Express News:
2025-11-03@02:50:56 GMT

سیلاب کی تباہ کاریاں اور نئے آبی ذخائر

اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT

وزیراعظم شہباز شریف نے نئے آبی ذخائر کی تعمیر کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں سیلابی صورت حال سے نمٹنے کے لیے قلیل، درمیانی اور طویل المدتی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی، دوسری جانب بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے اور شدید بارشوں کے باعث دریائے راوی، چناب اور ستلج بپھر گئے ہیں۔ 1400بستیاں زیر آب آچکی ہیں جب کہ 10لاکھ افراد متاثر ہوچکے ہیں، سیکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔

 پاکستان کا زرعی اور معاشی دل کہلانے والا صوبہ پنجاب آج ایک ایسی قدرتی آفت کی لپیٹ میں ہے جس نے نہ صرف انسانی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ پورے معاشرتی، اقتصادی اور ماحولیاتی نظام کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے دریاؤں میں اچانک پانی چھوڑنے، موسمیاتی تغیرات کی شدت اور غیر معمولی بارشوں کے امتزاج نے اس مرتبہ جو سیلابی کیفیت پیدا کی ہے، وہ گزشتہ 39 برسوں میں اپنی نوعیت کی بدترین تباہی بن کر سامنے آئی ہے۔

اس صورتحال کو ہمیں محض ایک وقتی آفت یا قدرتی حادثے کے طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ یہ ایک سنگین وارننگ ہے۔ موجودہ سیلاب صرف موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی غفلت، منصوبہ بندی کے فقدان، بین الاقوامی تعلقات میں توازن کی کمی اور مقامی سطح پر بروقت اقدامات نہ ہونے کا نتیجہ بھی ہے۔

جب ہم بھارت کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں تو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے اپنے داخلی نظام میں بھی بے شمار خامیاں موجود ہیں۔ دریائی نظام کی دیکھ بھال، بندوں اور پشتوں کی مضبوطی، بروقت صفائی، تجاوزات کا خاتمہ اور خطرے کی پیشگی اطلاع دینے والے سسٹمز کی غیر موجودگی نے اس تباہی کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

ایک اور پہلو جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہے ہماری شہری اور دیہی منصوبہ بندی کا فقدان۔ بے ہنگم آبادیاں، نالوں پر تعمیرات، قدرتی آبی گزرگاہوں کی بندش اور دریا کے قریب انسانی بستیاں بنانا اس تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ مون سون کے موسم میں پاکستان کے نشیبی علاقے ہمیشہ خطرے میں رہتے ہیں، مگر اس حقیقت کے باوجود ہمارے پاس نہ تو جامع منصوبہ بندی ہے، نہ مقامی حکومتوں کو وہ اختیارات حاصل ہیں جو بروقت کارروائی کرنے میں مدد دیں۔ ریسکیو اور ریلیف کے ادارے اپنی استعداد کے مطابق خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر موجودہ صورتحال ان کے دائرہ کار اور صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ہے۔

لاکھوں بے گھر افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، خوراک، پینے کا صاف پانی، ادویات اور سینیٹری سہولیات کی شدید قلت ہے۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہے۔ ایسے میں، ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں متاثرین کی مدد کے لیے وقف کرے۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر قومی ایمرجنسی نافذ کرے، تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک جامع حکمتِ عملی مرتب کرے، اور تمام سیاسی و ادارہ جاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر متاثرین کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دے۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس آفت کے فوری اثرات کے بعد ایک طویل المدتی بحران ہمارے سامنے ہے۔ لاکھوں افراد کے گھروں کی تعمیر نو، زرعی زمینوں کی بحالی، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی، اور متاثرین کی ذہنی و جسمانی بحالی ایک طویل مدتی چیلنج ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک پانچ سالہ سیلاب بحالی پروگرام تشکیل دے جس میں ماہرین ماحولیات، زرعی ماہرین، شہری منصوبہ ساز، اور مقامی نمایندے شامل ہوں۔ اس پروگرام کے تحت زرعی قرضوں کی معافی، کسانوں کو نئے بیج اور کھاد کی فراہمی، دریا کنارے محفوظ پشتوں کی تعمیر، اور خطرناک علاقوں سے آبادیاں منتقل کرنے جیسے اقدامات کیے جائیں۔

سیلاب سے متعلق ایک اور اہم پہلو غذائی تحفظ کا ہے۔ پنجاب چونکہ پاکستان کا سب سے بڑا زرعی صوبہ ہے، یہاں گندم، چاول، گنا، کپاس اور سبزیوں کی پیداوار ملکی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ جب لاکھوں ایکڑ زمین سیلاب کی نذر ہو جائے گی، تو اس کا براہ راست اثر نہ صرف مقامی غذائی ضروریات پر پڑے گا بلکہ برآمدات، زرمبادلہ اور افراطِ زر پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسے میں وزارتِ خزانہ، وزارتِ خوراک اور اسٹیٹ بینک کو ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی چاہیے تاکہ آنے والے مہینوں میں غذائی قلت اور مہنگائی جیسے بحران سے بچا جا سکے۔

 وزیراعظم شہباز شریف کا نئے آبی ذخائر کی تعمیر کو ’’ وقت کی ضرورت‘‘ قرار دینا نہ صرف ایک حقیقت پسندانہ اعتراف ہے بلکہ ایک عملی سمت میں قدم بھی ہے۔ درحقیقت آبی ذخائر کسی بھی ملک کے لیے نہایت اہمیت رکھتے ہیں، خصوصاً ایسے ملک کے لیے جو زراعت پر انحصار کرتا ہو اور جس کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہو، جہاں پانی کی دستیابی ایک مستقل مسئلہ ہے۔

پاکستان میں پانی کی زیادہ تر فراہمی دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں سے ہوتی ہے، مگر ان دریاؤں پر انحصار کی ایک حد ہے، خاص طور پر جب بھارت جیسے بالا دستی والے ملک کی جانب سے آبی جارحیت کے خطرات مستقل موجود ہوں۔ بھارت کی جانب سے دریاؤں پر ڈیمز کی تعمیر اور پانی کو روکنے کے اقدامات نے پاکستان کی آبی خود مختاری کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔

پاکستان میں ہر سال اربوں گیلن پانی بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث دریاؤں میں آتا ہے، مگر اس کا بڑا حصہ بحیرہ عرب میں ضایع ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس اتنے ڈیمز اور ذخائر موجود نہیں جو اس پانی کو سنبھال سکیں۔ اس ضیاع کا خمیازہ ہمیں کبھی خشک سالی، کبھی فصلوں کی تباہی اور کبھی پینے کے پانی کی قلت کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ موجودہ آبی ذخائر، مثلاً تربیلا اور منگلا ڈیم، اب اپنی میعاد پوری کر رہے ہیں اور ان میں مٹی بھر جانے کی وجہ سے ان کی گنجائش بھی کم ہو چکی ہے۔ ان حالات میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے۔نئے آبی ذخائر کی تعمیر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم سیلابی پانی کو ذخیرہ کر سکیں گے۔

پاکستان میں سیلاب ایک مستقل خطرہ ہے جو نہ صرف قیمتی جانوں کا نقصان کرتا ہے بلکہ زراعت، معیشت اور انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے، اگر ہم بڑے پیمانے پر آبی ذخائر تعمیر کر لیں تو ہم ان بارشوں اور گلیشیئرز کے پانی کو جمع کر کے بعد میں استعمال کر سکتے ہیں، یوں نہ صرف سیلاب کے خطرات کم ہوں گے بلکہ خشک موسموں میں پانی کی دستیابی بھی یقینی بنائی جا سکے گی۔نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے فنی مہارت، مالی وسائل اور سیاسی عزم درکار ہے۔ یہ منصوبے مہینوں یا ایک دو سال میں مکمل نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ قلیل، درمیانی اور طویل المدتی پالیسیوں کو واضح کرے، جیسا کہ وزیراعظم نے بھی کہا، تاکہ ہر سطح پر ترقیاتی کام جاری رہ سکے۔ قلیل مدتی منصوبوں میں چھوٹے ڈیمز، ندی نالوں کی صفائی اور بارشی پانی کی ذخیرہ اندوزی شامل کی جا سکتی ہے، جب کہ درمیانی اور طویل مدتی منصوبوں میں بڑے ڈیمز، آبی ذخائر اور نہری نظام کی بہتری شامل ہیں۔

اگر ہم نے وقت پر قدم نہ اٹھایا تو ماہرین کا خدشہ ہے کہ پاکستان 2025 کے بعد شدید پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا، جس سے غذائی تحفظ، انسانی صحت اور معاشی ترقی سب کچھ متاثر ہوگا۔ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ معاشی استحکام، زرعی خوشحالی اور قومی بقا کی علامت ہے۔

اگر ہم نے وقت پر نئے آبی ذخائر تعمیر نہ کیے، تو مستقبل میں پانی کے لیے جھگڑے، قحط، بے روزگاری اور ہجرت جیسے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم ہوش مندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آج ہی سے ان منصوبوں پر کام شروع کر دیں، تو نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ایک محفوظ، خوشحال اور پانی سے مالامال پاکستان مل سکتا ہے۔

نئے آبی ذخائر کی تعمیر پاکستان کی معیشت، زراعت، توانائی، اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ صرف ایک ترقیاتی منصوبہ نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے، ایک اجتماعی ذمے داری ہے، جس میں ہر شہری، ہر ادارہ اور ہر سیاسی رہنما کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

وقت کم ہے، خطرات بڑھ رہے ہیں، مگر اگر ہم متحد ہو کر فیصلہ کریں اور عمل کریں، تو یہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے اس مسئلے کی سنگینی کا اعتراف ایک مثبت آغاز ہے، لیکن اس اعتراف کو عملی شکل دینے کے لیے ہمیں اب ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے، کیونکہ پانی کا تحفظ دراصل وطن کا تحفظ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نئے ا بی ذخائر کی تعمیر طویل المدتی کی جانب سے کی ضرورت بھارت کی چاہیے کہ پانی کو پانی کی بلکہ ا اگر ہم کے لیے

پڑھیں:

لاہورمیں الیکٹرک ٹرام منصوبہ مؤخر، فنڈز سیلاب متاثرین کو منتقل

لاہور، پنجاب کے وزیرِ ٹرانسپورٹ بلال اکبر نے اعلان کیا ہے کہ کینال روڈ پرالیکٹرک ٹرام منصوبہ آئندہ سال فروری میں شروع نہیں کیا جا سکے گا۔وزیر ٹرانسپورٹ بلال اکبر کے مطابق منصوبے کے لیے مختص 130 ارب روپے کا فنڈ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے منتقل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کو مؤخرکرنے کے باوجود محکمہ ٹرانسپورٹ نے تین نئی تجاویز تیار کی ہیں، جو دسمبر میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کی جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ ٹرام منصوبے کے ساتھ لاہور کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو ازسرِنوترتیب دیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں جدید اور پائیدارسفری سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

2009 میں لاہور کے لیے چار میٹرولائنز کی ضرورت تھی، تاہم تازہ ترین اسٹڈی کے مطابق اب شہر میں کم از کم چھ میٹرو لائنز درکار ہیں۔چند روزمیں گوجرانوالہ اورفیصل آباد میٹرو منصوبوں کی گراؤنڈ بریکنگ تقریب منعقد کی جائے گی، جس کے بعد کینال روڈ ٹرام منصوبے پر بھی کام شروع کیا جائے گا، ورلڈ بینک کے تعاون سے 25 کروڑ ڈالرز کی لاگت سے لاہور میں 400 نئی الیکٹرک بسیں شامل کی جا رہی ہیں۔حکومت کی کوشش ہے کہ آنے والے برسوں میں لاہور میں ایک سے دو نئی میٹرو لائنز کا اضافہ کر کے شہریوں کے سفر کو مزید آسان اور ماحول دوست بنایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • لاہورمیں الیکٹرک ٹرام منصوبہ مؤخر، فنڈز سیلاب متاثرین کو منتقل
  • وقار یونس نوجوان کھلاڑیوں سے حسد کرتے ہیں، میرا کیریئر بھی تباہ کیا؛ عمر اکمل
  • پاکستان کو سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ،ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری متوقع
  • امانت و دیانت، عوامی خدمت اور شہر کی تعمیر و ترقی جماعت اسلامی کا وژن ہے، منعم ظفر
  • سمندری طوفان ملیسا کی تباہ کاریاں جاری؛ ہلاکتیں 50 تک پہنچ گئیں
  • پاکستان کو 20 سال بعد آف شور تیل و گیس ذخائر میں بڑی کامیابی حاصل
  • سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا
  • ایک ہی رات میں 130 یوکرینی ڈرونز مار گرا دیئے گئے