تمباکو کی کاشت بحرآن کاشکار
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
جنرل سیکرٹری،کسان بورڈ خیبرپختون خوا
خیبر پختون خوا میں تمباکو کی کاشت، جو کبھی دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی،آج اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔ جو فصل کبھی ہزاروں کسانوں کے لیے سب سے مستحکم اور منافع بخش ذریعہ آمدن تھی، اب اسے مہنگی پیداواری لاگت، مارکیٹ میں استحصال اورمتوازن پالیسی کی عدم توجہی نے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔موجودہ صورت حال نہ صرف کسانوں کی مشکلات کی عکاسی کرتی ہے بلکہ قومی وسائل کی دانستہ بربادی کی بھی غماز ہے۔
ویسے تو تمباکو خیبرپختون خوا کے طول وعرض میں بہت سی جگہوں پر کاشت کیا جاتا ہے لیکن صوابی اورمردان کے علاقے اس حوالے سے کافی مشہورہیں۔
یہاں کاتمباکو اپنے معیار اور بلنڈ کے اعتبار سے بے مثال مانا جاتا ہے۔ صوابی کے مرکزی اور اس ضلع کے نواحی علاقے تمباکو کی کاشت کے لئے اپنی موزوں آب و ہوا اور زرخیز مٹی کے لئے خاص شہرت رکھتے ہیں اوریہاں کاشت کیاجانے والا تمباکونہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے پسندکیاجاتا ہے۔ لیکن اب صوابی کے کاشت کاروں کی ایک بڑی تعداد نے ایک مرتبہ پھر اعلان کیا ہے کہ وہ تمباکوکے بجائے دیگرفصلوں کوکاشت کرنے پرغورکررہے ہیں جبکہ نسل درنسل ان کی مہارت تمباکو کی کاشت اور اسے بھٹیوں میں خشک کرنے کی ہے۔
کاشت کاروں نے رواں سال تمباکو کی خریدارکمپنیوں اور تمباکو کے تاجروں کی عدم توجہی کی وجہ سے تمباکو کی بجائے آلو کی کاشت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ بطور احتجاج نہیں بلکہ بہ اَمر مجبوری کیا جا رہا ہے۔
تمباکو کاشت کاروں نے اچھی فصل اور اچھی قیمت کی اْمید پر مزید مالی نقصان برداشت کرنے سے انکار کردیا اور توجہ دلائی ہے کہ حکومت جو تمباکو کی فصل اور تمباکو سے بننے والی مصنوعات سے سالانہ اربوں روپے آمدنی حاصل کرتی ہے لیکن اس کا عشر عشیر بھی کاشت کاروں کو منتقل نہیں کیا جاتا۔ کاشت کاروں نے اِس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس سال تمباکو کی فصل جیسے تیسے تیار کرنے کے بعد اب صورت حال یہ درپیش ہے کہ تمباکو خریدنے والی کمپنیاں فصل خریدنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
ضلع صوابی کے تمباکو کاشت کار پہلی مرتبہ احتجاج نہیں کر رہے بلکہ رواں برس کے آغاز میں بھی کاشت کاروں کی ایک بڑی تعداد نے تمباکو کی کھڑی ہوئی فصل کو تباہ کر دیا تھا، جب کہ زیادہ تر نے اپنی زمینوں پر تمباکو کی بجائے دیگر فصلیں کاشت کرنے کا اعلان کیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ماضی میں خیبرپختون خوا کی سب سے منافع بخش فصل اب منافع بخش نہیں رہی۔ تمباکو کی کاشت کے خلاف مہم میں رضاکارانہ طور پر تمباکو نرسریاں تباہ کی گئیں جب کہ تمباکو کی کاشت کاری کے لیے موزوں علاقوں میں گندم، گنا، آلو، لہسن اور دیگر فصلیں کاشت کی گئیں۔
تمباکو کے کاشت کاروں نے حکومت اور تمباکو کمپنیوں کو 10نکاتی مطالبات پیش کر رکھے ہیں جن میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ قانون سازی کے ذریعے تمباکو کوفصل کا درجہ دیا جائے، اس کی قیمت مقررکی جائے،کیڑے مار ادویات، کھادوں، بیجوں اور اس سے متعلقہ اخراجات کی موجودہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے تناسب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں دس فی صد حصہ کاشت کاروں کو دیا جائے اوراِس سے تمباکو کے کاشت کاروں کی فلاح و بہبود اور تمباکو اْگانے والے علاقوں میں تعمیر و ترقی کی جائے۔
ماضی کی طرح تمباکو کی خریداری کے مراکز فعال کئے جائیں۔ تمباکو اْگانے والے علاقوں اور تمباکو سے متعلقہ صنعتوں کو خیبرپختون خوا سے آزاد کشمیر اور دیگر صوبوں میں منتقل کرنے سے روکنے کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے۔کاشت کاروں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کر رکھا ہے کہ تمباکو کی بھٹیوں کی رجسٹریشن کی جائے اور پچھلے سال تمباکو کی منڈی میں جو بحران آیا تھا اْس کی وجوہات اورمحرکات بارے تحقیقات کی جائیں۔کاشت کاروں کے پاس گوداموں میں پڑے تمباکو کا سارا ذخیرہ خریدا جائے، کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تحت کاشت کاروں کی بہبود اور تمباکو کی کاشت والے علاقوں میں ترقیاتی فنڈزخرچ کئے جائیں۔
کسانوں کا طویل عرصے سے مطالبہ اور شکایت رہی ہے کہ حکومت تمباکو کاشت کاروں کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سہولیات اور مراعات دیتی ہے جن میں عملے اور ان کے اہل خانہ کے لئے تنخواہیں،صحت اور رہائشی سہولیات شامل ہیں لیکن خون پسینہ ایک کرنے والے محنت کش مزدورکسانوں کو حکومت سہولیات نہیں دیتی اورنہ ہی کاشت کاروں کے مرکزی کردار اور اہمیت کوتسلیم کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں تمباکو کی کل پیداوار کا 80 فی صد حصہ خیبرپختون خوا سے حاصل ہوتا ہے۔اسی طرح تمباکو کی مصنوعات سے وفاقی حکومت کو سالانہ 135 ارب روپے سے زائد ملتا ہے جب کہ 98 کروڑروپے تمباکو ڈویلپمنٹ سیس کی شکل میں صوبائی خزانے میں جمع ہوتے ہیں۔
تمباکوکی پیداوار کے لئے موزوں ترین ضلع صوابی کی آب و ہوا آلو کی کاشت کے لئے بھی یکساں موزوں ہے اوریہی وجہ ہے کہ نمائندہ تنظیم کی جانب سے کسانوں کو آئندہ تمباکوکی بجائے آلو کاشت کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔اگرچہ اِس تجویزمیں زرعی ماہرین کی رائے شامل نہیں اور نہ ہی تمباکو کی فصل اوراِس کی خریدوفروخت سے متعلق حکومتی ادارے کا ردعمل تاحال سامنے آیا ہے لیکن یقینی بات ہے کہ تمباکو کی کاشت کاری کم ہوئی تویہ کسی بھی فریق کے مسئلے کاحل نہیں بلکہ پہلے سے موجود مسائل کی شدت میں اضافے کا باعث ہوگا۔
خیبرپختون خوا میں غذائی خودکفالت کے لئے زرعی اجناس کی اہمیت سے انکار نہیں اور سبزی کی بلند قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاشت کاروں کی بڑی تعداد اِس جانب راغب ہو رہی ہے، تاہم مسئلہ اْس وقت پیش آتا ہے جب بیک وقت کوئی ایک سبزی بہت سے علاقوں سے سبزی منڈیوں تک پہنچتی ہے اور اْس وقت سبزی کی قیمت کو اعتدال پر رکھنا ممکن نہیں رہتا جس کی وجہ سے کاشت کاروں کو مالی نقصان ہوتا ہے یوں کسی فصل کے کل اخراجات تو بہت دور کی بات‘ فصل کو منڈی تک لے جانے کے اخراجات بھی نہیں ملتے۔ تمباکو کی کاشت کاری کم ہونے سے دہائیوں سے قائم معاشی وصنعتی نظام متاثر ہوگا، جس پر ہزاروں کی تعداد میں مقامی افراد کے روزگار کا انحصار ہے اور اِسی کے ذریعے مقامی چھوٹی صنعتوں کا پہیہ بھی چل رہا ہے۔
کسانوں کا مانناٰ ہے کہ تمباکو سے آلو کی کاشت کی طرف منتقل ہونے کی وجوہات میں ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیوں کا مخالفانہ رویہ، پاکستان ٹوبیکو بورڈ کی جانب سے اپناکردار ادا کرنے میں ناکامی، وفاقی حکومت کی جانب سے تمباکوپر 390 روپے فی کلوگرام ٹیکس عائدکرنے جیسے اقدامات شامل ہیں اوریہ سبھی مسائل بات چیت سے باآسانی حل ہو سکتے ہیں۔تمباکو کے کاشت کار اورکسان چاہتے ہیں کہ متعلقہ حکومتی اِدارے اْن کی کم زور مالی حیثیت اورفصل کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ادراک کریں۔ صوابی میں پہلے بھی آلوکی کاشت ہوتی رہی ہے لیکن اِس مرتبہ زیرکاشت رقبے میں دوگنا اضافے کا فیصلہ کیاگیا ہے اْوربقول نمائندہ تنظیم اگر آلو کی زیادہ بڑے پیمانے پر کاشت کا تجربہ کامیاب ہوا، تو اِس سے تمباکو کے کاشت کاروں کو مستقبل میں مزید زمینوں پر آلو کاشت کرنے کی ترغیب ملے گی۔
تمباکو کے کاشت کاروں کے تحفظات، خدشات، مسائل، مہنگائی، کیڑے مار ادویات اورکھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتیں زمینی حقائق ہیں جن کا کماحقہ ادراک کرنے کے لئے وفاقی وصوبائی حکومتوں، تمباکوخریدنے والی کمپنیوں، تمباکو کے تاجروں اورپاکستان ٹوبیکو بورڈ کے مل بیٹھنے سے درمیانی راستہ نکالاجاسکتا ہے جوکاشت کاروں کے مسائل کا تسلی بخش حل پرمبنی ہونا چاہئے۔
کاشت کاروں کواس وقت بہت سے مسائل ومشکلات کاسامنا ہے۔
1: پیداواری لاگت زیادہ، منافع کم
تمباکو کی کاشت دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے،کھاد، ادویات، ایندھن اور مزدوری جیسے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے مگر اس کے برعکس، کسانوں کو فی کلوگرام جو قیمت دی جاتی ہے وہ انتہائی کم اورغیر منصفانہ ہے۔یہ عدم توازن کسانوں کو غربت کے چکر میں جکڑ دیتا ہے، وہ جوکماتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ لگاتے ہیں اوران کے ہاتھ کچھ بھی نہیں بچتا،تمام حساب کتاب کے بعد کسان پھر سے قرض میں ڈوبارہتا ہے ۔
2: موسمی تباہ کن اثرات، 30 ارب روپے کا نقصان
امسال کسانوں کو بے وقت بارشوں اورژالہ باری نے سخت نقصان پہنچایاہے جس سے فصل کی کٹائی کے اہم ترین مرحلے پر شدید بارشوں کی شکل میں تباہی آئی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کسانوں اورکاشت کاروں کو 30 ارب روپے سے زائدکا نقصان ہوا ہے لیکن نہ توکسانوں کو کوئی ریلیف پیکیج دیاگیاہے اورنہ ہی کوئی معاوضہ۔
3: کمپنیوں کا استحصال
کئی تمباکوکمپنیاں صرف ’’پاک ون‘‘ گریڈ خریدنے پراصرار کررہی ہیں، باقی تمام گریڈزکو نظر اندازکردیاگیا ہے۔یہ طرزعمل کسانوں سے ناانصافی کے مترادف ہے کیوںکہ اچھی کوالٹی کی دیگرگریڈز والی تمباکو یا تو پڑی رہتی ہے یا کوڑیوں کے بھاؤخریدی جاتی ہے۔جس سے کسانوں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے ۔
4: ریگولیٹری اداروں کی خاموشی
تمباکوکمپنیاں تمام گریڈزمنصفانہ قیمت پر خریدنے کی پابند نہیں ہیں کیونکہ اس پر کوئی مؤثر قانون یا دباؤ موجود نہیں۔ پاکستان ٹوبیکو بورڈ، جس کاکام کسانوں کے مفادات کا تحفظ ہے، مکمل طور پر بے بس اورخاموش ہے۔یہ ادارہ نہ تو کارپوریٹ استحصال کے خلاف کھڑا ہوا اورنا ہی کسانوں کے حقوق کی مؤثر نمائندگی کی گئی۔
5: حکومت کی بے حسی
مرکزی حکومت کی عدم توجہی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے۔بارہا احتجاج اوراپیلوں کے باوجود پالیسی سازوں نے تمباکوسے وابستہ 75ہزار سے زائد مزدوروں کی روزی روٹی کو بچانے کے لیے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔سوال یہ ہے کہ یہ محض غفلت ہے یا کسی گہری سازش کا حصہ؟
6: کیا یہ سازش تو نہیں؟
جس طرح پہلے مکئی،چاول اورگندم کی پیداوارکو زوال کا شکارکیاگیا، اب تمباکو نشانے پر ہے۔صوبے کی اہم نقد آورفصل کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب کچھ جدیدیت یا صحت کے نام پر زراعت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑنے کی ایک منظم کوشش ہورہی ہو،جس سے کسان اورکاشت کار عجیب الجھن کے ساتھ معاشی مسائل سے بھی دوچار ہو رہے ہیں۔
7: آئی ایم ایف کا دباؤ
سرکاری پالیسیاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں خاص طور پر آئی ایم ایف کے دباؤ کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ اگرتمباکو کی کاشت ختم ہوگئی تو نتائج نہایت بھیانک ہوں گے،جس سے بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
75ہزار افراد کا روزگار خطرے میں
تمباکو صنعت کی زوال پذیری کے باعث براہ راست 75ہزارسے زائد افراد بے روزگارہوجائیں گے اورلاکھوں لوگ فاقہ کشی پر مجبورہوجائیں گے، اس کے ساتھ وفاقی خزانے کو سالانہ 250 ارب روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑے گاجب کہ صوبائی آمدن میں 1.
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ موجودہ تمباکوپالیسی صرف غیر موزوں نہیں بلکہ ناقابل برداشت بھی ہے۔یہ محنت کش کسانوں کوسزا دیتی ہے، دیہی معیشت کومفلوج کرتی ہے اورملک کو اہم ریونیو سے محروم کررہی ہے۔اگر حکومت نے فوری اصلاحی اقدامات نہ کیے تو نتائج ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں سامنے آئیں گے ۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سیلاب اور بارشوں سے کپاس کی فصل شدید متاثر
ویب ڈیسک:اوبارو اور گردونواح میں حالیہ شدید بارشوں نے نہ صرف فصلوں کو نقصان پہنچایا بلکہ کئی علاقوں میں پانی کھڑا ہونے سے کاشتکاری کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا ہے۔ خاص طور پر کپاس کی تیار فصل، جو کہ کٹائی کے قریب تھی، پانی میں ڈوب گئی جس کے باعث پیداوار مکمل طور پر ضائع ہو گئی۔
متاثرہ علاقوں میں کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی سال بھر کی محنت ایک ہی بارش میں ضائع ہو گئی، اور وہ اب مالی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کپاس کی فصل کی تباہی سے نہ صرف کسان متاثر ہوئے ہیں بلکہ مقامی معیشت پر بھی منفی اثر پڑا ہے، کیونکہ کپاس اوبارو کی اہم نقد آور فصلوں میں سے ایک ہے۔
رکن پنجاب اسمبلی علی امتیاز کا نام پی این آئی لسٹ سے نکالنے کی درخواست، جواب طلب
کسانوں نے حکومتِ سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر متاثرہ علاقوں کا سروے کروائے، اور نقصان کا تخمینہ لگا کر متاثرہ کسانوں کو مالی امداد فراہم کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ بارش کے پانی کے نکاس اور مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔