کیا پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ مل سکے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی ایک مشکل راستے پر کھڑے ہیں۔وہ اپنی مرضی کا سیاسی راستہ چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے اپنا من پسند سیاسی راستہ نکلنے کے امکانات کم ہیں۔ اس کی ایک وجہ بانی پی ٹی آئی کا غیر سیاسی جارحانہ اور مزاحمتی رویہ،طرز عمل یا مزاج ہے جس میں لچک کم اور مزاحمت کا پہلو زیادہ نظر آتا ہے۔
قانونی محاذ پر بھی ان کی مشکلات کم نہیں ہورہی ہیں، پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں کو عدالتوں سے سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی وہ قیادت جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت چاہتی ہے، بانی پی ٹی آئی کی غیرسیاسی پالیسی کی وجہ سے کوئی ریلیف حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی ہے۔ پی ٹی آئی میں وہ سیاسی دھڑا جو اسٹیبلیشمنٹ یا حکومت بالخصوص اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی مدد سے سیاسی راستہ نکالنے کی کوشش کررہا تھا، وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا۔
پی ٹی آئی کی سیاسی کور کمیٹی نے اب بانی پی ٹی آئی کے اس فیصلے کی حمایت اور تائید کی ہے کہ وہ تمام ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ بھی کرے گی اور تمام پارلیمانی کمیٹیوں سے بھی علیحدگی اختیار کرے گی جس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی بھی شامل ہے۔یہ فیصلہ سیاسی کور کمیٹی نے بانی پی ٹی آئی کی ہدایت کی روشنی میں کیا ہے۔
اگرچہ سیاسی کور کمیٹی اس فیصلہ کے برعکس ضمنی انتخابات میں حصہ لینا چاہتی تھی اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں سے بھی علیحدگی اختیار کرنا ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا۔لیکن بانی پی ٹی آئی کے اپنے سیاسی فیصلوں پر سیاسی کور کمیٹی کو وہی کچھ کرنا پڑا جو بانی پی ٹی آئی کا فیصلہ تھا۔آخری ملاقات میں بانی پی ٹی آئی نے اپنے بعض راہنماؤں کی سرزنش بھی کی کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے فیصلوں کے برعکس سیاست اور سیاسی فیصلے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ کو بطور جنرل سیکریٹری کام جاری رکھنے کی ہدایت کرکے بھی بانی پی ٹی آئی نے پارٹی میں ان لوگوں کو کھلا پیغام دیا ہے جو سیکریٹری جنرل کے خلاف سازش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔اسی طرح علی امین گنڈا پور کو بھی واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ بطور وزیر اعلی پارٹی فیصلوں کے ساتھ ہی کھڑے ہوں اور دوسری طرف دیکھنا بند کردیں۔
بانی پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں محمود خان اچکزئی اور سینیٹ میں علامہ راجہ ناصر عباس کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرکے اپنی پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور ہمدردوں کو عملاً حیران کیا ہے ،کیونکہ سیاسی کور کمیٹی کے ان تقرریوں پر تحفظات تھے ۔محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر عباس دونوں ہی مزاحمت کی سیاست کے آدمی ہیں اور بانی پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ اور سینیٹ میں مزاحمت کی سیاست کا بوجھ ان دونوں اہم راہنماؤں پر ڈال کر حکومت یا اپنے سیاسی مخالفین کو بھی پریشان کردیا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ ہر صورت مزاحمت ہی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ آخری ملاقات اور اس کے نتیجہ میں سامنے آنے والی بات چیت اور خود بانی پی ٹی آئی کا تفصیلی ٹویٹ میں ان کا لب ولہجہ اور لفظوں کے استعمال میں زیادہ سختی نظر آتی ہے ۔بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ اب مفاہمت کی سیاست کم اور مزاحمت سمیت ٹکراؤ کی سیاست زیادہ ہوگی ۔ ٹکراؤ یا بند سیاسی راستوں کی سیاست کسی بھی صورت میں فائدہ مند نہیں ہوتی ۔
پی ٹی آئی کے لیے سیاسی راستے عملاً محدود ہوتے جا رہے ہیں ۔ قانونی معاملات میں بھی مشکلات مزید بڑھیں گی ۔ مفاہمت کی سیاست کی ناکامی میں بہت سے لوگ پی ٹی آئی کو ذمے دار قراردیتے ہیں تو یہ غلط نہیں ہے لیکن سارا قصور پی ٹی آئی کا نہیں کیونکہ حکومت مقدمات میں بانی پی ٹی آئی اور دیگر لوگوں کو وہ رعایتیں دینے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان کو درکار ہیں ۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کو سزائیں سنائی جا رہی ہیں ، ان کو اسمبلیوں یا سیاسی میدان سے نااہل کیا جا رہا ہے تو ایسے ماحول میں مفاہمت کا فلسفہ سمجھ سے باہر ہے۔
پی ٹی آئی کے اس فیصلہ پر تنقید کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ اور پارلیمانی کمیٹیوں سے علیحدگی کیوں اختیار کی اور کیوں سیاسی راستہ بند کیا اور کیوں پارلیمنٹ سے خود کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں کہ اگر ہمیں کسی بھی طور راستہ نہ دیا تو پھر ہم پارلیمنٹ سے بھی علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔
سیاست میں سیاسی راستوں کو بند کرنے کی حمایت کی کسی بھی سطح پر حمایت نہیں کی جاسکتی ۔لیکن جب کسی کومسائل سے باہر نکلنے کا راستہ نہ مل رہا ہو تو پھر ایسے فیصلے ہی سامنے آتے ہیں جو اس وقت پی ٹی آئی کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ پی ٹی آئی کی یہ حکمت عملی ہونی چاہیے کہ وہ سیاسی راستوں کو بند کرنے کے بجائے ان ہی میں سے اپنے لیے سیاسی راستہ نکالنے کی کوشش کرے ۔ پی ٹی آئی کو اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ ہم بات چیت کے لیے تیار نہیں۔
سیاست اور جمہوریت میں ضد اور ہٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنا اور غیر سیاسی حکمت عملیوں کی بالادستی سے کسی بھی طور پر راستے نہیں نکلتے ۔سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی کا رنگ دینے سے یا کسی کے سیاسی وجود کو طاقت کی بنیاد پر ختم کرنے کی روش مزید سیاسی مسائل کو پیدا کرے گی اور قومی سیاست میں اس کے نتیجے میں ٹکراؤ کی سیاست ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔
اس لیے سب کو اس نقطہ پر متفق ہونا ہوگا کہ ہمیں اپنے سیاسی مسائل سیاسی بنیادوں پر اور ایک دوسرے کے عملا سیاسی وجود کو ہی قبول کرکے حل کرنا ہوگا۔ غیر سیاسی سوچ اور حکمت عملی ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے اور اس سے نہ صرف سیاسی ماحول ہی خراب نہیں ہوگا بلکہ انتہا پسندی بھی بڑھے گی۔بدقسمتی سے ایسا ماحول پیدا ہو رہا ہے جس میں مذاکرات اور مفاہمت کا عمل ہی آگے بڑھتا نظر نہیں آتا ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیاسی کور کمیٹی بانی پی ٹی آئی کرنے کی کوشش پی ٹی آئی کا سیاسی راستہ پی ٹی آئی کے پی ٹی آئی کی پی ٹی ا ئی کی سیاست کسی بھی ئی اور
پڑھیں:
غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر WhatsAppFacebookTwitter 0 3 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہل کاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں طالبان کو واضح بتایا ہے کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور یہ کیسے کرنی ہے یہ آپ کا کام ہے، یہ ہمارے لوگ تھے جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا یہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے، ان کو ہمارے حوالے کردیں ہم ان کو آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی، جرائم پیشہ افراد اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ لوگ افیون کاشت کرتے ہیں اور 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ پیداوار حاصل کرتے ہیں، پوری آباد ی ان لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے، وار لارڈز ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو جاتا ہے، دہشت گردی، چرس، اسمگلنگ یہ سب کام یہ لوگ مل کر کر کرتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کوئی عہدہ کریئیٹ ہونا ہے تو یہ حکومت کا اختیار ہے ہمارا نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فوج نے وادی تیرہ میں کوئی آپریشن کیا، اگر ہم آپریشن کریں گے تو بتائیں گے، ہم نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں جن میں 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسر شہید ہوئے، ہماری چوکیوں پر جو قافلے رسد لے کرجاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔گورنر راج کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری نہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں جو کانفرنس ہونی ہے ہمارا موقف بالکل کلیئر ہے، دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے، افغان سرزمین استعمال نہیں ہونی چاہیے، سیزفائر معاہدہ ہماری طاقت سے ہوا، افغان طالبان ہمارے دوست ممالک کے پاس چلے گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اخلاقیات نہ سکھائے اور ہم کسی کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منت سماجت نہیں کررہے، ہم اپنی مسلح افواج اور لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں حکومت کامعاملہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40 کلو میٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجعلی اکاونٹس کیس،عدالتی حکم پر جج احتساب عدالت نے نیب دائرہ اختیار پر فیصلہ نہ سنانے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ جمع کروادی جعلی اکاونٹس کیس،عدالتی حکم پر جج احتساب عدالت نے نیب دائرہ اختیار پر فیصلہ نہ سنانے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ جمع کروادی ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے انسداد دہشت گردی عدالت سے علیمہ خان کے ساتویں مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹسCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم