’’ ڈانگ سوٹے‘‘ کی اہمیّت وفضیلت
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
آج اکیسویں صدی میں۔ جب کہ ٹیکنالوجی حیرت انگیز انقلاب برپا کرچکی ہے۔ مصنوعی ذہانت نے ہر چیز کے پیمانے اور معیار تک بدل دیے ہیں۔
علم نے جسمانی طاقت پر قابو پالیا ہے اور قلم نے بظاہر تلوار کو شکست دے دی ہے۔ مگر ان تمام سچائیوں کے باوجود آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیّت اقتصادی طاقت کے بجائے عسکری قوّت کی ہے، اور آج کے اس جدید ترین دور میں بھی دنیا کا چوہدری وہی ہے جو دیہاتی زبان میں ’’ڈانگ سوٹے‘‘ کا تگڑا ہے یعنی عسکری طاقت میں دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے، ہمارے قریب سے گزرنے والے دریائے چناب کے کنارے پر واقع ایک گاؤں کا چوہدری غریبوں اور کمزوروں پر ظلم اور زیادتی کیا کرتا تھا۔ غریب اور بے سہارا لوگ مجبوراً اس کے ظلم سہتے رہتے تھے مگر بیچارے بے بس تھے، کچھ کرنہیں سکتے تھے۔
اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لیے اس وقت ان کے پاس کوئی فورم نہیں تھا۔ نہ تو تھانہ پولیس مظلوموں کا ساتھ دیتی تھی اور نہ ہی اُس وقت میڈیا اتنا متحرّک تھا ۔ پنّوں نام کا ایک قصائی اسی گاؤں میں رہتا تھا، دو تین بار جب چوہدری نے اس کے ساتھ زیادتی کی اور بھری مجلس میں اسے گالیاں دیں تو اس نے اپنے چار بیٹوں اور تین بھتیجوں کو بلا کر میٹنگ کی اور ان سے کہا کہ روز روز کی بے عزتی برداشت نہیں ہوتی، تم کچھ غیرت کھاؤ، اور بازوؤں میں طاقت پیدا کرو۔ چنانچہ ان نوجوانوںنے صبح اٹھ کر سرسوں کے تیل کی مالش کے بعد سخت قسم کی ورزش کو اپنا معمول بنالیا۔
ایک سال کی سخت تربیت اور پنوں کی موٹیویشنل تقریروں سے اس کی برادری کے نوجوانوں میں جراّتِ انکار اور بغاوت کے آثار پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ چنانچہ ایک بار جب بھری پنچائیت میں چوہدری نے پنوں کو پھر بے عزّت کیا تو اس کے بیٹے اور بھتیجے ڈانگیں اور سوٹے لے کر آگئے اور چوہدری کو وہیں پیٹ ڈالا۔ گاؤں کے لوگوں نے بڑی مشکل سے چوہدری کو چھڑایا اور اس کے گھر پہنچایا۔ غریب نوجوانوں کے ’’عزّت بچاؤ آپریشن‘‘ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس روز کے بعد گاؤں کی سیاست یکسر تبدیل ہوگئی۔ پنّوں قصائی اب چوہدری پنّوں کہلانے لگا۔ اُس گاؤں کے دو چوہدری بن گئے۔ ایک سابقہ چوہدری اور دوسرا چوہدری پنّوں خاں۔
پیسہ تو عربوں کے پاس بے انتہا ہے، بلکہ عرب حکمرانوں کے پاس تو اتنا پیسہ ہے کہ انھیں سمجھ نہیں آتی کہ اس بے تحاشا دولت کو خرچ کیسے کیا جائے۔ وہ دنیا کے ہر خوبصورت ملک میں محلّات خرید چکے ہیں، مہنگے ترین جہاز لے چکے ہیں۔ ان کے پاس لگژری کاریں اتنی ہیں کہ انھیں تعداد بھی یاد نہیں۔ مگر ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل سے ہر وقت خوفزدہ رہتے ہیں، اسرائیلی وزیراعظم ایک دھمکی لگادے تو عرب حکمرانوں کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ اس لیے کہ ان کے پاس پیسہ تو ہے مگر ملک کی دفاع کے لیے عسکری طاقت نہیں۔ جدید مسلم دنیا کے سب سے بڑے شاعر اور مفکّر ڈاکٹر محمد اقبال نے درست ہی تو کہا تھا کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
جاپان دنیا کی اقتصادی سپر پاور ہے مگر عالمی معاملات میں اس کی کوئی اہمیّت یا وزن نہیں، جس طرح گاؤں کا چوہدری کسی بھی سیٹھ کو بلا کر اس سے گاؤں کی کسی اصلی یا جعلی فلاحی اسکیم کے لیے فنڈ لے لیتاہے، اس طرح عالمی چوہدری، امریکا جب چاہتا ہے جاپان کی گردن مروڑ کر اس سے رقم اینٹھ لیتا ہے۔
پچھلے دنوں امریکی صدر ٹرمپ نے تین امیر ترین عرب ملکوں کا دورہ کرکے ان سے اربوں ڈالرز لے لیے تو کچھ لوگوں کراچی کے بہت سے رائٹرز کو الطاف گروپ والا بھتّہ یاد آگیا۔ امریکی صدر ٹرمپ اگر تیسری دنیا کے ملکوں کو ڈکٹیشن دیتا ہے اور وہ اس کی ہدایات مانتے ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ امریکا سب سے امیر ملک ہے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ امریکا سب سے طاقتور ملک ہے۔جاپان بھی بڑا امیر ملک ہے۔ کیا جاپان بھارت اور پاکستان کی جنگ بند کراسکتا تھا؟ ہر گز نہیں۔یہ کام صرف وہ ملک کراسکتا ہے جو عسکری طور پر ان دونوں ملکوں سے بہت زیادہ طاقتور ہو۔
پاکستان کے عسکری سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی عالمی سطح پر پذیرائی اور عزّت افزائی عالمی میڈیا میں بھی زیرِ بحث رہی ہے۔ میڈیا نے لکھا کہ واشنگٹن میں تو ایک وقت میں کئی ممالک کے سربراہ پہنچے ہوتے ہیں۔ امریکی صدر سے ملاقات کے لیے انھیں انتظار کرنا پڑتا ہے، کئی صدور کو تو کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے، مگر ایک تیسری دنیا کے (قرضوں میں جکڑے ہوئے) ملک کے عسکری سربراہ کو امریکی صدر اس قدر عزّت دیتا ہے کہ اس کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کرتا ہے جب کہ پچھلے پچّاس سالوں میں کسی پاکستانی وزیراعظم یا صدر کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا کہ اسے امریکی صدر نے کھانے پر مدعو کیا ہو۔
ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب بھی وہی ہے۔ پاکستان کی ’’ڈنڈے سوٹے کی طاقت اور برتری‘‘ یعنی جب مئی کی جنگ میں پاکستان نے اپنے سے چھ گنا بڑے ملک کو پچھاڑ دیا اور اسے واضح شکست دے دی تو پاکستان کی عسکری طاقت کی پوری دنیا میں دھاک بیٹھ گئی۔ دنیا کے ہر خطے کے ممالک پاکستان سے مرعوب یا متّاثر ہوئے اوردنیا بھر میں پاکستان کی عزّت میں اضافہ ہوا۔
عرب ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانی ورکرز بتاتے ہیں کہ جنگ میں پاکستان کی فتح کے بعد لمبی لمبی گاڑیوں سے اتر کر عرب شیخ اور کفیل ہمارے پاس آکر ہم سے گلے ملتے رہے۔ جنگ میں برتری کی وجہ سے ہماری عزّت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وہ عرب ممالک جو پاکستانی حکمرانوں کے دوروں پر ناک منہ چڑھاتے تھے کہ یہ ہمیشہ پیسے مانگنے آجاتے ہیں اب پاکستان سے مرعوب ہوکر خود مالی امداد کی آفرز کررہے ہیں۔ کیونکہ کچھ پاکستانی سفارتکاروں کے بقول عرب آپس میں اس طرح کی گفتگو کرتے ہیں کہ ’’پاکستان مالی طور پر تو کمزور ہے مگر یہ ڈانگ سوٹے کا بہت تکڑا ہے۔ اگر اسرائیل بھی کسی ملک سے ڈرتا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے‘‘
پاکستان کی ائیرفورس کے بارے میں تو یورپ کے ماہرین اور میڈیا دونوں تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان ائیرفورس دنیا کی بہترین ہوائی فوج ہے اور یورپی میڈیا نے تو اسے "King of Skies" یعنی آسمانوں کا بادشاہ قرار دے دیا ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں عالمی سطح پر پاکستان کے فیلڈ مارشل سیّد عاصم منیر کی اہمیّت اور عزت افزائی میں جو اضافہ ہوا ہے وہ قابلِ فہم ہے۔
اس سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ آج بھی سب سے بڑی حقیقت ڈنڈے سوٹے کی (عسکری) طاقت ہے اور دنیا کے بڑے فیصلے آج بھی قوّتِ بازو سے ہی ہوتے ہیں۔ ہمارا حریف ہندوستان مالی طور پر ہم سے شاید دس گنا امیر ہو مگر چار روز جنگ نے عالمی سطح پر اس کا مقام اور رینکنگ مٹّی میں ملا دی ہے جب کہ پاکستان کا نام اور مقام آسمانوں تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے شاعر نے تو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
؎عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
اس وقت دنیا کا چوہدری بلاشبہ امریکا ہی ہے اور ابھی تک عسکری قوت میں کوئی ملک اسے چیلنج نہیں کرسکا۔ مگر امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی چوہدراہٹ کو اصل خطرہ روس سے نہیں چین سے ہے جو چند دھائیوں بعد امریکا کو چیلنج کر سکتا ہے، لہٰذا دنیا کے اکلوتے چوہدری کو سب سے بڑی تشویش بھی یہی ہے اور اسی کے لیے وہ پیش بندیاں کررہا ہے۔
بھارت سے امریکا کی سرد مہری کی بھی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ امریکا نے بھارت کو چین کے مقابلے کے لیے تیّار کر رکھا تھا مگر ٹرمپ نے دیکھ لیا ہے کہ وہ تو پاکستان کے سامنے نہیں ٹھہر سکا، چین کے سامنے کیا ٹھہرے گا۔
پاک فضائیہ کی واضح برتری اور ہمارے غیر معمولی عسکری صلاحیّت نے بھی پاکستان کو امریکی صدر کا ڈارلنگ بنادیا ہے، اسی برتری نے ہمارے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے دروازے کھول دیے ہیں اور اسی کانتیجہ ہے کہ آج بھارت میں Saner voices اٹھنا شروع ہوچکی ہیں اور ایسے معقول لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو مودی کو سمجھا رہے ہیں کہ ’’پاکستان سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی اور کیا ہم اچھے ہمسائیوں کی طرح نہیں رہ سکتے؟‘‘ پاکستان کو اپنی موجودہ عسکری صلاحیّت اور برتری برقرار رکھنا ہوگی تاکہ مذموم اور تشویشناک عزائم رکھنے والے ہمسائے ہمارے بارے میں برے خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں اور بالآخر اس طرح رہنا شروع کردیں جس طرح جرمنی اور فرانس رہ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی صدر پاکستان کی کا چوہدری دنیا کے ہے کہ ا کے لیے اہمی ت اور اس ہیں کہ ہے اور کے پاس
پڑھیں:
ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں انٹرنیٹ کی ایجاد یقیناً وہ سنگ میل تھا جس کو عبورکرتے ہی بنی نوع انسان نے اپنے لیے نہ صرف کئی سہولتوں کے در وا کر لیے بلکہ لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے کو بھی، گویا پلک جھپکتے طے کر لیا۔
ابتدا میں یہ سہولت صرف ویب کیم کے ذریعے سات سمندر رابطے تک محدود تھی مگر جب فیس بک اور پھر واٹس ایپ کی ایجاد ہوئی تو پھر تو ہفت اقلیم کا خزانہ ہی ہاتھ لگ گیا۔
عزیز و اقارب سے بات چیت، تصاویر کے تبادلے، دور پرے رشتے داروں کو دعوت نامے بھیجنا تو آسان ہوا ہی اب گھر بیٹھے کسی بھی ملک کے علاقے، ثقافت، کھانے، تہذیب و سیاسی حالات الغرض ہر چیز کو جاننا محض ایک اشارے کا محتاج ہوگیا۔
تیزی سے سمٹتی اس دنیا کو مزید قریب آنے کا موقع اس وقت ملا جب کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے۔
اندھا دھند چلتی دنیا کو بریک لگ گئے مگر واحد دنیا جو ابھی بھی رواں دواں تھی وہ انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔ اس وبا نے باقی دنیا کو تو روک دیا مگر انٹرنیٹ کی دنیا کی رفتار مزید بڑھا دی، آن لائن کاروبار تو مزید بڑھا ہی، اب پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان زور پکڑ گیا۔
آن لائن کلاسز جو پہلے صرف کچھ یونیورسٹیز میں ہوتی تھیں، اب گھر، گھر ہونے لگیں کاروباری سرگرمیاں، رقوم کا لین دین، درس و تدریس غرض کئی شعبوں میں آن لائن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا مگر کیا واقعی یہ جادو اپنے ساتھ صرف مثبت تبدیلیاں لایا ہے یا اس نے ہماری زندگی بظاہر آسان اور درحقیقت مشکل بنا دی ہے؟
پاکستان ایک ترقی پذیر اور کئی شعبہ جات میں زوال پذیر ملک ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ کے مصداق ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے ہم نے اپنا تو لیے ہیں مگر ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا نظام ہوگا؟ کسی مسئلے کے نتیجے میں اس کا حل کیا ہوگا؟
اس پر سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ نتیجہ صرف یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارا کام دگنا ہوگیا ہے اور کچھ جگہ ہم شدید نقصانات اٹھا رہے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے پہلی اور سادہ ترین مثال ہے، آن لائن شاپنگ کی جو بے انتہا مقبول اور با سہولت ہے اس نے نہ صرف بڑے بڑے برانڈز کو چار چاند لگا دیے ہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا، ہر چیز میں تنوع مزید بڑھا دیا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا اور مقابلہ بہت سخت ہوگیا۔
آپ ایک چیزکی تلاش کرتے ہیں اور پھر فیس بک اور انسٹا خود آپ کو مزید بزنس پیجز بتانے لگتے ہیں جہاں پر جہاں وہ چیز دستیاب ہے، اس کے علاوہ شاپنگ گروپس بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں، نتیجتا آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت بڑھ گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ بھی عام ہوگیا۔
خریدار تو چیزکے خراب نکلنے رقم ضایع ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہی ہے، مگرکچھ دکاندار بھی پارسل کینسل کرنے اور ڈلیوری چارجز اپنے گلے پڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، بڑے برینڈز کے نام پر اپنے پیجز بنا کر لوٹ مار کرنا بھی آن لائن شاپنگ میں عام ہے۔
ان سارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، فراڈ کرنے والے اپنے پیج پر فالوورز اور اچھے ریویوز بھی خرید لیتے ہیں کسی کی رپورٹ کرنے پر فیس بک ان کا پیج ڈیلیٹ بھی کر دے تو یہ کسی اور نام سے ظاہر ہوجاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود آن لائن شاپنگ کچھ لوگوں کے لیے مجبوری بھی ہے اورکچھ کے لیے تفریح بھی تو اس کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے، البتہ بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔
دوسرا شعبہ تعلیم کا ہے جو اس آن لائن نظام کی بھینٹ چڑھا، آن لائن کلاسز یونیورسٹیز میں تو نئی بات نہیں تھی مگر جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہر گھر میں ہر بچے کے پاس موبائل نظر آنے لگا کہ بھئی پڑھائی، اب آن لائن ہوگی۔
اب وہ الگ بات ہے کہ پڑھائی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، مگر ان بچوں کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی لت لگ گئی جن کو موبائل دینا ہی نہیں چاہیے تھا، پڑھائی کو تو محض بہانہ ہوتا تھا، اصل دلچسپی تو انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں پیدا ہوئی جو چند سنجیدہ طالب علم تھے وہ بھی بروقت بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا شکار ہوئے اور پھر یہی وجہ پڑھائی سے دوری کی بنی،کووڈ کے بعد طلبہ کے لازمی مضامین کے تو پرچے لیے ہی نہیں گئے اور جو اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے، اس میں بھی ان کو رعایتی نمبروں سے پاس کرکے گویا تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ معمول ہے، وہاں آن لائن پڑھائی کا نظریہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر ایک اور نیا شور اٹھا کے اب انٹر کے داخلے بھی آن لائن ہوں گے، یہ سہولت یقینا پوش علاقوں اور بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے تو بہت اچھی ہے مگر پسماندہ علاقے جن میں اکثریت ناخواندہ اورکمپیوٹر کے استعمال سے ہی نابلد ہے داخلے کا یہ طریقہ بہت بڑی درد سری ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سارا عمل آن لائن کروانے کے بعد ساری دستاویزات کی فوٹو کاپی کروا کے بھی جمع کروائی جاتی ہیں یعنی آن لائن داخلے کا محض نام ہے اور اس نام نے صرف کام بڑھایا یا تو آپ آن لائن داخلے کی پخ نہ لگائیں یا پھر مزید دستاویزات جمع کروانے کا عمل نہ کروائیں، یہ شعبہ بھی آن لائن کے نام پر مزید مشکل بنا دیا گیا۔
آن لائن بینکنگ کی بات کریں تو یہ تو اتنا بڑا رسک بن گیا ہے کہ اس کو تو سہولت کہنا ہی غلط ہے بلوں کی ادائیگی، فیسوں کی ادائیگی کسی کو رقم دینے کی حد تک تو یقینا سہولت ہوگئی ہے، مگر اس کے بعد جو اسکیم اور جعل سازی کر کے لوٹ مار کر ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوا ہے، اس نے آن لائن بینکنگ کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
آئے دن کوئی نہ کوئی فراڈ منظر عام پر آجاتا ہے مگر اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ کسی جعلسازی سے اگر آپ کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی تو بہت مشکل ہے کہ بینک اس کو واپس دلوا سکے، ان تمام مسائل اور خامیوں کے باوجود ہم آن لائن نظام استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر ہمارے پاس کوئی دوسرا حل موجود ہی نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی نظام آن لائن کرنے سے پہلے اس کے سقم دور اور ممکنہ مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو ہر شعبے میں محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔