Express News:
2025-09-17@23:48:02 GMT

آفت : غریبوں کے لیے تباہی

اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT

گلگت بلتستان، خیبر پختون خوا اور کشمیر کے دونوں حصوں میں قیامت خیز بارشوں نے زبردست تباہی مچائی۔ اب تک سیکڑوں افراد ان بارشوں میں ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ اس دفعہ سیلاب کے ریلوں میں بہہ جانے والے افراد کی تعداد خاصی ہے۔ پختون خوا اور کشمیر میں سیلابی ریلوں کی زد میں سیکڑوں مکانات کے ملبہ تلے بہت سے افراد جاں بحق ہوئے۔ پاکستان میں گلگت، کشمیر، خیبر پختونخوا اور شمالی علاقوں میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے اس حقیقت کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔ ملک کلائیمنٹ چینج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں بارشوں کے ساتویں اسپیل نے قیامت ڈھائی ہے۔

پروفیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب کے دوران 400 افراد جاں بحق اور 180زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 274 مرد، 30 خواتین اور 21 بچے شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار میں گلگت اور کشمیر میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد شامل نہیں ہے۔ ان اعداد و شمار کے پیچھے سیکڑوں گھرانے ہیں جو یتیم ہوگئے، خواتین بیوہ بن گئیں اور بچے معصومیت کے ساتھ یہ سوال پوچھتے رہ گئے کہ پانی ان کے لیے موت کا پیغام کیوں لایا ؟ سب سے زیادہ المناک صورت حال ضلع بونیر کی ہے جہاں 225افراد جاں بحق ہوئے۔ شانگلہ میں 37، مانسہرہ میں 24، باجوڑ میں 21، سوات میں 16، لوئر دیر میں 5 اور بٹگرام میں 3 جانیں گئیں۔

یہ محض تعداد نہیں بلکہ اجتماعی المیے کی کہانیاں ہیں۔15 اگست کو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختو نخوا کے مختلف علاقوں میں بادل پھٹنے، طوفانی بارشوں، آسمانی بجلی گرنے اور ندی نالوں میں طغیانی نے ایک ہولناک منظر نامہ تخلیق کیا۔ درجنوں دیہات کا رابطہ منقطع ہوگیا، زمین کا کٹاؤ مکانات اور کھیت کھا گیا، اور پہاڑی ندی نالے انسانی بستیاں بہا لے گئے۔ یہ سب کچھ اس انداز میں ہوا کہ گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے بھر میں 339 مکانات متاثر ہوئے، جن میں 106 مکمل طور پر منہدم اور 233 جزوی طور پر تباہ ہوئے۔

یہ وہ کچے گھر تھے جو محنت کشوں نے برسوں کی محنت اور قربانیوں سے کھڑے کیے تھے۔ ایک مزدور نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بنایا گیا کمرہ کھو دیا، ایک کسان نے برسوں سے جوڑ کر بنائی چھت کھو دی۔ یہ تباہی صرف دیواروں اور چھتوں کی نہیں بلکہ خوابوں اور امیدوں کی بھی ہے۔ یہ حقیقت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

غریب کسان اور دیہاتی اپنی جانیں، بچے اور چھتیں کھو رہے ہیں، لیکن دوسری طرف یہ آفات حکومت، ٹھیکیداروں اور این جی اوز کے لیے کاروباری موقع فراہم کر رہی ہیں۔ ریلیف کے نام پر آنے والے ٹینٹس، ترپال اور امدادی سامان کے ٹھیکے اربوں میں دیے جاتے ہیں۔ متاثرین تک پہنچنے سے پہلے ہی زیادہ تر سامان بیچ دیا جاتا ہے یا ذخیرہ اندوزی کی نذر ہو جاتا ہے۔ امدادی فنڈز کے نام پر کمیشن مافیا سرگرم ہو جاتا ہے، یوں ایک طرف انسان مرتا ہے اور دوسری طرف تجارت پھلتی پھولتی ہے۔

پی ڈی ایم اے نے اعلان کیا ہے کہ متاثرہ اضلاع کو 89 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان پہنچا دیا گیا ہے، جس میں ٹینٹس، بسترے، کچن سیٹس، ترپال، چٹائیاں اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے 800 ملین روپے کے فنڈز جاری کیے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر کے لیے 500 ملین روپے مخصوص کیے گئے ہیں۔ یہ اعلانات کاغذ پر تو بڑے دلکش ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امداد زیادہ دیرپا نہیں۔ یہ صرف وقتی مرہم ہیں، مستقل علاج نہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، غیر متوقع بارشوں اور بادل پھٹنے کے واقعات نے خطرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے، مگر ہمارے حکمرانوں کے لیے یہ موضوع محض عالمی کانفرنسوں میں تقریریں کرنے کا ذریعہ ہے۔ عملی طور پر نہ ڈیم بنائے جا رہے ہیں، نہ ڈرینج سسٹم بہترکیا جا رہا ہے اور نہ ہی زمین کے کٹاؤ کو روکنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مارکس نے سرمایہ داری پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نظام صرف منافع دیکھتا ہے، انسان نہیں۔ آج پاکستان میں یہی ہورہا ہے۔

جنگلات کی کٹائی، پہاڑوں کی بے دریغ کھدائی، دریاؤں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات کی بناء پر گلگت بلتستان اور کشمیر میں گلوبل وارمنگ کے بدترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پہاڑوں پر مسلسل بارود کے استعمال سے گلیشیئر وقت سے پہلے پگھلنے لگے ہیں جس سے گلگت کے میدانی علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں دریاؤں کے کناروں کے ساتھ ساتھ ہوٹل تعمیرکیے گئے اور بہت سی نئی بستیاں پانی کی فطری گزر گاہوں کے راستوں پر تعمیر کی گئی ہیں۔ برسر اقتدار جماعتوں کے رہنما ، برسوں سے حزب اختلاف کا فریضہ انجام دینے والے سیاسی رہنما، بیوروکریٹس اور بلڈر مافیا نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے یہ تعمیرات کی تھیں۔

جب 2022میں دریائے سوات نے مینگورہ اور دیگر علاقوں میں تباہی مچائی تھی تو اس وقت کہا گیا تھا کہ دریائے کابل کے کنارے پر تعمیر ہونے والے ہوٹل اس تباہی کے ذمے دار ہیں مگر ان ہوٹل مالکان کا کہنا تھا کہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے تصدیق شدہ اجازت نامے ان کے پاس الاٹمنٹ کی صورت میں موجود ہیں، مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ تجاوزات برقرار رہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اپنے دورہ خیبر پختون خوا میں دریائے سوات کے کنارے ہوٹلوں کی تعمیر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2020 میں آنے والے سیلاب سے سبق نہیں سیکھا گیا۔ پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے بلین ٹری لگانے کی مہم شروع کی تھی ۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ اس مہم میں کوئی زیادہ مفید نتائج سامنے نہیں آئے۔

ماحولیات کے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں ٹمبر مافیا سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ ہر سیزن میں لاکھوں درخت کاٹ کر ان کی لکڑی پورے ملک کی ٹمبر مارکیٹوں میں دستیاب ہوتی ہے۔ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی خیبر پختون خوا حکومت کے وزراء اس ٹمبر مافیا کی قیادت میں شامل ہیں۔ اس الزام کی کئی بار تردید بھی ہوتی رہی ہے مگر ماحولیات کے ماہرین شمالی علاقوں، پختون خوا اور کشمیر میں موجودہ تباہی کی ذمے داری درختوں کے کٹنے پر ڈالتے ہیں۔ ماحولیات کے وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ عالمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثر ہونے والے 8 ممالک میں سرفہرست ہے، مگر نہ تو امریکا اور نہ یورپی ممالک پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہیں۔

نہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی اولین ترجیحات گلوبل وارمنگ سرفہرست ہیں۔ اس ساری صورتحال میں کارل مارکس کا یہ قول درست ثابت ہوتا ہے کہ ’’ آفتیں غریب کے لیے تباہی اور امیروں کے لیے تجارت ہوتی ہیں۔‘‘ یہ جملہ محض فلسفیانہ مشاہدہ نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط ایک حقیقت ہے۔ ابتدائی تاریخ سے لے کر آج تک، ہر قدرتی آفت نے یہی دکھایا ہے کہ اس کے بوجھ تلے غریب عوام دب جاتے ہیں، جب کہ اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ انھی آفات کو نئے مواقعے اور تجارت میں بدل لیتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور کشمیر میں سب سے زیادہ خیبر پختون علاقوں میں پختون خوا کا کہنا جاتا ہے رہے ہیں خوا اور نے والے تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔

فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔

امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”

اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”

یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟

یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔

یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہونیاں اور انہونیاں
  • زندگی بھر بھارتی مظالم کے خلاف برسرپیکار رہنے والے عبدالغنی بھٹ کون تھے؟
  • آزاد کشمیر پولیس کے لیے اینٹی رائیٹ کٹس اور یونیفارم الاؤنس کی منظوری، کروڑوں روپے مختص
  • جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے، الطاف وانی
  • سیلاب
  • حب کینال کی تباہی کے بعد کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، حلیم عادل شیخ
  • چترال میں شدید بارشیں، سیلاب نے تباہی مچادی
  • اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
  • قائمہ کمیٹی کا جنگلات کی کٹائی کا جائزہ،سیٹلائٹ نگرانی کی سفارش
  •   سعودی عرب : فلو ویکسین کے لیے آن لائن بکنگ کا اعلان