مراکش سے 165 ملین سال قدیم دفاعی ڈھانچے سے لیس ‘بکتر بند’ ڈائناسور دریافت
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
مراکش کے شہر بُولمان کے قریب سائنسدانوں نے دنیا کے قدیم ترین انکیلوسار ڈایناسور اسپیکومیلس اَیفر (Spicomellus afer) کے فوسلز دریافت کیے ہیں۔
یہ ڈایناسور تقریباً 4 میٹر لمبا اور دو ٹن وزنی تھا، جس کے جسم پر خار دار بکتر اور گردن کے گرد بڑے بڑے کانٹے تھے جبکہ اس کی دم پر ہتھیار نما ڈھانچہ موجود ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا میں بچوں نے سیر کے دوران دیوہیکل جانور ٹی ریکس کے فوسل دریافت کرلیے
ماہرین کے مطابق یہ دریافت انکیلوسارز کی ارتقائی تاریخ کو چیلنج کرتی ہےکیونکہ دم کے ہتھیار جیسی خصوصیات پہلے سے سمجھے گئے وقت سے 3 کروڑ سال پہلے ہی موجود تھیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اسپیکومیلس کے کانٹے صرف دفاع کے لیے نہیں بلکہ ممکنہ طور پر غلبہ یا ملاپ کی نمائش کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔
تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ فوسل کے کچھ حصے غیر قانونی طور پر مارکیٹ میں 10 ہزار پاؤنڈ تک میں فروخت کیے گئے جس پر ماہرین نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت نہ صرف شمالی افریقہ کے قدیم ماحول اور حیاتیاتی تنوع کو سمجھنے میں مدد دے گی بلکہ ڈایناسورز کے ارتقائی سفر پر بھی نئی روشنی ڈالے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
دریافت ڈائناسور ڈھانچہ فوسل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دریافت ڈائناسور ڈھانچہ فوسل
پڑھیں:
ابوظبی کے سر بنی یاس جزیرے پر 1400 سال پرانی صلیب کی حیرت انگیز دریافت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوظہبی کے تاریخی جزیرے سر بنی یاس پر ماہرینِ آثار قدیمہ نے ایک غیر معمولی دریافت کی ہے جس نے اس خطے کی قدیم تاریخ کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔
حالیہ کھدائی کے دوران تقریباً 1400 سال پرانی ایک مسیحی صلیب برآمد ہوئی ہے جسے ماہرین ساتویں یا آٹھویں صدی کا قرار دے رہے ہیں۔ اس دریافت نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ان علاقوں میں صدیوں پہلے مسیحی کمیونٹیز نہ صرف موجود تھیں بلکہ انہوں نے عبادت، خانقاہی زندگی اور مذہبی رسومات کو باقاعدگی سے اپنایا ہوا تھا۔
یہ کھدائی جنوری میں شروع کی گئی تھی اور تقریباً 3 دہائیوں بعد اس جزیرے پر آثار قدیمہ کی پہلی بڑی مہم ہے۔ صلیب پلاسٹر پر بنی ہوئی ہے اور اس کا سائز تقریباً 27 سینٹی میٹر لمبا، 17 سینٹی میٹر چوڑا اور 2 سینٹی میٹر موٹا ہے۔
اسے ایک ایسے مقام پر دریافت کیا گیا ہے جو ایک صحن نما مکانات کے قریب ہے، جنہیں خانقاہ یا دیر کے شمالی حصے میں بزرگ راہب اور تنہائی پسند عبادت گزار استعمال کرتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صلیب کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس خطے میں ابتدائی مسیحی برادریاں خاص طور پر مشرقی مسیحیت سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیاں آباد تھیں۔ وہ یہاں عبادت اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی الگ تھلگ خانقاہی طرزِ زندگی گزارتے تھے۔ اس دریافت کو خلیجی خطے کی مذہبی و ثقافتی تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا جا رہا ہے۔
آثار قدیمہ کے محققین کا خیال ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں خطے کی قدیم تہذیب اور مختلف مذاہب کے درمیان روابط کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
متحدہ عرب امارات اپنی تاریخی و ثقافتی وراثت کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے ہی کئی اقدامات کر چکا ہے اور سر بنی یاس پر یہ نئی کھوج اس سمت میں ایک اور سنگ میل سمجھی جا رہی ہے۔