پاکستان سے افرادی قوت بیلاروس بھیجنے کے لیے ایم او یو پر دستخط
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان اور بیلاروس کے مابین اسکلڈ ورک فورس کو روزگار کی فراہمی سے متعلق ایم او یو پر دستخط ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایم او یو پر وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز چوہدری سالک حسین اور بیلاروس کے وزیر داخلہ آئیوین کبراکوف نے دستخط کیے۔ وزیر مملکت برائے اوورسیز پاکستانیز عون چوہدری، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری بھی اس موقع پر موجود تھے
ایم او یو کے تحت پاکستانیوں کو بیلاروس میں روزگار کی فراہمی کے حوالے سے مشترکہ اقدامات کیے جائیں گے، پاکستانی ورکرز کے بیلاروس میں حقوق کے تحفظ کے حوالے سے جامع فریم ورک بنایا جائے گا، ٹیکسٹائل، توانائی اور کنسٹرکشن کے شعبوں میں ابتدائی طور پر پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔
پاکستانی ہنرمند کارکنوں کی تربیت اور بھرتی کے لیے لیبر موبیلٹی کوریڈورز قائم کیے جائیں گے، بیلاروس میں روزگار کے لیے پاکستانیوں کی پیشہ ورانہ اور لسانی تربیت کے لیے پائلٹ پروگرامز شروع کیے جائیں گے، بیرون ملک روزگار کے عمل کو مؤثر بنانے کے لیے مائیگرنٹ ریسورس سینٹرز قائم کیے جائیں گے، منتخب پاکستانی ورکرز فیملی کے ہمراہ بیلاروس جاسکیں گے، ایم او یو پر عملدرآمد کیلئے پاکستان اور بیلاروس کے مابین جوائنٹ ٹیکنیکل گروپ قائم کیا جائے گا۔
چوہدری سالک حسین نے کہا کہ پاکستان ورک فورس کی فراہمی کے حوالے سے دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے، روزگار کی فراہمی کیلئے پاکستان اور بیلاروس کے متعلقہ اداروں کے مابین اشتراک کو فروغ دیا جائے گا، ہیلتھ کیئر، کنسٹرکشن، ٹیکسٹائل اور توانائی کے شعبوں میں بیلاروس کو ورک فورس فراہم کرسکتے ہیں۔
سالک حسین نے کہا کہ اگلے ماہ سے بیرون ممالک روزگار کیلئے جانے والوں کیلئے ہنر سیکھنا لازمی قرار دے رہے ہیں، غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کیلئے وزارت داخلہ اور دیگر اداروں کی معاونت سے سخت اقدامات کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور بیلاروس کے کیے جائیں گے ایم او یو پر روزگار کی کی فراہمی کے لیے
پڑھیں:
غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تاثر جنم لے رہا ہے کہ بعض حلقے دانستہ اور بعض نادانستہ طور پر مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں کہا گیا کہ غزہ کی حکومت میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور اگر حماس کو ختم کر دیا گیا تو فلسطین دفاعی قوت سے محروم ہو جائے گا۔ مسعود خان نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں پہلے ہی یہودی بستیاں آباد ہیں اور اب منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں بسانے کی راہ ہموار کی جائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ تعریف رہا ہے اور ایران اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر کے دانشمندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف خطے بلکہ ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ امریکا کو حملے کا صرف چند منٹ پہلے پتا چلا ہو۔ مسعود خان نے کہا کہ یہ حملہ عالمِ اسلام خصوصاً عرب دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور خطے میں ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80ء کی دہائی میں دفاعی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور اب دوبارہ مشترکہ دفاعی نظام بنانے پر غور کر رہے ہیں، لیکن امریکا کے زیر اثر ہونے کے باعث ان کے لیے اس پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔
ان کے مطابق خلیجی ممالک اس صورتحال میں روس اور چین کی طرف دیکھ سکتے ہیں، تاہم ان کے ساتھ موجودہ تعلقات زیادہ تر معاشی ہیں اور دفاعی تعاون محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کے پاس اربوں ڈالر کے سرمائے ہیں اور امریکا ہر سال انہیں اسلحہ فراہم کرتا ہے مگر اس سطح تک نہیں جو اسرائیل کی برتری کو چیلنج کر سکے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے خلیجی ممالک کو کمزور کیا جائے گا یا ان کی سکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام سامنے آئے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا ایجنڈا وہی ہو گا جو 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ملاقات میں طے پایا تھا، جسے اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں حتمی شکل دی گئی تھی اور اس تناظر میں پاکستان کے لیے کچھ مثبت فیصلے متوقع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن سے جوڑنا درست نہیں، کیونکہ اسامہ بن لادن کوئی مذاکرات نہیں کر رہا تھا جبکہ حماس رہنما خلیل الحیا قطر میں امریکا کی مرضی سے مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ قطر پر حملے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کے فوری دورہ قطر کو انہوں نے ایک اہم فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ قطر کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں، وہاں بڑی تعداد میں پاکستانی اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور قطر خطے میں ایک اہم پل کا کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے حوالے سے سردار مسعود خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے، گزشتہ برس دہشت گردی میں چار ہزار افراد جان سے گئے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کئی بار یقین دہانی کرا چکے ہیں مگر اس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور دہشت گردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔