایک بڑا شکوہ یہ تھا کہ سندھ کی حکومت کوڑا اٹھانے کے لیے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کارپوریشن قائم کی ہے۔ اس کارپوریشن کو مکمل طور پر مخصوص علاقوں کی بیوروکریسی کے حوالہ کیا گیا ہے اور اب کارپوریشن کا ٹاؤن اور یونین کونسل سے رابطہ کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ یونین کونسل کے چیئرمین اور علاقہ کونسلر کو یہ علم نہیں کہ ان کے علاقے میں صفائی کے کام کے لیے کتنے خاکروب دستیاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محلے کی سڑکوں یا مرکزی شاہراہوں پر ہر طرف کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔

(راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ جمشید ٹاؤن کی چیئرمین شپ اب پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور پی ای سی ایچ ایس کی یونین کونسل جماعت اسلامی کے پاس ہے مگر کونسلر سے صفائی کے ناقص نظام کی شکایت کی گئی تو انھوں نے کہا کہ چیئرمین جمشید ٹاؤن نے تمام خاکروبوں کا تبادلہ کہیں اورکردیا ہے)۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک علاقہ کا کونسلر اور یونین کونسل کا چیئرمین بااختیار نہیں ہوگا صفائی اور سیوریج کا نظام بہتر نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ کوڑے اٹھانے والی کارپوریشن کے سالانہ اخراجات کروڑوں اور اربوں روپوں تک پہنچ گئے ہیں مگر صفائی کا نظام ناقص ہے۔ اس مجلس میں اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کراچی کے شہریوں نے گزشتہ برسوں کے دوران ایک ارب 62 کروڑ روپے ٹنکروں سے پانی کی خریداری پر خرچ ہوئے۔

بلدیہ کراچی میں قائد حزب اختلاف سیف الدین ایڈووکیٹ نے اپنے دو سالہ تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلدیہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ سالانہ ترقیاتی بجٹ کا 80فیصد حصہ کسی نہ کسی صورت کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ پھر اس مجلس میں یہ بھی ذکر آیا کہ شہر کی آبادی تقریباً 3کروڑ کے قریب ہے مگر اس آبادی کی ضرورت کے مطابق کراچی شہر کا ماسٹر پلان تیار نہیں کیا گیا ہے۔ جب تک شہری سہولتوں کے مطابق نیا ماسٹر پلان تیار نہیں ہوگا ترقی کا عمل تیز نہیں ہوگا۔

اس مجلس میں ناجائز تعمیرات کا بھی ذکر ہوا۔ شہر میں ناقص تعمیرات اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے انسانی المیہ کی براہِ راست ذمے داری حکومتِ سندھ پر عائد کی گئی۔ اس مجلس میں بعض صحافیوں نے ٹاونز چیئرمین کی کارکردگی پر سخت تنقید کی۔ ان صحافیوں کا کہنا تھا کہ جن ٹاؤنز کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کے پاس ہے ان کے چیئرمین کے دفاتر میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔

جماعت اسلامی کے ٹاؤنز چیئرمین تو صحافیوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ بجٹ دستاویزات تک صحافیوں کو فراہم نہیں کی جاتیں۔ جماعت اسلامی کے امیر منعم ظفر نے کہا کہ آیندہ سال ایسا نہیں ہوگا۔ اس مجلس میں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر جاوید بلوانی نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آنا ہوگا۔ چیمبر کے صدر تاجروں کے اس وفد میں شامل تھے جس وفد نے سپہ سالار سے ملاقات کی تھی۔ جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین نے اپنی 2 سالہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کردی۔

اب پیپلز پارٹی کے ٹاؤن چیئرمینز کو اپنی 2 سالہ کارکردگی عوام کے سامنے لانی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس بلدیاتی نظام میں ٹاؤنز اور یونین کونسلوں کو بااختیار ہونا چاہیے اور سندھ کی حکومت کو کراچی چیمبر آف کامرس کے صدرکی تقریرکے مضمرات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹاؤن اور یونین کونسل جماعت اسلامی کے بلدیاتی اداروں پیپلز پارٹی کے یونین کونسلوں بلدیاتی نظام کی کارکردگی بلدیہ کراچی نہیں ہوگا ٹاؤنز میں بنایا گیا نے کہا کہ ٹاؤنز کی کراچی کے کی حکومت کے ٹاؤن کے نظام کیے گئے کا کہنا کیا گیا گئے ہیں نہیں کی نظام کے ہے مگر گیا ہے کی گئی کے تحت کے پاس کے لیے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے: حافظ نعیم

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے شہر میں سڑکیں بنی ہوئی نہیں ہیں لیکن شہریوں کو ہزاروں کے ای چالان آ رہے ہیں، ہم لوٹ مار اور قبضے کے نظام سے شہر کو آزادی دلائیں گے۔ایک تقریب سے خطاب میں حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کراچی میں جماعت اسلامی کے منتخب اراکین اپنی بساط سے زیادہ کام کر رہے ہیں اور کریں گے، ایک مرتبہ پھر 9 ٹاؤنز میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ان کا کہنا تھا مرتضیٰ وہاب کے کام بھی ان کو دیکھنے پڑتے ہیں، ایس تھری منصوبہ کہاں چلا گیا، شہر میں ٹرانسپورٹ ہے نہیں، سڑکیں بنی نہیں ہیں اور ای چالان ہزاروں میں آرہا ہے، کراچی سرکلر ریلوے نہیں بن رہا ہے، ریڈ لائن نے یونیورسٹی روڈ کا برا حال کر رکھا ہے، اورنج لائن میں بھی پورے اورنگی کو کور نہیں کیا گیا۔حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کراچی میں قبضے کی سیاست جاری ہے، گاؤں اور دیہات پر قبضے کے بعد شہروں پر قبضہ کر لیا گیا ہے، لاہور میں جو چالان 200 روپے کا ہے سندھ میں 5 ہزار روپے کا ہے، یہ کیا ڈرامہ ہے سڑکیں ٹھیک نہیں اور مہنگے ای چالان کیے جارہے ہیں، ہم لوٹ مار اور قبضے کے نظام سے کراچی شہر کو آزادی دلائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی سیٹوں میں من پسند حلقہ بندیوں کی وجہ اضافہ ہوا، پیپلز پارٹی نے دھاندلی کرکے اپنا میئر بنایا، بلدیاتی انتخابات جیت کر لوگ کہتے تھے اختیارات ملیں گے نہیں تو کام کیسے کریں گے، ابھی تک پیپلزپارٹی نے ٹاؤن کو اختیارات منتقل نہیں کیے۔امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کچرا اٹھانے کے اختیارات بھی سندھ حکومت کے پاس ہے، گھر سے جو کچرا اٹھایا جاتا ہے اس کے پیسے لوگ خود ادا کرتے ہیں، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کے پاس گھر سے کچرا اٹھا کر لینڈ فیلڈ سائٹ تک پہنچانے کا پورا میکنزم موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹاؤنز کو کام کرنے سے روکا جا رہا ہے، سٹی وارڈنز کو استعمال کرکے کام میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، جماعت اسلامی اپنے ٹاؤن میں اختیارات سے بڑھ کر کام کر رہی ہے، جماعت اسلامی کے تحت تعمیر و ترقی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، نارتھ ناظم آباد میں کچھ بلاک کے لوگ شکایت کر رہے ہیں، ٹاؤن چیئرمین وہاں پر بھی کام کریں، شہر کی اونر شپ لیں۔ان کا کہنا تھا 12 سے 15 سال سے کراچی کے بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں، 15 سالوں میں پیپلز پارٹی نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا، سیوریج کا نظام بھی ٹاؤن کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر لیا ہے، کراچی کے نوجوانوں کو روزگار سے دور کر دیا گیا۔حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا تعلیم خیرات نہیں یہ ہمارے بچوں کا حق ہے، جنریشن زی دنیا میں انقلاب لا رہی ہے، اسی جنریشن زی کو مایوس کیا جا رہا ہے، جنریشن زی اگر مایوس ہوگئی تو پھر غلط راہ پر لگے گی، جماعت اسلامی بنو قابل پروگرام کے ذریعے جنریشن زی کو باصلاحیت بنا رہی ہے۔انہوں نے کہا حکومت سے کہنا چاہتا ہوں ہمیں کام کرنے دو، قبضہ کی سیاست اور کرپشن بند کرو، جماعت اسلامی تیاری کر رہی ہے اگر لوگ ہمارے ساتھ نکلے تو آپ کو جانا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کے سابق رکن سندھ اسمبلی اخلاق احمد مرحوم کی اہلیہ انتقال کر گئیں
  • ہمارے ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر سے کہیں زیادہ بہترہے ، حافظ نعیم الرحمن
  • پی پی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے، حافظ نعیم
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے: حافظ نعیم
  • ہمارے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات سے بڑھ کر کام کرنے کا وعدہ پورا کیا‘ حافظ نعیم الرحمن
  • چیئرمین نظام مصطفی پارٹی حنیف طیب اجتماع سے خطاب کررہے ہیں
  • ڈنگی کی وبا، بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کی غفلت
  • مخلوط تعلیمی نظام ختم کیا جائے،طلبہ یونین بحال کی جائے،احمد عبداللہ
  • جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کا میڈیا اجلاس
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی