امریکی انتظامیہ کا نیا اقدام: طلبہ اور میڈیا نمائندوں کے ویزوں کی مدت محدود کرنے کی تیاری
اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے غیر ملکی طلبہ اور میڈیا نمائندوں کے لیے ویزوں کی مدت کو محدود کرنے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟
امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے مطابق مجوزہ پالیسی کے تحت طلبہ اور صحافیوں کو دیے جانے والے ویزے مختصر مدت کے لیے جاری کیے جائیں گے اور ان کی توسیع کے لیے سخت شرائط رکھی جائیں گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد امیگریشن قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا اور غیر ملکی طلبہ و صحافیوں کے طویل قیام پر قابو پانا ہے۔
تاہم ناقدین کے مطابق اس پالیسی سے امریکہ کی اعلیٰ جامعات میں داخلے لینے والے بین الاقوامی طلبہ اور آزاد صحافت کے نمائندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی ویزا ٹرمپ انتظامیہ طلبہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی ویزا ٹرمپ انتظامیہ طلبہ اور کے لیے
پڑھیں:
نتین یاہو سے ملنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ قطر جائیں گے
صیہونی وزیراعظم کے ساتھ اپنی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے مضبوط تعلقات ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ واشنگٹن پوسٹ نے دو امریکی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ دی کہ امریکی وزیر خارجہ "مارکو روبیو" آئندہ صبح قطر کا دورہ کریں گے۔ یاد رہے کہ مارکو روبیو گزشتہ روز فلسطین کے مقبوضہ علاقے اسرائیل پہنچے، جہاں انہوں نے آج صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ماركو روبیو نے اس بات كا یقین دلایا كہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے مضبوط تعلقات ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، ترکیہ میں تعینات امریكی سفیر اور شامی امور کے لئے امریکی ایلچی "تھامس باراک" بھی آج قطر میں موجود ہیں۔ یہ دورہ اور اسرائیل کی حمایت، ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب عالمی سطح پر دوحہ میں ہونے والے صیہونی حملے کی مذمت کی گئی۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز قطر نے دوحہ میں اسلامی اور عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا، آج ان ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہونا ہے تا کہ اسرائیل کے حملے کے خلاف مشترکہ ردعمل تیار کیا جا سکے۔