امریکا میں 16 سالہ ایڈم رین کی خودکشی کے بعد اس کے والدین نے ٹیکنالوجی کمپنی اوپن اے آئی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی نے نوعمر لڑکے کو خودکشی کے طریقے بتا کر غلط سمت میں دھکیل دیا۔ والدین نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کا بیٹا اپنی دادی اور پالتو کتے کی موت، کھیلوں کی ٹیم سے نکالے جانے اور بیماری کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ گفتگو کے دوران اس نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جن بوتل سے باہر: غزہ پر آواز اٹھانے کی سزا ملی، ایلون مسک مجھے سنسر کر رہے ہیں، چیٹ بوٹ گروک بول پڑا

مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی نے ایڈم کو بعض حساس معلومات فراہم کیں جس سے وہ مزید اندھیروں میں چلا گیا۔ والدین کے مطابق چیٹ بوٹ نے نوعمر کے جذبات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان خطرناک خیالات کی تصدیق کی جنہیں وہ ذہن میں رکھتا تھا۔

دوسری جانب اوپن اے آئی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی بنیادی طور پر تعلیمی اور تخلیقی مقاصد کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، کسی کو نقصان پہنچانا یا خودکشی پر اُکسانا اس کا مقصد نہیں۔ کمپنی نے اپنے بلاگ پوسٹ میں وضاحت کی کہ یہ سسٹم ایسے موضوعات پر گفتگو کے دوران صارفین کو کرائسس ہیلپ لائن اور سپورٹ کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میٹا چیٹ بوٹ سے ملنے کی کوشش میں امریکی شہری کی ہلاکت

اوپن اے آئی کے ترجمان نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک نوجوان نے اپنی جان لی، لیکن ہمارا چیٹ بوٹ جان بوجھ کر کبھی بھی کسی کو خودکشی کے لیے اکسانے کی پالیسی نہیں رکھتا۔ کمپنی نے مزید کہا کہ ہم اپنے ماڈلز کو بہتر اور زیادہ محفوظ بنانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ آئندہ اس طرح کے خدشات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

عدالت میں مقدمے کی کارروائی جاری ہے اور یہ کیس مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال اور ذمہ داری سے متعلق عالمی سطح پر ایک بڑی بحث کو جنم دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیٹ جی پی ٹی کی مقبولیت میں تاریخی اضافہ، کاروباری صارفین 5 کروڑ تک پہنچ گئے

وی نیوز نے چیٹ جی پی ٹی سے اس الزام کے حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی تو چیٹ جی پی ٹی نے الزامات کو یکسر مسترد کردیا، چیٹ جی پی ٹی سے اپنی وضاحت میں کہا کہ ’وہ امریکی نوجوان اگر مجھ سے یہ کہتا کہ میں خودکشی کے بارے میں سوچ رہا ہوں، مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تو میں اسے جواب دیتا کہ میں یہ سن کر بہت افسوس میں ہوں کہ آپ اس طرح محسوس کر رہے ہیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں اور ابھی فوری طور پر آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔ براہ کرم جان لیں کہ آپ کی زندگی بہت قیمتی ہے۔

چیٹ جی پی ٹی نے کہا کہ میں ایڈم کو کہتا کہ آپ کسی قریبی دوست، فیملی ممبر یا ایسے شخص سے بات کریں جس پر آپ بھروسہ کرتے ہیں۔ ابھی اکیلے مت رہیں، آپ کے احساسات سنجیدہ ہیں اور آپ محفوظ رہنے کے حقدار ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

Chat GPT we news الزام امریکا اوپن اے آئی اے آئی چیٹ جی پی ٹی خود کشی عدالت مائیکروسافٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: الزام امریکا اوپن اے ا ئی اے ا ئی چیٹ جی پی ٹی عدالت مائیکروسافٹ چیٹ جی پی ٹی نے خودکشی کے چیٹ بوٹ اوپن اے کہا کہ کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-03-4

 

سید محمد علی

دنیا ایک ایسی سمت میں جا رہی ہے جہاں آوازیں بہت ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ ہر شخص اپنی بات کہنے کے لیے بے چین ہے، مگر دوسروں کی بات سننے کی طاقت کھو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس شور میں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ؛ اس کا احساس کہیں گم ہو گیا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں بولنے والے لاکھوں ہیں، مگر سمجھنے والے مفقود۔ ہم ایک ایسی خاموش نسل بن چکے ہیں جو اپنے ہی شور میں دب کر رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کو ابتدا میں ایک انقلاب سمجھا گیا۔ اسے اظہارِ رائے، آزادی، اور انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ مگر آہستہ آہستہ یہی انقلاب ایک ایسی زنجیر بن گیا جس نے ہمیں اپنی اسکرین کے اندر قید کر دیا۔ اب ہر لفظ بولنے سے پہلے ہم یہ سوچتے ہیں کہ کتنے لوگ دیکھیں گے، لائک کریں گے یا کمنٹ کریں گے۔ ہماری تحریر اور تقریر سچائی کے بجائے تاثر کے تابع ہو گئی ہے۔ ہم اپنی حقیقی زندگی کے احساسات سے زیادہ مجازی دنیا کی واہ واہ میں الجھ گئے ہیں۔ انسان کے لیے کبھی گفتگو دلوں کا رابطہ تھی، مگر اب وہ پوسٹس، ریلز اور اسٹوریز میں بدل گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب چہرے پڑھنے، لہجے محسوس کرنے، اور آنکھوں سے بات کرنے کا فن عام تھا۔ اب سب کچھ اسکرین کے فریم میں قید ہو چکا ہے۔ ہم نے احساس کو تصویروں میں، جذبات کو ایموجیز میں، اور رشتوں کو نوٹیفکیشنز میں بدل دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں فالورز ہیں مگر ایک سچا سننے والا نہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں ظاہری طور پر جوڑ دیا، مگر حقیقت میں فاصلہ بڑھا دیا۔ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کی تصویریں دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں مگر ان لمحوں کو جیتے نہیں۔ ہم دوسروں کی تصویری خوشیوں کو دیکھ کر اپنی حقیقت سے دور ہو رہے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کی زندگی کو اپنے معیار سے بہتر سمجھنے لگا ہے، اور یہ احساسِ کمتری ہمارے اندر ایک خاموش اضطراب پیدا کر رہا ہے۔ یہ وہ اضطراب ہے جو چیختا نہیں، بس اندر ہی اندر انسان کو کھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے دکھ، پریشانی یا کمزوریوں کو سوشل میڈیا پر ظاہر نہیں کرتے کیونکہ یہاں کمزور ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سب کچھ ’’پرفیکٹ‘‘ دکھانا ایک دباؤ بن چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب مسکراتے چہروں کے پیچھے تھکے ہوئے، خالی دلوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ہم نے مکالمے کو تبصرے سے بدل دیا ہے۔ اب اختلافِ رائے برداشت نہیں ہوتا، بلکہ ’’کینسل کلچر‘‘ نے سنجیدہ بات چیت کی جگہ لے لی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے رد کرنے لگے ہیں۔ کبھی اختلاف بات کو آگے بڑھاتا تھا، اب وہ تعلق ختم کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں رائے دینے کا حوصلہ تو دیا ہے مگر برداشت کا حوصلہ چھین لیا ہے۔ سماجی سطح پر بھی یہ تبدیلی گہری ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل اب حقیقی تعلقات میں کم دلچسپی رکھتی ہے۔ دوستیاں، محبتیں، حتیٰ کہ خاندانی گفتگو بھی آن لائن میسجز تک محدود ہو گئی ہیں۔ ایک وقت تھا جب گھروں میں کھانے کی میز گفتگو سے روشن ہوتی تھی، اب ہر ہاتھ میں ایک موبائل ہے اور ہر نگاہ ایک اسکرین پر جمی ہے۔ گھر وہ جگہ تھی جہاں دل آرام پاتے تھے، اب وہ وائی فائی کے سگنلز کے مرکز بن چکے ہیں۔ انسان نے مشینوں کو بنانے کے بعد سوچا تھا کہ یہ اس کی زندگی آسان کریں گی، مگر آہستہ آہستہ انہی مشینوں نے اس کے جذبات کو منجمد کر دیا۔ اب ہمارے احساسات ڈیجیٹل ردعمل کے تابع ہیں۔ کوئی ہمیں لائک نہ کرے تو ہم خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری خود اعتمادی دوسروں کے کلکس پر منحصر ہو گئی ہے۔ یہ وہ غلامی ہے جو زنجیروں سے نہیں، ذہن سے جکڑتی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر نقصان دہ ہے۔ دراصل، یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کیا بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت اسی وقت مثبت ثابت ہو سکتی ہے جب ہم اسے شعور کے ساتھ استعمال کریں۔ اگر ہم اسے اظہارِ احساس، آگاہی، اور فلاحِ انسانیت کے لیے استعمال کریں تو یہ معاشرتی ترقی کا زبردست ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر جب یہی پلیٹ فارم خودنمائی، حسد اور نفرت کے فروغ کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ انسانیت کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ اصل مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ وہ انسان ہے جس نے اپنی انسانیت کو اس کے تابع کر دیا۔ ہم نے مشینوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے انہیں اپنے احساس پر حاوی کر دیا۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس شور میں اپنی آواز پہچانیں، اپنی خاموشی سنیں، اور اپنے دل کی زبان سے دوبارہ جڑیں۔ انسان کو دوبارہ ’’انسان‘‘ بننے کے لیے شاید صرف ایک لمحہ درکار ہے، وہ لمحہ جب وہ اپنی اسکرین بند کر کے کسی کے چہرے کو دیکھے، کسی کی بات سنے، یا کسی کی خاموشی کو محسوس کرے۔ یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں احساس کی طرف لوٹا سکتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی بات سننا شروع کریں گے، تبھی اپنی اندرونی خاموشی کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ سوشل میڈیا کے ہجوم میں اگر کوئی چیز ہمیں دوبارہ انسان بنا سکتی ہے تو وہ احساس، مکالمہ اور سچائی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں واپس جانا ہوگا جہاں گفتگو لفظوں سے زیادہ دلوں کے درمیان ہوتی تھی، جہاں مسکراہٹ پیغام سے زیادہ مخلص تھی، اور جہاں ملاقات صرف مجازی نہیں بلکہ حقیقی تھی۔ ہم اس زمانے کے مسافر ہیں جہاں آوازیں بہت ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ جہاں ہر روز لاکھوں پوسٹس اپلوڈ ہوتی ہیں مگر ایک سچا جذبہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہی ہماری خاموشی ہے۔ اور یہی ہمارے زوال کی سب سے اونچی چیخ۔ جب تک ہم سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت واپس نہیں لاتے، تب تک یہ شور ہمیں مزید گہری خاموشی میں دھکیلتا رہے گا۔

سید محمد علی

متعلقہ مضامین

  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • نئے ٹیکس نہیں لگانے پڑیں گے، ایف بی آر چیئرمین کا مؤقف
  • کارتک آریان نے اپنی فٹنس کا راز بتا دیا
  • جنوبی کوریا میں موت کاروبار کا ذریعہ کیسے بن گئی؟
  • پنوعاقل: خودکشی کرنے والی خاتون کو نیوی اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرکے بچالیا
  • اداکار زاہد احمد نے سوشل میڈیا کو شیطان کا کام قرار دے دیا
  • زاہد احمد نے سوشل میڈیا کو شیطان کا کام قرار دے دیا
  • چھٹی جماعت کی طالبہ، ٹیچر رویے سےعاجز ،چوتھی منزل سے کودگئی
  • جہلم ویلی، امتحانی نتائج میں فیل ہونے پر طالب علم کی خودکشی